یوم پیدائش 27 جولائی 1970
کہنے کو گو عمر پڑی تھی
چھوٹا منہ اور بات بڑی تھی
تُند ہوا کا رستہ روکے
دھوئیں کی دیوار کھڑی تھی
آگ کا دریا پار کیا تو
سامنے بیٹھی دھوپ کڑی تھی
اپنوں کی بستی میں عارش
سب کو اپنی اپنی پڑی تھی
عارش کاشمیری
یوم پیدائش 27 جولائی 1970
کہنے کو گو عمر پڑی تھی
چھوٹا منہ اور بات بڑی تھی
تُند ہوا کا رستہ روکے
دھوئیں کی دیوار کھڑی تھی
آگ کا دریا پار کیا تو
سامنے بیٹھی دھوپ کڑی تھی
اپنوں کی بستی میں عارش
سب کو اپنی اپنی پڑی تھی
عارش کاشمیری
یوم پیدائش 17 مارچ 1970
ایسے چھلکاؤ نہ جذبات چلو سو جاؤ
ہو چکی اشکوں کی برسات چلو سو جاؤ
ساز اب تار نفس پہ تو مچلتے ہی نہیں
کیا سنیں ایسے میں نغمات چلو سو جاؤ
تھک کے سورج بھی سمندر میں سمایا دیکھو
شب کے ظاہر ہیں علامات چلو سو جا
دن کو سونے سے تو برکت نہیں آتی گھر میں
اب تو بدلو یہ روایات چلو سو جاؤ
سب کو دریا کے کنارے ہی ہوائیں ملتیں
ہیں یہ فرسودہ خیالات چلو سو جاؤ
زلف سے باندھ کے تابش کو یہیں قید کرو
ایسے ضائع نہ کرو رات چلو سو جاؤ
تابشِ رامپور ی ممبئی
یوم پیدائش 28 جولائی
حدودِ ذات سے آگے سفر نہیں کروں گا
مَیں کائنات سے آگے سفر نہیں کروں گا
رہوں گا شعر کی دنیا میں مست و بے خود مَیں
قلم دوات سے آگے سفر نہیں کروں گا
تو کیا سرور سے آگے مجھے نہیں جانا ؟
تو کیا ثبات سے آگے سفر نہیں کروں گا ؟
عجیب دن تھا جو کہتا تھا میرے کانوں میں
مَیں آج رات سے آگے سفر نہیں کروں گا
تمھارے ساتھ ہی چلنا ہے مجھ کو منزل پر
تمھارے ساتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا
کُھلا جو مجھ پہ تو مَیں خود سے ہو گیا بے دخل
کہ مَیں حیات سے آگے سفر نہیں کروں گا
مَیں اک لکیر ہوں کھینچی ہے جو مقدر نے
سو تیرے ہاتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا
تمھارے حکم کی تکمیل کرنا ہے مجھ کو
تمھاری بات سے آگے سفر نہیں کروں گا
یہ حدِ خاک مری زندگی ہے زیبؔ سو مَیں
اس احتیاط سے آگے سفر نہیں کروں گا
اورنگ زیبؔ
یوم پیدائش 28 جولائی 1970
اپنی وحشت سے جو ڈرتا ہی چلا جاتا ہے
دل کے صحرا میں بکھرتا ہی چلا جاتا ہے
اس کی باتوں کا دیا جلتا ہے جب آنکھوں میں
شہر شب نور سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے
کم نہیں مے سے محبت میں خیالوں کا نشہ
آدمی حد سے گزرتا ہی چلا جاتا ہے
تیری آواز کے شاداب جہانوں سے پرے
کوئی ویرانی سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے
دھوپ اس شہر کی گلیوں میں کہاں ٹھہرے گی
سائے پر سایہ اترتا ہی چلا جاتا ہے
وقت کا یہ ہے کہ ہر تلخی و شیرینی سمیت
سلسلہ وار گزرتا ہی چلا جاتا ہے
وصل کا ایک اشارا بھی بہت ہے ہم کو
ہجر کا زخم تو بھرتا ہی چلا جاتا ہے
اشفاق عامر
یوم پیدائش 28 جولائی 1945
پتھر سے وصال مانگتی ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں
شاید پاؤں سراغ الفت
مٹھی میں خاک بھر رہی ہوں
ہر لمس ہے جب تپش سے عاری
کس آنچ سے یوں پگھل رہی ہوں
وہ خواہش بوسہ بھی نہیں اب
حیرت سے ہونٹ کاٹتی ہوں
اک طفلک جستجو ہوں شاید
میں اپنے بدن سے کھیلتی ہوں
اب طبع کسی پہ کیوں ہو راغب
انسانوں کو برت چکی ہوں
فہمیدہ ریاض
یوم پیدائش 28 جولائی 1962
بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا
کہیں سراغ وفا قصہ مختصر نہ ملا
مچل رہے تھے جبین نیاز میں سجدے
یہ اور بات مقدر سے سنگ در نہ ملا
کریدتے رہے سب دوست میرے زخموں کو
سبھی نے طنز کیے کوئی چارہ گر نہ ملا
وہ کربلا تو نہیں دوستوں کی بستی تھی
تڑپتے رہ گئے پانی کو بوند بھر نہ ملا
ہجوم یاروں کا تھا میرے ساتھ ساحل تک
سمندروں میں مگر کوئی ہم سفر نہ ملا
لکھا کے لائے تھے محرومیاں مقدر میں
تجھے دعا نہ ملی اور مجھے اثر نہ ملا
ابھی تو اشک کی اک بوند سے یہ طوفاں ہے
قدم سنبھال لے اور آہ میں شرر نہ ملا
قدم بڑھائے تو پایاب تھا ہر اک دریا
مگر تلاش تھی جس کی وہی گہر نہ ملا
ہم اپنی زیست کو کرتے بھی کیا رقم اظہرؔ
ورق ملا بھی جو سیمیں تو آب زر نہ ملا
اظہر غوری
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی
ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا
میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ
کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ
میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ
میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ
میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ
واصف علی واصفؔ
جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے
اُن کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
چاند تارے مرے قدموں میں بچھے جاتے ہیں
یہ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے
ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہو جائے کہیں
سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر لگتا ہے
انجم رہبر
بیچ دی پوری حویلی اک مکاں رہنے دیا
نوچ ڈالے لحم لیکن استخواں رہنے دیا
چھوڑ رکھا ہے اسے بیشک اسی کے حال پر
بد گماں وہ ہو گیا تو بد گماں رہنے دیا
مسکراہٹ جان لیوا ہو بھی سکتی ہے کبھی
بس تعلق کا نشاں ہم نے میاں رہنے دیا
وصل کی ساری خوشی کافور ہوکر رہ گئی
اک 'مگر' بھی آپ نے جب درمیاں رہنے دیا
بزدلی سے واسطہ اس کو نہیں ہے باخدا
حوصلہ محمود نے ہردم جواں رہنے دیا
محمد محمود عالم آسنسول
یوم پیدائش 27 جولائی 1953
ہر شخص آج خود سے ہے بیزار دیکھیے
مفقود ہیں سکون کے آثار دیکھیے
پھر تندرست کیسے فضائے چمن رہے
ہیں باغباں بھی ذہن سے بیمار دیکھیے
پھر کیسے ان سے کیجئے تعمیر کی امید
بہکے ہوئے ہیں قوم کے معمار دیکھیے
کیسے ضمیر بیچ کے رہتے ہیں مطمئن
کیسے فروغ پاتے ہیں مکّار دیکھیے
آشوبِ روزگا سے جینا محال ہے
بیٹھے ہیں ہاتھ باندھ کے فن کار دیکھیے
کس گُل کی آزو لئے گلشن میں جائیے
کیا خالی جیب رونقِ بازار دیکھیے
پھر مسترد بھی کیجے میرا عشق شوق سے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اک بار دیکھیے
کیا خوب ترجمان ہے فطری جمال کی
گُل سے پریدہ خوشبو کی جھنکار دیکھیے
پھر کیسے اتّحاد ہو جمہور میں امینؔ
بغض و حسد کی ہر سو ہے یلغار دیکھیے
امین جس پوری
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...