Urdu Deccan

Saturday, July 31, 2021

عارش کاشمیری

 یوم پیدائش 27 جولائی 1970


کہنے کو گو عمر پڑی تھی

چھوٹا منہ اور بات بڑی تھی


تُند ہوا کا رستہ روکے

دھوئیں کی دیوار کھڑی تھی


آگ کا دریا پار کیا تو

سامنے بیٹھی دھوپ کڑی تھی


اپنوں کی بستی میں عارش

سب کو اپنی اپنی پڑی تھی


عارش کاشمیری


تابش رامپوری ممبئی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1970


ایسے چھلکاؤ نہ جذبات چلو سو جاؤ

ہو چکی اشکوں کی برسات چلو سو جاؤ


ساز اب تار نفس پہ تو مچلتے ہی نہیں 

کیا سنیں ایسے میں نغمات چلو سو جاؤ


تھک کے سورج بھی سمندر میں سمایا دیکھو 

شب کے ظاہر ہیں علامات چلو سو جا 


دن کو سونے سے تو برکت نہیں آتی گھر میں

اب تو بدلو یہ روایات چلو سو جاؤ


سب کو دریا کے کنارے ہی ہوائیں ملتیں

ہیں یہ فرسودہ خیالات چلو سو جاؤ


زلف سے باندھ کے تابش کو یہیں قید کرو

ایسے ضائع نہ کرو رات چلو سو جاؤ


تابشِ رامپور ی ممبئی


اورنگ زیب

 یوم پیدائش 28 جولائی


حدودِ ذات سے آگے سفر نہیں کروں گا

مَیں کائنات سے آگے سفر نہیں کروں گا


رہوں گا شعر کی دنیا میں مست و بے خود مَیں

قلم دوات سے آگے سفر نہیں کروں گا


تو کیا سرور سے آگے مجھے نہیں جانا ؟

تو کیا ثبات سے آگے سفر نہیں کروں گا ؟


عجیب دن تھا جو کہتا تھا میرے کانوں میں

مَیں آج رات سے آگے سفر نہیں کروں گا


تمھارے ساتھ ہی چلنا ہے مجھ کو منزل پر

تمھارے ساتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا


کُھلا جو مجھ پہ تو مَیں خود سے ہو گیا بے دخل

کہ مَیں حیات سے آگے سفر نہیں کروں گا


مَیں اک لکیر ہوں کھینچی ہے جو مقدر نے

سو تیرے ہاتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا


تمھارے حکم کی تکمیل کرنا ہے مجھ کو

تمھاری بات سے آگے سفر نہیں کروں گا


یہ حدِ خاک مری زندگی ہے زیبؔ سو مَیں

اس احتیاط سے آگے سفر نہیں کروں گا


اورنگ زیبؔ


اشفاق عامر

 یوم پیدائش 28 جولائی 1970


اپنی وحشت سے جو ڈرتا ہی چلا جاتا ہے

دل کے صحرا میں بکھرتا ہی چلا جاتا ہے


اس کی باتوں کا دیا جلتا ہے جب آنکھوں میں

شہر شب نور سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے


کم نہیں مے سے محبت میں خیالوں کا نشہ

آدمی حد سے گزرتا ہی چلا جاتا ہے


تیری آواز کے شاداب جہانوں سے پرے

کوئی ویرانی سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے


دھوپ اس شہر کی گلیوں میں کہاں ٹھہرے گی

سائے پر سایہ اترتا ہی چلا جاتا ہے


وقت کا یہ ہے کہ ہر تلخی و شیرینی سمیت

سلسلہ وار گزرتا ہی چلا جاتا ہے


وصل کا ایک اشارا بھی بہت ہے ہم کو

ہجر کا زخم تو بھرتا ہی چلا جاتا ہے


اشفاق عامر


فہمیدہ ریاض

 یوم پیدائش 28 جولائی 1945


پتھر سے وصال مانگتی ہوں

میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں


شاید پاؤں سراغ الفت

مٹھی میں خاک بھر رہی ہوں


ہر لمس ہے جب تپش سے عاری

کس آنچ سے یوں پگھل رہی ہوں


وہ خواہش بوسہ بھی نہیں اب

حیرت سے ہونٹ کاٹتی ہوں


اک طفلک جستجو ہوں شاید

میں اپنے بدن سے کھیلتی ہوں


اب طبع کسی پہ کیوں ہو راغب

انسانوں کو برت چکی ہوں


فہمیدہ ریاض


اظہر غوری

 یوم پیدائش 28 جولائی 1962


بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا

کہیں سراغ وفا قصہ مختصر نہ ملا


مچل رہے تھے جبین نیاز میں سجدے

یہ اور بات مقدر سے سنگ در نہ ملا


کریدتے رہے سب دوست میرے زخموں کو

سبھی نے طنز کیے کوئی چارہ گر نہ ملا


وہ کربلا تو نہیں دوستوں کی بستی تھی

تڑپتے رہ گئے پانی کو بوند بھر نہ ملا


ہجوم یاروں کا تھا میرے ساتھ ساحل تک

سمندروں میں مگر کوئی ہم سفر نہ ملا


لکھا کے لائے تھے محرومیاں مقدر میں

تجھے دعا نہ ملی اور مجھے اثر نہ ملا


ابھی تو اشک کی اک بوند سے یہ طوفاں ہے

قدم سنبھال لے اور آہ میں شرر نہ ملا


قدم بڑھائے تو پایاب تھا ہر اک دریا

مگر تلاش تھی جس کی وہی گہر نہ ملا


ہم اپنی زیست کو کرتے بھی کیا رقم اظہرؔ

ورق ملا بھی جو سیمیں تو آب زر نہ ملا


اظہر غوری


واصف علی واصف

 میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ

میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا


میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی

ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا


میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں

میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ


کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں

خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ


میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں

میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ


میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں

میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ


میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں

اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ


واصف علی واصفؔ


Tuesday, July 27, 2021

انجم رہبر

 جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

اُن کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے


چاند تارے مرے قدموں میں بچھے جاتے ہیں

یہ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے


ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہو جائے کہیں

سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر لگتا ہے


انجم رہبر


محمد محمود عالم

 بیچ دی پوری حویلی اک مکاں رہنے دیا 

نوچ ڈالے لحم لیکن استخواں رہنے دیا


چھوڑ رکھا ہے اسے بیشک اسی کے حال پر 

بد گماں وہ ہو گیا تو بد گماں رہنے دیا 


مسکراہٹ جان لیوا ہو بھی سکتی ہے کبھی 

بس تعلق کا نشاں ہم نے میاں رہنے دیا 


وصل کی ساری خوشی کافور ہوکر رہ گئی 

اک 'مگر' بھی آپ نے جب درمیاں رہنے دیا 


 بزدلی سے واسطہ اس کو نہیں ہے باخدا 

حوصلہ محمود نے ہردم جواں رہنے دیا 


محمد محمود عالم آسنسول


امین جس پوری

 یوم پیدائش 27 جولائی 1953 


ہر شخص آج خود سے ہے بیزار دیکھیے

مفقود ہیں سکون کے آثار دیکھیے


پھر تندرست کیسے فضائے چمن رہے

ہیں باغباں بھی ذہن سے بیمار دیکھیے


پھر کیسے ان سے کیجئے تعمیر کی امید

بہکے ہوئے ہیں قوم کے معمار دیکھیے


کیسے ضمیر بیچ کے رہتے ہیں مطمئن

 کیسے فروغ پاتے ہیں مکّار دیکھیے


آشوبِ روزگا سے جینا محال ہے

بیٹھے ہیں ہاتھ باندھ کے فن کار دیکھیے


کس گُل کی آزو لئے گلشن میں جائیے 

کیا خالی جیب رونقِ بازار دیکھیے


پھر مسترد بھی کیجے میرا عشق شوق سے

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اک بار دیکھیے


کیا خوب ترجمان ہے فطری جمال کی

گُل سے پریدہ خوشبو کی جھنکار دیکھیے


پھر کیسے اتّحاد ہو جمہور میں امینؔ

بغض و حسد کی ہر سو ہے یلغار دیکھیے


امین جس پوری



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...