Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

اسلم کولسری

 یوم پیدائش 01 آگسٹ 1946


جب میں اس کے گاؤں سے باہر نکلا تھا

ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا


مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی

اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا


شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی

بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا


میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے

بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا


شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا


اسلم کولسری


Saturday, July 31, 2021

کامران ترمذی

 یوم پیدائش 31 جولائی 1993


رہبر ہی اگر اپنا, رہزن نہ بنا ہوتا

مقتل یہ سجا ہوتا نہ خون بہا ہوتا


تم پہ بھی اگر واعظ, یہ راز کھلا ہوتا

دیوانہ بنا ہوتا, مستانہ بنا ہوتا


ہم بندگیِ بت سے, ہوتے نہ کبھی کافر

ہر جائے اگر مومن, موجود خدا ہوتا


یہ جامِ فنا جسکو سمجھا ہے ہلاہل تُو

ناصح یہ تو امرِت ہے, دو گھونٹ پیا ہوتا


پل بھر کی کہانی تھی, دم بھر کا فسانہ تھا

ہم اُسکو سنا دیتے, ہمدم جو ملا ہوتا


منظور اگر اسکو تھا مجھ سے جدا ہونا

تیور نہ بدلتا وہ, میں ہنس کے جدا ہوتا


کامران ترمذی


تضمین غزلِ مومن خان مومن


سردار سلیم

 بہت نایاب ہوتی جا رہی ہے

محبت خواب ہوتی جا رہی ہے


مرے الفاظ تارے بن گئے ہیں

غزل مہتاب ہوتی جا رہی ہے


یہ کس کی تشنگی کا ہے کرشمہ

ندی پایاب ہوتی جا رہی ہے


لپیٹے میں نہ لے لے آسماں کو

زمیں گرداب ہوتی جا رہی ہے


سماعت ہو رہی ہے پارہ پارہ

زباں تیزاب ہوتی جا رہی ہے


سلیم اب ہوش مندی بھی تمھاری

جنوں کا باب ہوتی جا رہی ہے


سردار سلیم


علی راحل بورے والا

 چڑھتے ہوٸے سورج کا پرستار ہوا ہے

مسلک یہی دنیا کا مرے یار ہوا ہے


مطلوب رہی خوشیاں زمانے کو ہمیشہ

کب کون یہاں غم کا طلبگار ہوا ہے


جس نے بھی کیا ورد اناالحق کا یہاں پر

دنیا کی نظر میں وہ گنہگار ہوا ہے


جو تاج محل سپنوں میں تعمیر کیا تھا

جب آنکھ کھلی میری وہ مسمار ہوا ہے


کانٹوں کی یہاں داد رسی کون کرے گا

ہر بندہ ہی پھولوں کا طرفدار ہوا ہے


حقدار رعایت کا کسی طور نہیں وہ

جو شخص محبت کا خطاوار ہوا ہے


ہر رستے کی دیوار گراٸی میں نے جس کی

اب وہ ہی مری راہ کی دیوار ہوا ہے

 

کیا پوچھتے ہو اس کے میاں وعدے کا انجام

وہ ہی ہوا انجام جو ہر بار ہوا ہے


سینچا ہے اسےخون جگر سے میں نے رَاِحِلؔ

یونہی تو نہیں پیڑ ثمر بار ہوا ہے


علی رَاحِلؔ بورے والا


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 منشی پریم چند 31 جولائی 1880


اردو ادب کی شان تھے منشی پریم چند

اہل نظر کی جان تھے منشی پریم چند


اردو میں روح عصر ہیں ان کی نگارشات

خوش فکرو خوش بیان تھے منشی پریم چند


اجداد ان کے گرچہ قدامت پسند تھے

پر فکر سے جوان تھے منشی پریم چند


کرداروں کے وسیلے سے ان کی زبان میں

لوگوں کے ترجمان تھے منشی پریم چند


٫گودان ٫ہو ٫ غبن ٫ ہو کہ ٫ بازار حسن ہو

فنکار اک مہان تھے منشی پریم چند


بیحد عزیز تھی انھیں انسان دوستی

انسان مہربان تھے منشی پریم چند


سینے میں جن کے برقی تھا اک دردمند دل

وہ حامی کسان تھے منشی پریم چند


احمد علی برقی اعظمی


سلمان اختر

 یوم پیدائش 31 جولائی 1946


وہ پاس رہ کے بھی مجھ میں سما نہیں سکتا

وہ مدتوں نہ ملے دور جا نہیں سکتا


وہ ایک یاد جو دل سے مٹی نہیں اب تک

وہ ایک نام جو ہونٹوں پہ آ نہیں سکتا


وہ اک ہنسی جو کھنکتی ہے اب بھی کانوں میں

وہ اک لطیفہ جو اب یاد آ نہیں سکتا


وہ ایک خواب جو پھر لوٹ کر نہیں آیا

وہ اک خیال جسے میں بھلا نہیں سکتا


وہ ایک شعر جو میں نے کہا نہیں اب تک

وہ ایک راز جسے میں چھپا نہیں سکتا


سلمان اختر


اظہر ادیب

 یوم پیدائش 31 جولائی 1945


کچھ اب کے رسم جہاں کے خلاف کرنا ہے

شکست دے کے عدو کو معاف کرنا ہے


ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت

ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے


وہ بولتا ہے تو سب لوگ ایسے سنتے ہیں

کہ جیسے اس نے کوئی انکشاف کرنا ہے


مجھے پتہ ہے کہ اپنے بیان سے اس نے

کہاں کہاں پہ ابھی انحراف کرنا ہے


چراغ لے کے ہتھیلی پہ گھومنا ایسے

ہوائے تند کو اپنے خلاف کرنا ہے


وہ جرم ہم سے جو سرزد نہیں ہوئے اظہرؔ

ابھی تو ان کا ہمیں اعتراف کرنا ہے


اظہر ادیب


جمیل دوشی

 یوم پیدائش 15 جولائی 1951


تیری طرف ہوں اور کنارے کھڑا ہوں میں 

اب یہ گلہ نہ کرنا ادھر جا ملا ہوں میں


میری شکست پر ہی اگر منحصر ہے امن

تو لے بغیر شرط سپر ڈالتا ہوں


وہ ہے کہ مجھ سے روٹھ گیا ہے بغیر بات

میں ہوں اسے بھی اپنی خطا مانتا ہوں میں


میں سوچتا ہوں میرے سوا سب سکوں سے ہیں

اور پھر یہ سوچتا ہوں غلط سوچتا ہوں میں 


میں اپنے آپ خود کہیں چھپ جاتا ہوں جمیل

پھر خود کو پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا ہوں میں 


جمیل دوشی


غلام جیلانی قمر

 یوم پیدائش 01 فروری 2002


دل کی بے چارگی سے الجھا ہوں

یعنی میں عاشقی سے الجھا ہوں


آدمی آدمی کو ہے معلوم

میں کسی آدمی سے الجھاہوں


تب سے الجھن نہیں مجھے کوئی

جب سےمیں عاشقی سےالجھا ہوں


مجھ کو الجھن ہوئی الجھنے میں

میں بڑی سادگی سے الجھا ہوں


بجھ نہ جائے کہیں چراغ سحر

آج میں چاندنی سے الجھاہوں


باطنی تو تری خدا جانے 

میں تری ظاہری سےالجھاہوں


غلام جیلانی قمر


آلوک یادو

 یوم پیدائش 30 جولائی 1960


فیصلہ ممکن ہے یوں منصف اگر عادل نہ ہو

قتل تو ہوتے رہیں ثابت کوئی قاتل نہ ہو


مشکلیں آساں نہ ہوں میری تو مجھ کو غم نہیں

پر جو ہے آساں کم از کم وہ تو اب مشکل نہ ہو


دفن ہیں دفتر کی فائل میں ہزاروں مسئلے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے قبر ہو فائل نہ ہو


ختم ہونے کو سفر ہے ساتھ چھوٹا جائے ہے

چاہتا ہے دل مرا منزل ابھی حاصل نہ ہو


عشق ہے ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں

یعنی اک کشتی کہ جس کے واسطے ساحل نہ ہو


آلوک یادو


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...