Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

اسد لاہوری

 شہرِ وفا کی دید ہے، بندے کی آرزو

محبوب کے مقام کو تکنے کی آرزو


آداب، اے حضور! کہ لازم ہے کچھ شعور

ہے شہرِ دلربا میں جو جینے کی آرزو


یہ وہ مقامِ ناز ہے جس کے عروج پر

ملتی ہے ہر عروج کو ڈھلنے کی آرزو


قربت میں ان کی آئے، تو حالت عجب ہے اب

"ہر گام پر جبیں کو ہے سجدے کی آرزو"


ڈانٹیں ہمیں، یا دور ہی جانے کا حکم دیں

کانوں کو ہے جناب کے لہجے کی آرزو


ان کا وصال ہم کو اگر ہو کبھی نصیب

پوری ہو جائے موت پہ قبضے کی آرزو


اسعد جی! آپ یاس میں کاٹیں نہ کل حیات

زندہ رکھیں بچھڑ کے بھی ملنے کی آرزو


اسعدلاہوری


خورشید بھارتی

 یوم پیدائش 05 اگست


عشق کرنے کا صلہ دربار میں رکھا ہوا ہے

جسم اس کا آج بھی دیوار میں رکھا ہوا ہے


پڑھ کے خبریں آنکھوں سے میری ٹپکتا ہے لہو اب

حادثہ در حادثہ اخبار میں رکھا ہوا ہے


جلوہء پرنور دیکھا آپ کا تو دل یہ بولا

چاند جیسے کاٹ کر رخسار میں رکھا ہوا ہے


دوستو سچ بولنے کا میں نے یہ انعام پایا

سر قلم کر کے مرا دربار میں رکھا ہوا ہے 


خورشید بھارتی


لطیف ساجد

 یوم پیدائش 05 اگست


کانپتے ہونٹ ہیں آواز میں دھیما پن ہے

کتنا دشوار کنیزوں کا کنوارا پن ہے


یہ کسی ایک کہانی سے نہیں اَخذ شدہ

جھوٹ تاریخ کا مجموعی کمینہ پن ہے


اشک ہیں نُوری خزینوں کے نگینے جیسے

تیرے غمگین کی آنکھوں میں اچھوتا پن ہے


معذرت آپ کی آواز نہیں سُن پایا

میرے ہمراہ کئی سال سے بہرا پن ہے


ہم خد و خال سے اندازہ لگا لیتے ہیں

واقعی دشت ہے یا ذہن کا سُوکھا پن ہے


جلتے خیموں کا دھواں ساتھ لیے پھرتا ہوں

غم کا احساس مری ذات کا کڑوا پن ہے


خوبصورت ہے مگر شک میں گھری ہے ساجد

جیسے دنیا کسی مٹیار کا سُونا پن ہے


لطیف ساجد


جلیل نظامی

 یوم پیدائش 05 اگست 1957


سر پھر نہ اٹھا پاؤں ترے در پہ جھکا کر

اتنی تو بلندی مجھے اللہ عطا کر


رکھوں ترے ہر غم کو میں سینے سے لگا کر

چھوڑے گی یہ خواہش مجھے دیوانہ بنا کر


آنسو ہوں تو کردے کسی دامن کے حوالے

موتی ہوں تو رکھ لے مجھے پلکوں پہ سجا کر


آئینہ دکھانا تو حریفوں کا عمل ہے

ائے دوست نصیحت نہیں امداد کیا کر


ہم پیاس بجھانے میں رہے دشت بلا کی

وہ آ بھی گئے جاکے سمندر کو جلا کر


آزردگئی شوق کی روداد مفصل

ہم اور بھی رسوا ہوئے یاروں کو سناکر


قدموں سے لپٹ جاتی ہے کمبخت یہ دنیا

دھتکاروں جلیل اس کو جو نظروں سے گرا کر


 جلیل نظامی


منظر ایوبی

 یوم پیدائش 04 اگست 1932


وصال و ہجر کے قصے نہ یوں سناؤ ہمیں

اب اس عذاب شب و روز سے بچاؤ ہمیں


کسی بھی گھر میں سہی روشنی تو ہے ہم سے

نمود صبح سے پہلے تو مت بجھاؤ ہمیں


نہیں ہے خون شہیداں کی کوئی قدر یہاں

لگا کے داؤ پہ ہم کو نہ یوں گنواؤ ہمیں


تمام عمر کا سودا ہے ایک پل کا نہیں

بہت ہی سوچ سمجھ کر گلے لگاؤ ہمیں


گزر چکے ہیں مقام جنوں سے دیوانے

یہ جان لینا اگر کل یہاں نہ پاؤ ہمیں


ہمارے خوں سے نکھر جائے غم تو کیا کہنا

بڑھاؤ دست ستم دار پر چڑھاؤ ہمیں


کرشمہ سازیٔ فکر و نظر سے کیا حاصل

بنے ہو خضر تو پھر راستہ دکھاؤ ہمیں


یہ لمحہ بھر کا تصور تو جان لیوا ہے

جو یاد آؤ تو تا عمر یاد آؤ ہمیں


کتاب عشق ہیں لیکن نہ اتنی فرسودہ

کہ بے پڑھے ہی فقط میز پر سجاؤ ہمیں


اجڑ نہ جائے عروس سخن کی مانگ کہیں

خیال و فن کی نئی جنگ سے بچاؤ ہمیں


منظر ایوبی


اختر انصاری اکبرآبادی

 یوم پیدائش 05 جولائی 1920


دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ

موت بھی زندگی ہے غور سے دیکھ


ان چراغوں کے بعد اے دنیا

کس قدر تیرگی ہے غور سے دیکھ


رہنماؤں کا جذبۂ ایثار

یہ بھی اک رہزنی ہے غور سے دیکھ


دشمنی کو برا نہ کہہ اے دوست

دیکھ کیا دوستی ہے غور سے دیکھ


ترک تدبیر و جستجو کے بعد

زندگی زندگی ہے غور سے دیکھ


گر یہ شبنم کا رنگ لایا ہے

ہر طرف تازگی ہے غور سے دیکھ


ہیں تحیر میں وہ بھی اے اخترؔ

کیا تری شاعری ہے غور سے دیکھ


اختر انصاری اکبرآبادی


ایس ڈی عابد

 عقل ہے تو گیان بھی ہو گا 

ہے زباں تو بیان بھی ہو گا


جانے والے کو ۔۔ ڈھونڈ لوں گا میں

کچھ کہیں تو نشان بھی ہو گا


سوچ لینا تُو پہلے کرنے سے 

عشق میں امتحان بھی ہو گا


آج محفل ہے حُسن والوں کی

صاحبِ صاحبان بھی ہو گا


سارے دشمن نہیں زمانے میں 

کوئی تو مہربان بھی ہو گا


شہر سارا تو بدزبان نہیں  

ایک تو خوش گمان بھی ہو گا


اِن دنوں جو فقط کہانی ہے 

کل وہی داستان بھی ہو گا


قتل پُھولوں کا کرنے والوں میں

دیکھنا باغبان بھی ہو گا


عشق میں سب تو مر نہیں جاتے

کوئی تو نیم جان بھی ہوگا 


مانتا ہوں کہ سارے طالب ہیں 

طالبِ طالبان بھی ہو گا 


حشر کے دن کی ایک خوبی ہے 

سیّدِ سیّدان بھی ہو گا 


حُسن ہے یہ حساب کے دن کا

جلوہ گر لامکان بھی ہوگا 


عاجزی جس نے عابدؔ اپنا لی

ایک دن کامران بھی ہو گا


 ایس،ڈی،عابدؔ


فرید پربتی

 یوم پیدائش 04 اگست 1961


اور کچھ اس کے سوا اہل نظر جانتے ہیں

پگڑیاں اپنی بچانے کا ہنر جانتے ہیں


اک ستارے کو ضیا بار دکھانے کے لئے

وہ بجھائیں گے سبھی شمس و قمر جانتے ہیں


خواب میں دیکھتے ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی کھلی

دور ہو جائے گا اب شہر سے ڈر جانتے ہیں


میزبانی تھی کبھی جن میں میسر تیری

پلٹ آئیں گے وہی شام و سحر جانتے ہیں


تری جھولی میں ستارے یہ نہیں گرنے کے

ہر طلب گار کا وہ طرز نظر جانتے ہیں


یہ جو سستانے یہاں آتے ہیں صاحب اک دن

سائے کے ساتھ وہ مانگیں گے شجر جانتے ہیں


تیز آندھی سے دیے سارے بچانے کو فریدؔ

خود کو رکھے گا سر راہ گزر جانتے ہیں


فرید پربتی


ارشد سراغ

 یوم پیدائش 04 اگست


دم بہ دم جاری سفر ہے اپنے پیارے کی طرف 

جا رہا ہوں جاودانی استعارے کی طرف 


دھڑکنیں بھی تیز ہونے لگ گئیں گاڑی کے ساتھ  

اس نے جاتے وقت کب دیکھا اشارے کی طرف 


آ رہی ہے ایک آندھی رنج و غم کی شہر میں

جاں بچانے کو سبھی دوڑے سہارے کی طرف


اپنے بچوں کو تھا سمجھانا مجھے مفہوم عشق

 اس لیے میں چل دیا تھا بہتے دھارے کی طرف

  

ساری دنیا کی توجہ ۔۔۔چاند سے چہرے پہ تھی 

میری نظریں تھی چمکتے اک ستارے کی طرف


ایک بچہ چپ کھڑا ہے عرش میں گاڑے نظر  

دیکھتا ہے کتنی حسرت سے غبارے کی طرف


اس کی آنکھوں میں لکھی تھی آخری خواہش سُراغ 

ڈوبنے والے کا چہرہ تھا کنارے کی طرف


ارشد سراغ


احسان علی احسان

 یوم پیدائش 04 اگست


رات بھر بھوک فاقہ کھلاتی رہی 

مفلسی شادمانی کو کھاتی رہی 


فاصلے قربتوں کا مقدر ہوئے

زندگی وحشتوں کو جگاتی رہی  


آج فرطِ قلق کا وہ ہنگام تھا 

میرے دل کو اداسی ڈراتی رہی


بند ہونے لگی آس کی کھڑکیاں 

زندگی پہ مری بے ثباتی رہی


آئی آزار کھینچے ہوئے زندگی

اور نگاہِ رمیده رلاتی رہی 


آگ نے میرے دل کو بھی جھلسا دیا

راکھ سی زندگانی اڑاتی رہی


میرے گلشن میں اتری ہوئی چاندنی 

نغمہ ہائے اجل گنگناتی رہی


احسان علی احسان


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...