Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

راغب تحسین

 یوم پیدائش 28 اگست 1962 


یہ کس حساب سے آئی ہمارے حصّے موت

تمام عمر قیامت ، تمام رستے موت


کھلا کہ واعظ ِ عیار غیر کا ہے رفیق

سو ہم تو شوق ِ شہادت میں مر گئے بے موت


ہے میرے گرد مسلسل کسی کرم کا حصار

گزر رہی ہے مسلسل نظر بچا کے موت


یہ کون ہے کہ جو صحرا میں ڈھونڈتا ہے حیات

یہ کون ہے کہ جو شہروں میں بانٹتا ہے موت


نہ پوچھ ہم سے مکافات ِ کار کی امید

نصیب ِ زیست ہوئی موت ماورائے موت


کیا جو ہم نے کبھی یونہی روز و شب کا حساب

کھلا کہ کچھ بھی نہیں زندگی سوائے موت


سخن بھی کیسے ہو آشوب ِ شہر سے محفوظ

غزل ہے نوحہ نما اور ردیف تک ہے" موت "


راغب تحسین


محمد حازم حسان

 یوم پیدائش 28 اگست 1959


دے خدا وسعت تو سب کے کام آنا چاہیے 

دل میں دشمن کے بھی گھر اپنا بنانا چاہیے 


آپ کے دل میں جگہ میرے لئے کیا سچ ہے یہ 

اللہ اللہ اس سے بہتر کیا ٹھکانہ ہے 


گر کبھی نفرت کی کوئی لہر اٹھے قلب سے 

جس طرح ہو اس کو تو قابو میں لانا چاہیے 


بانٹتے ہی چاہیے رہنا محبت کے گلاب 

دل کے گلشن کو کہا کس نے سجانا چاہیے 


انجمن کوئی ہو اور دامن کسی کا بھی ہو وہ 

خوشبوؤں میں سب کے دامن کو بسانا چاہیے 


راز دل افشا نہ ہو حسانؔ ہے بہتر یہی 

حال دل کھل کر کبھی لب پر نہ لانا چاہیے


محمد حازم حسان


حنیف دانش اندوری

 یوم پیدائش 28 اگست 1971


جھوٹ کو سچ تو مرے یار بنا سکتا ہے 

یہ ہنر سن تجھے سردار بنا سکتا ہے 


تجھ کو بھی حق ہے سیاست میں چلے جانے کا 

تو اگر ریت کی دیوار بنا سکتا ہے 


یہ نیا دور ترقی ہے یہاں سکوں سے 

کوئی خرقہ کوئی دستار بنا سکتا ہے 


مختلف روگ کی بس ایک دوا دے دے کر 

یہ مسیحا ہمیں بیمار بنا سکتا ہے 


زعم سجدوں کا جبیں پر نہ سجائے پھریے 

یہ تکبر بھی گنہ گار بنا سکتا ہے 


ہوش والوں میں یہ چرچا بھی بہت عام ہوا 

مجھ کو پاگل بھی مرا یار بنا سکتا ہے 


ڈال کر خواب نئے ادھ کھلی آنکھو میں یہاں 

شعبدہ‌ باز بھی سرکار بنا سکتا ہے 


بوجھ ہو تیری انا پر جو سہارا دانشؔ 

وہ سہارا تجھے لاچار بنا سکتا ہے


حنیف دانش اندوری


محمد عارف

 دِل، کہ روتا رہا تھا جلنے تک

گُل تھے خنداں مگر مسلنے تک


میری سانسیں تلک تمہاری ہیں

 میں تمہارا ہوں دَم نکلنے تک


 ہوش آتے لگے گی تھوڑی دیر

 بس ذرا تھام لو سنبھلنے تک


تم نہیں ہو تو یہ بہار ہی کیا

 کاش! آجاؤ رُت بدلنے تک


مات کھا جاؤں گا یہ طے ہے مگر

دَم تو لینے دو چال چلنے تک


جب سُلگنا ہی ہے مقدّر میں

 شمع روتی ہے کیوں پگھلنے تک


 ہونے والی ہے صبحِ نَو طالعِ

 یہ اندھیرے ہی رات ڈھلنے تک


 محمد عارف


زبیر علی تابش

 یوم پیدائش 27 اگست 1987


راستے جو بھی چمک دار نظر آتے ہیں 

سب تیری اوڑھنی کے تار نظر آتے ہیں 


کوئی پاگل ہی محبت سے نوازے گا مجھے 

آپ تو خیر سمجھ دار نظر آتے ہیں 


میں کہاں جاؤں کروں کس سے شکایت اس کی 

ہر طرف اس کے طرفدار نظر آتے ہیں 


زخم بھرنے لگے ہیں پچھلی ملاقاتوں کے 

پھر ملاقات کے آثار نظر آتے ہیں 


ایک ہی بار نظر پڑتی ہے ان پر تابشؔ 

اور پھر وہ ہی لگاتار نظر آتے ہیں


زبیر علی تابش


نہال سیوہاروی

 یوم پیدائش 27 اگست 1909


اک شخص جواں خاک بسر یاد تو ہوگا

وہ اپنی نگاہوں کا اثر یاد تو ہوگا


وہ دھوم زمانے میں مرے جوش جنوں کی

وہ غلغلۂ شام و سحر یاد تو ہوگا


بھولے تو نہ ہو گے وہ تجلی کی حکایت

وہ تذکرۂ داغ جگر یاد تو ہوگا


ہر گام پہ وہ حسن کی پر ہوش نگاہیں

وہ عشق کا بد مست سفر یاد تو ہوگا


ہر لمحہ وہ دنیائے محبت میں تغیر

ہر سانس میں وہ رنگ دگر یاد تو ہوگا


وہ دل کو ترے حسن خود آرا سے تعلق

وہ خاک سے پیمان نظر یاد تو ہوگا


وہ کارگہ دہر سے اک بے خبری سی

وہ طعنۂ ہر اہل خبر یاد تو ہوگا


وہ دید کہ تھا روکش آرائش گیتی

پہروں طرف راہگزر یاد تو ہوگا


وہ عشق کے جذبات کا بھرپور تلاطم

طوفان کی موجوں میں گزر یاد تو ہوگا


گم کردہ سکوں پا کے مجھے اپنی گلی میں

کہنا وہ تجاہل سے کدھر یاد تو ہوگا


بھولی تو نہ ہوگی مری الفت کی حقیقت

مدت کا فسانہ ہے مگر یاد تو ہوگا


نہال سیوہاروی


قابل اجمیری

 یوم پیدائش 27 اگست 1931


تم نہ مانو مگر حقیقت ہے

عشق انسان کی ضرورت ہے


جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ

زندگی کو مری ضرورت ہے


حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے

صرف احساس کی ضرورت ہے


اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا

اب در و بام سے ندامت ہے


اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو

زندگی کتنی خوبصورت ہے 


راستہ کٹ ہی جائے گا قابلؔ

شوق منزل اگر سلامت ہے


قابل اجمیری


احمد علی برقی اعظمی

 عہد حاضر کے ممتاز صحافی عبدالقادر شمس مرحوم کے احوال و آثار پر مشتمل کتاب " وہ جو شمس تھا سر آسماں " مرتبہ ڈاکٹر نعمان قیصر اور محمد اسلام خان کے تناظر میں منظوم اظہار خیال


وہ جو شمس تھا سر آسماں

جو تمام عمر تھا ضوفشاں


وہ غروب ہوگیا اس طرح

نہ کسی کو جس کا رہا گماں


اسے ڈھونڈھتی ہے وہ ہر طرف

تھی جلو میں اس کے جو کہکشاں


وہ ہیں اس کے ہجر میں غمزدہ

گیاناگہاں جو سوٸے جناں


جنھیں اپنی جاں سے عزیز تھا

نہیں آج ان کے وہ درمیاں


تھا صحافی ایسا وہ معتبر

جو مشن میں اپنے تھا کامراں


وہی لکھتا تھا جو درست تھا

نہ ملاتا تھا کبھی ہاں میں ہاں


نہ کسی کے ہاتھ وہ آٸے گا

اسے ڈھونڈھے جا کے کوٸی کہاں


ہے زباں پہ غنچہ و گل کی یہ

وہ تھا باغ عدل کا باغباں


اے بھول جاٸیں وہ کس طرح

وہ سروں کا جن کے تھا ساٸباں


کبھی لوٹ کر جو نہ آٸے گا

یہ کتاب اسی کی ہے داستاں


احمد علی برقی اعظمی


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں : یوم وصال آج ہے احمد فرازؔ کا

یوم وفات : ۲۵ اگست۲۰۰۸


یومِ وصال آج ہے احمد فرازؔ کا

جن کے ہے معترف یہ جہاں امتیاز کا


سن دوہزار آٹھ سے وہ ہم سے دور ہیں

جن کا سخن مرقع تھا سوز و گداز کا


ہے گیسوئے عروسِ ادب آج خم بہ خم

جس کو ہے انتظار کسی کارساز کا


اردو غزل کی عہدِ رواں میں تھے آبرو

دھوکہ سخن پہ ہوتا تھا جن کے مجازؔ کا


رونق نہیں ہے محفل ناز و نیاز میں

محمود منتظر ہے کسی پھر ایاز کا


مہدی حسن تھے جس پہ ہمیشہ غزل سرا

اب پیرہن دریدہ ہے پردہ وہ ساز کا


برقیؔ غزل سے اُس کی جو کرتا تھا کسبِ فیض

محرم نہیں ہے آج کوئی اُس کے راز کا


احمد علی برقیؔ اعظمی


احمد فراز کے یوم وفات کی مناسبت سے ان کی زمین میں لکھی گئیں تین فی البدیہہ غزلیں بعنوان خراج عقیدت

ایک زمین کئی شاعر

احمد فراز اور احمد علی برقی اعظمی


احمد فراز

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں 

یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں 

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے 

کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں 

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے 

ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں 

دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی 

دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں 

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر 

بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں 

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں 

رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں 

مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید 

دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں ! 

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا 

سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں 

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے 

ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں 

جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے 

شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں 

ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا 

غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں 

ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے 

ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں 

ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ 

جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں


غزل

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

گلبدن، غُنچہ دہن، سروِ خراماں جاناں

سر سے پا تک ہے ترا حُسن نمایاں جاناں

دُرِ دنداں سے خجل دُرِ عدن ہے تیرے

روئے انور ہے ترا لعلِ بدخشاں جاناں

چشمِ میگوں سے ہے سرشار یہ پیمانۂ دل

روح پرور ہے فروغِ رُخِ تاباں جاناں

دیکھ کر بھول گیا تجھ کو سبھی رنج و الم

سر بسر تو ہے علاجِ غمِ دوراں جاناں

تیرہ و تار تھا کاشانۂ دل تیرے بغیر

رُخِ زیبا ہے ترا شمعِ شبستاں جاناں

لوٹ آئی ہے ترے آنے سے اب فصلِ بہار

تھا خزاں دیدہ مرے دل کا گلستاں جاناں

ہیچ ہیں سامنے تیرے یہ حسینانِ جہاں

میری نظروں میں ہے تو رشکِ نگاراں جاناں

کچھ نہیں دل میں مرے تھوک دے غصہ تو بھی

میں بھی نادم ہوں اگر تو ہے پشیماں جاناں

موجِ طوفانِ حوادث سے گذر جاؤں گا

کشتئ دل ہے یہ پروردۂ طوفاں جاناں

تو ہی ہے خواب کی تعبیرِ مجسم میرے

ماہِ تاباں کی طرح جو ہے درخشاں جاناں

یہ مرا رنگِ تغزل ہے تصدق تجھ پر

سازِ ہستی ہے مرا تجھ سے غزلخواں جاناں

ہے کہاں طبعِ رسا میری کہاں رنگِ فرازؔ 

یہ جسارت ہے مری جو ہوں غزلخواں جاناں

روح فرسا ہے جدائی کا تصور برقیؔ 

’’دل پُکارے ہی چلا جاتاہے جاناں جاناں‘‘


غزل

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

تھا مرا خانۂ دل بے سروساماں جاناں

اِس میں وحشت کے تھے آثار نمایاں جاناں

تو ہی افسانۂ ہستی کا ہے عنواں جاناں

سازِ دل دیکھ کے تجھ کو ہے غزلخواں جاناں

کیا ہوا کچھ تو بتا کیوں ہے پریشاں جاناں

آئینہ دیکھ کے کیوں آج ہے حیراں جاناں

شکریہ یاد دہانی کا میں ہوں چشم براہ

یاد ہے وعدۂ فردا ترا ہاں ہاں جاناں

تجھ سے پہلے تھا یہاں صرف خزاں کا منظر

تیرے آنے سے ہے اب فصلِ بہاراں جاناں

بال بانکا نہیں کرسکتا ترا کوئی کبھی

میں ترے ساتھ ہوں تو مت ہو حراساں جاناں

مُرتعش پہلے تھا برقیؔ یہ مرا تارِ وجود

جانے کیوں آج پھڑکتی ہے رگِ جاں جاناں


غزل

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

عہدِ حاضر میں ہے ہر شخص پریشاں جاناں

نہیں انسان سے بڑھ کر کوئی حیواں جاناں

جس طرف دیکھو اُدھر دوست نُما دشمن ہیں

آگیا دام میں جن کے دلِ ناداں داناں

غمِ دوراں سے ہو فرصت تو میں سوچوں کچھ اور

روح فَرسا ہے مری تنگئ داماں جاناں

میری غزلوں میں ہے جو سوزِ دُروں آج نہاں

میری رودادِ محبت کا ہے عُنواں جاناں

مجھ پہ جو گذری ہے اب تک نہ کسی پر گذرے

آئینہ دیکھ کے اب مجھ کو ہے حیراں جاناں

آپ بیتی ہیں مری میری غزل کے اشعار

سن کے سب لوگ ہیں انگشت بدنداں جاناں

ذہن ماؤف ہے برقیؔ کا غمِ دوراں سے

’’ دل پکارے ہی چلے جاتا ہے جاناں جاناں‘‘

احمد علی برقی اعظمی


خورشید طالب

 یوم پیدائش 25 اگست 1967


جس کو دیکھو وہی بیکار میں الجھا ہوا ہے

ہر گریبان کسی تار میں الجھا ہوا ہے


دشت بے چین ہے وحشت کی پذیرائی کو

دل وحشی در و دیوار میں الجھا ہوا ہے


جنگ دستک لیے آ پہنچی ہے دروازے تک

شاہزادہ لب و رخسار میں الجھا ہوا ہے


اک حکایت لب اظہار پہ ہے سوختہ جاں

ایک قصہ ابھی کردار میں الجھا ہوا ہے


سر کی قیمت مجھے معلوم نہیں ہے لیکن

آسماں تک مری دستار میں الجھا ہوا ہے


آئیے بیچ کی دیوار گرا دیتے ہیں

کب سے اک مسئلہ بے کار میں الجھا ہوا ہے


خورشید طلب


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...