Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

ضیاء المصطفیٰ ترک

 یوم پیدائش 29 اگست 1976


کتنے ہی فیصلے کئے پر کہاں رک سکا ہوں میں 

آج بھی اپنے وقت پر گھر سے نکل پڑا ہوں میں 


ابر سے اور دھوپ سے رشتہ ہے ایک سا مرا 

آئنے اور چراغ کے بیچ کا فاصلہ ہوں میں 


تجھ کو چھوا تو دیر تک خود کو ہی ڈھونڈتا رہا 

اتنی سی دیر میں بھلا تجھ سے کہاں ملا ہوں میں 


خوشبو ترے وجود کی گھیرے ہوئے ہے آج بھی 

تیرے لبوں کا ذائقہ بھول نہیں سکا ہوں میں 


ویسے تو میرا دائرہ پورا نہیں ہوا ابھی 

ایسی ہی کوئی قوس تھی جس سے جڑا ہوا ہوں میں 


جتنی بھی تیز دھوپ ہو شاخیں ہیں مہرباں تری 

چھاؤں پرائی ہی سہی سانس تو لے رہا ہوں میں


ضیاء المصطفیٰ ترک


مرزا سلامت علی دبیر

 یوم پیدائش 29 اگست 1803


پروانے کو دھن شمع کو لو تیری ہے

عالم میں ہر ایک کو تگ و دو تیری ہے

مصباح و نجوم آفتاب و مہتاب

جس نور کو دیکھتا ہوں ضو تیری ہے


مرزا سلامت علی دبیر


ثبین سیف

 یوم پیدائش 28 اگست


دھڑکن ہیں، میری سانس ہیں، میری حیات ہیں 

اک آپ ہی تو بس مری کُل کائنات ہیں 


یہ وحدت الوجود ہے یا وحدت الشہود

میں جانتی ہوں آپ ہی بس میری ذات ہیں 


دیکھوں جدھر بھی آپ کی صورت دکھائی دے

میں یک جہت ہوں آپ مرے شش جہات ہیں 


میری متاع کچھ بھی نہیں شاملِ نصاب

ہاں آپ ہی بس آپ ہی وجہِ زکوٰة ہیں 


مصرع کہوں کہ شعر کہوں، یا غزل ثبین

میری ہر ایک بات کی بس آپ بات ہیں 


ثبین سیف


جوہر صدیقی

 یوم پیدائش 28 اگست 1928


کتنا شرمندہِ مذاقِ درد انسانی ہے آج

قاتلوں کو بھی غرورِ پاک دامانی ہے آج


اُف رے ماضی تیری چیخوں کی صدائے بازگشت

سازِ ہستی کی صدا کس درجہ طوفانی ہے آج


چہرہ اُترا زلف الجھی اور افسردہ نظر

دوستوں کو پھر بھی ارمان ِغزل خوانی ہے آج


کاش مٹنے والے بھی آکر یہ منظر دیکھتے

کتنا سنجیدہ مزاجِ فتنہ سامانی ہے آج


آشیاں لٹنے پہ کل تک پھول ہنستے تھے جہاں

رقص فرما ، دیکھ اُسی گلشن میں ویرانی ہے آج


آپ کے سمٹے ہوئے دامن کو اس کی کیا خبر 

اس قدر رسوا خلوصِ اشک افشانی ہے آج


جتنا روشن ہے شرابی کی نگاہوں کا چراغ

اتنی ہی تاریک تر زاہد کی پیشانی ہے آج


ایک لغزش جس کو جوہر عین مستی کہہ سکوں کو

بزم میں یوں تو بہکنے کی فراوانی ہے آج


جوہر صدیقی


فراق گورکھپوری

 یوم پیدائش 28 اگست 1896


بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں


مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں

نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں


جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی

اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں


نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا

تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں


طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں


خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا

اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں


حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے

وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں


ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی

مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں


تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت

کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں


اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں

خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں


جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں


تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں

ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں


ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے

تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں


رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے

ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں


زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے

اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں


فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر

کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں


فراق گورکھپوری


راغب تحسین

 یوم پیدائش 28 اگست 1962 


یہ کس حساب سے آئی ہمارے حصّے موت

تمام عمر قیامت ، تمام رستے موت


کھلا کہ واعظ ِ عیار غیر کا ہے رفیق

سو ہم تو شوق ِ شہادت میں مر گئے بے موت


ہے میرے گرد مسلسل کسی کرم کا حصار

گزر رہی ہے مسلسل نظر بچا کے موت


یہ کون ہے کہ جو صحرا میں ڈھونڈتا ہے حیات

یہ کون ہے کہ جو شہروں میں بانٹتا ہے موت


نہ پوچھ ہم سے مکافات ِ کار کی امید

نصیب ِ زیست ہوئی موت ماورائے موت


کیا جو ہم نے کبھی یونہی روز و شب کا حساب

کھلا کہ کچھ بھی نہیں زندگی سوائے موت


سخن بھی کیسے ہو آشوب ِ شہر سے محفوظ

غزل ہے نوحہ نما اور ردیف تک ہے" موت "


راغب تحسین


محمد حازم حسان

 یوم پیدائش 28 اگست 1959


دے خدا وسعت تو سب کے کام آنا چاہیے 

دل میں دشمن کے بھی گھر اپنا بنانا چاہیے 


آپ کے دل میں جگہ میرے لئے کیا سچ ہے یہ 

اللہ اللہ اس سے بہتر کیا ٹھکانہ ہے 


گر کبھی نفرت کی کوئی لہر اٹھے قلب سے 

جس طرح ہو اس کو تو قابو میں لانا چاہیے 


بانٹتے ہی چاہیے رہنا محبت کے گلاب 

دل کے گلشن کو کہا کس نے سجانا چاہیے 


انجمن کوئی ہو اور دامن کسی کا بھی ہو وہ 

خوشبوؤں میں سب کے دامن کو بسانا چاہیے 


راز دل افشا نہ ہو حسانؔ ہے بہتر یہی 

حال دل کھل کر کبھی لب پر نہ لانا چاہیے


محمد حازم حسان


حنیف دانش اندوری

 یوم پیدائش 28 اگست 1971


جھوٹ کو سچ تو مرے یار بنا سکتا ہے 

یہ ہنر سن تجھے سردار بنا سکتا ہے 


تجھ کو بھی حق ہے سیاست میں چلے جانے کا 

تو اگر ریت کی دیوار بنا سکتا ہے 


یہ نیا دور ترقی ہے یہاں سکوں سے 

کوئی خرقہ کوئی دستار بنا سکتا ہے 


مختلف روگ کی بس ایک دوا دے دے کر 

یہ مسیحا ہمیں بیمار بنا سکتا ہے 


زعم سجدوں کا جبیں پر نہ سجائے پھریے 

یہ تکبر بھی گنہ گار بنا سکتا ہے 


ہوش والوں میں یہ چرچا بھی بہت عام ہوا 

مجھ کو پاگل بھی مرا یار بنا سکتا ہے 


ڈال کر خواب نئے ادھ کھلی آنکھو میں یہاں 

شعبدہ‌ باز بھی سرکار بنا سکتا ہے 


بوجھ ہو تیری انا پر جو سہارا دانشؔ 

وہ سہارا تجھے لاچار بنا سکتا ہے


حنیف دانش اندوری


محمد عارف

 دِل، کہ روتا رہا تھا جلنے تک

گُل تھے خنداں مگر مسلنے تک


میری سانسیں تلک تمہاری ہیں

 میں تمہارا ہوں دَم نکلنے تک


 ہوش آتے لگے گی تھوڑی دیر

 بس ذرا تھام لو سنبھلنے تک


تم نہیں ہو تو یہ بہار ہی کیا

 کاش! آجاؤ رُت بدلنے تک


مات کھا جاؤں گا یہ طے ہے مگر

دَم تو لینے دو چال چلنے تک


جب سُلگنا ہی ہے مقدّر میں

 شمع روتی ہے کیوں پگھلنے تک


 ہونے والی ہے صبحِ نَو طالعِ

 یہ اندھیرے ہی رات ڈھلنے تک


 محمد عارف


زبیر علی تابش

 یوم پیدائش 27 اگست 1987


راستے جو بھی چمک دار نظر آتے ہیں 

سب تیری اوڑھنی کے تار نظر آتے ہیں 


کوئی پاگل ہی محبت سے نوازے گا مجھے 

آپ تو خیر سمجھ دار نظر آتے ہیں 


میں کہاں جاؤں کروں کس سے شکایت اس کی 

ہر طرف اس کے طرفدار نظر آتے ہیں 


زخم بھرنے لگے ہیں پچھلی ملاقاتوں کے 

پھر ملاقات کے آثار نظر آتے ہیں 


ایک ہی بار نظر پڑتی ہے ان پر تابشؔ 

اور پھر وہ ہی لگاتار نظر آتے ہیں


زبیر علی تابش


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...