Urdu Deccan

Tuesday, September 21, 2021

ریاض حازم

 تم کو ہی اپنی جان رکھنا ہے

ہم نے پھولوں کا مان رکھنا ہے


لاکھ دعوے کرے گی دنیا مگر

کون اپنا ہے دھیان رکھنا ہے


چند دشمن نہیں مجھے کافی

کم سے کم بھی جہان رکھنا ہے


عشق کی داستاں سنانی ہے

درد کو ترجمان رکھنا ہے


میرا دستورِ عشق ایسا ہے

بے وفا کو مہان رکھنا ہے


اب پرکھنا نہیں کسی کو بھی

جو بھی ہو خاندان رکھنا ہے


ریاض حازم


ایس ڈی عابد

 ابتداء کی بات کر یا انتہا کی بات کر

اوّل و آخر ہیں پیارے مُصطفیٰ کی بات کر


راستے وہ جانتے ہیں سب جہانوں کے سبھی 

بات کر تحتُ الثرٰی یا مُنتہٰی کی بات کر 


مشکلیں سب دور تیری دفعتاً ہو جائیں گی

مشکلوں میں مولاءِ مشکل کُشا کی بات کر 


زندگی پُرنور تیری دیکھنا ہو جائے گی

غم کی کالی رات میں بٙدرِالدُجٰی کی بات کر 


ہے ہدایت کی تمنا یا اماں کی آرزو

بات کر نُورِالھُدٰی کٙھفِ الوٙریٰ کی بات کر


کیوں بلندی میں نہ بدلیں گی تمہاری پستیاں

کر کے اشکوں سے وضو صدرِالعُلٰی کی بات کر


تُو اگر یہ چاہتا ہے سب سُنیں باتیں تری 

منبعءِ اخلاق پیارے مُجتبٰی کی بات کر


خیر کی خواہش اگر عابدؔ تمہارے دل میں ہے

والیءِ دونوں جہاں خیرِالورٰی کی بات کر 


 ایس،ڈی،عابدؔ


غلام جیلانی سحر

 توڑ نے ظلم کی زنجیر چلو چلتے ہیں

ہو نہ جائے کہیں تاخیر چلو چلتے ہیں


کفر کی ہر کھڑی دیوار گرا ڈالیں گے

کہہ کے پھر نعرۂ تکبیر چلو چلتے ہیں


ظلم کی اٹھ رہی گردن کو اڑانے کے لیے

لےکےاب حیدری شمشیر چلو چلتےہیں


وہ جواک خواب کئی بار ہیں دیکھے ہم نے

کرنے شرمندۂ تعبیر چلو چلتے ہیں


غلام جیلانی قمر


عجیب ساجد

 اُس سے کہنے کی چھوڑ دو خواہشں 

درد سہنے کی چھوڑ دو خواہش 


ایک صورت ہے زندہ رہنے کی 

زندہ رہنے کی چھوڑ دو خواہش 


میں تو پیتل کا لا نہیں سکتا

بیٹا گہنے کی چھوڑ دو خواہش 


جب نہیں اِذن اُس کی محفل میں

اشک بہنے کی چھوڑ دو خواہش 


اُس کے پہلو میں لوگ بیٹھے ہیں 

تم ہی رہنے کی چھوڑ دو خواہش 


عجیب ساجد


گیان چند جین

 یوم پیدائش 19 سپتمبر 1933


ڈگمگاتا لڑکھڑاتا جھومتا جاتا ہوں میں

تجھ تک اے باب فنا سینے کے بل آتا ہوں میں


شہر کی باریکیوں میں پھنس گیا ہوں اس طرح

چین کی اک سانس کی مہلت نہیں پاتا ہوں میں


جب بھی ریگستانوں میں جانے کا ہوتا اتفاق

گھٹنے گھٹنے ذات کی پرتوں میں دھنس جاتا ہوں میں


چل کے باغ‌ سیب میں اوراق‌ جمشیدی پڑھوں

اپنی کیفیت سے خود کو بے خبر پاتا ہوں میں


گوشے گوشے میں فروزاں آتش لب ہائے سرخ

اس شفق میں دم بہ دم آنکھوں کو نہلاتا ہوں میں


آہ وہ آنکھیں کہ جن کے گرد ہے اودا غبار

گہہ کنوئیں میں ڈوبتا ہوں گہہ ابھر آتا ہوں میں


گیان چند جین


خمار بارہ بنکوی

 یوم پیدائش 19 سپتمبر 1919


نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے


سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے

ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے


کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے

جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے


وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے

محبت بھی تنہائی دائمی ہے


چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں

نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے


ارے او جفاؤں پہ چپ رہنے والو

خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے


مرے راہبر مجھ کو گمراہ کر دے

سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے


خمارؔ بلا نوش تو اور توبہ

تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے


خمار بارہ بنکوی


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں : بیاد سخنور ممتاز برصغیر ضیا شہزاد مرحوم

تاریخ وفات 17 ستمبر 2021


صدمہ جانکاہ ہے رحلت ضیا شہزاد کی

لوح دل پر ثبت ہے شفقت ضیا شہزاد کی


ختم ہوسکتی نہیں ہرگز کبھی بعد از وفات

اردو دنیا میں ہے جو عظمت ضیا شہزاد کی


تھے سپہر فکرو فن پر وہ ہمیشہ ضوفگن

اس لٸے تھی ہرطرف شہرت ضیا شہزاد کی


ان کے ہیں قطعات عصری حسیت کے ترجماں

ہے نمایاں ذہن کے رفعت ضیا شہزاد کی


عصری منظرنامے میں حاصل انھیں تھا امتیاز

اس لٸے کرتے تھے سب عزت ضیا شہزاد کی


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند

نور سے پرنور ہو تربت ضیا شہزاد کی


تھے وہ برقی اعظمی کے ایک یار مہرباں

جاگزیں ہے قلب میں الفت ضیا شہزاد کی


احمد علی برقی اعظمی


خالد حسن قادری

 یوم پیدائش 18 سپتمبر 1927


بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا

ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف ، انساں نہیں ملتا


مثال پیر تسمہ پامری گردن پہ نازل ہیں

کوئی ایسا جو بیٹھے در صف ماچاں نہیں ملتا


زمیں سے دعویٰ الفت زمیں سے دشمنی قائم

ہیں سوداگر زراعت کے کوئی دھقاں نہیں ملتا


مثال موسی عمران عصا بردار ہم بھی ہیں

مگر ہم کو کوئی فرعوں بے ساماں نہیں ملتا


خالد حسن قادری


نوح ناروی

 یوم پیدائش 18 سپتمبر 1878


آپ جن کے قریب ہوتے ہیں

وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں


جب طبیعت کسی پر آتی ہے

موت کے دن قریب ہوتے ہیں


مجھ سے ملنا پھر آپ کا ملنا

آپ کس کو نصیب ہوتے ہیں


ظلم سہہ کر جو اف نہیں کرتے

ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں


عشق میں اور کچھ نہیں ملتا

سیکڑوں غم نصیب ہوتے ہیں


نوحؔ کی قدر کوئی کیا جانے

کہیں ایسے ادیب ہوتے ہیں


نوح ناروی


بلند اقبال

 یوم پیدائش 18 سپتمبر 1966


لفظوں کا رنگ شعر کا لہجہ اداس ہے

تم سے بچھڑ کے روح کا گوشہ اداس ہے


مہنگا ئیوں کا ملک پہ قبضہ ہے اس طرح

جائیں جدھر بھی جیب کا سکّہ اداس ہے


جس دن سے ننھے بچوں کا ٹی وی ہے پالنا

دادی کے لب پہ پر یوں کا قصّہ اداس ہے


آئینے پہ ہے گرد نہ نظروں کا ہے قصور

کیا کیجئے حضور یہ چہرہ اداس ہے


مشکل ہوا ہے جی کو لگانا کہیں بھی یار

تیرے بغیر اپنا دسہرہ اداس ہے


تصویر شاہکار وہ لاکھوں میں بک گئی

جس میں بغیر روٹی کے بچہ اداس ہے


بلند اقبال 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...