Urdu Deccan

Tuesday, September 21, 2021

بلال آدر

یوم پیدائش 21 سپتمبر 

سیاہ رات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں 
جو حادثات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

مسافرانِ جنوں موت کے سمندر میں 
کبھی حیات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

ہمارے بس میں میاں گھر تلک بنا لینا 
سو کائنات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

محبتوں کا حسیں کھیل کھیلنے والے 
وبالِ مات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

جہانِ غم میں وہی کامیاب ہیں آدر 
جو اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

بلال آدر

اکرم تلہری

 باغ دل مسکرانے والا ہے 

میرا محبوب آنے والا ہے 


مفلسی آئے گی نہ اس گھر میں 

جس میں کوئی کمانے والا ہے 


میرے مرنے کے بعد میرے لئے 

کون آنسو بہانے والا ہے 


نام دے کر کوئی محبّت کا 

میری قیمت لگانے والا ہے 


روٹھ جاتا ہوں اس لئے یارو 

کوئی مجھ کو منانے والا ہے 


میری آنکھوں سے آج کل اکرم 

کوئی نیندیں چرانے والا ہے 


اکرم تلہری


حمیرا اکبر

 جب تیرے التفات کے محور میں آگیا 

دل بھی شمارِ برتر وبہتر میں آگیا 


مستانہ چال چلتا ہوا آج پھر کوئی

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


آتے ہو میرے دل کونشانہ کیے ہوئے 

یہ دم کہاں سے آپ کے خنجر میں آگیا 


میں سکھ کی چادر اوڑھ کے سوئی ہی تھی کہ دکھ 

"دستک دیے بغیر میرے گھر میں آ گیا" 


میں خوش نصیب ہوں کہ مری جستجو کا خواب 

تعبیر بن کے آپ کے پیکر میں آگیا


ناکامِ راہِ شوق سمجھنا نہ تم اُسے

تھک ہار کر جو کوچہء دلبر میں آگیا


کیا جانیے کہ کس گھڑی تنہائیوں کا خوف 

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


یہ ہے حمیراؔ عشقِ حقیقی کا معجزہ 

جو کچھ چھپا ہوا تھا وہ منظر میں آگیا


حمیرا اکبر


شائستہ مفتی

 یوم پیدائش 21 سپتمبر 1968


یہ رقص زندگی کا لہو میں دھمال ہے

چل جائے جو زمانہ قیامت کی چال ہے


کیوں راستـے میں چھوڑ گئــے، تھے جو ہمسفر

اپنی نظر سے الجھا ہوا اک سوال ہے


کہہ دیجئے وہ بات جو اخفا ہے اب تلک

کیجے نہ کچھ خیال جو شیشے میں بال ہے


آئی بہار، عکس نظر آ گیا ہمیں!

ہاتھوں میں جیسے پھولـوں بھرا ایک تھال ہے


خوشبو کے جیسے پھیل گئی اپنی داستاں

کھولیں جو ہم زبان، کہاں یہ مجال ہے


آنکھوں میں آ کے ٹھہر گئی خواب کی تھکن

بوجھل ہے رات، چاند کی کرنوں کا جال ہے


اپنے اصول اپنے تھے، سودا نہ کر سکے

تم سے بچھڑ کے شہر میں قحط الرجال ہے


درویش ہے پڑاؤ ہے جنگل کے آس پاس

کہتے ہیں لوگ اس کو بہت مالا مال ہے


دل بستگی کا کوئی بہانہ تلاش لیں

کہہ دیں کہ اس خزاں میں بھی تیرا جمال ہے


شائستہ مفتی


ابن عظیم فاطمی

 یوم پیدائش 21 سپتمبر 


ہم اپنے رنج و الم کا حساب رکھتے ہیں

بسا ہوا کوٸی آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں


ہمارے نام پہ چہرہ ہوا ہے زرد یہ کیوں

براٸی چاہنے والے یہ تاب رکھتے ہیں


 چمن کی عمر ہی کیا خوشبوٶں کی قسمت کیا

کہ ان کے ساتھ کے رستے سراب رکھتے ہیں


ہمیں بھی ہوتا ہے دکھ آپ سے بچھڑنے کا

ہم اپنے پاس بھی اک دل جناب رکھتے ہیں


نہ جانے کون سے رستے سے لوٹ آۓ وہ

چراغ جلتے ہوۓ باب باب رکھتے ہیں


دعاۓ نیم شبی جن کا وصف رہتا ہے

وہ ہر قدم کو بہت کامیاب رکھتے ہیں


ہمارا واسطہ ان سے ہی عمر بھر کا ہے جو

"دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں"


خطا پہ اپنی ندامت انھیں نہ ہوگی عظیم

جو ترش رو ہیں جو لہجہ خراب رکھتے ہیں


(مصرع:" دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں"۔۔۔۔راحت اندوری)


ابن عظیم فاطمی


ابرار ابہام

 کمتر کے حال پر نہ سکندر کے حال پر

اُن کی نگہ ہے قلبِ منور کے حال پر 


مجھ ڈوبتے کو چھوڑ کے ساگر کے حال پر 

الزام ڈالتا ہے مقدر کے حال پر


راحت، سکون، خواہشیں سب کچھ نگل گیا 

افسوس آدمی نما اژدر کے حال پر

 

شاہِ دروغ گو سے ہیں نادان لوگ خوش

کرتا نہیں نظر کوئی بےگھر کے حال پر


حیلہ گری سے کام لیا دوستوں کے بیچ

ابہاؔم جب توجہ ہوئی گھر کے حال پر


ابرار ابہاؔم


سردار سلیم

 یوم پیدائش 20 سپتمبر 1973


کوئی زنجیرِ طلسمات نہیں چھو سکتی

سچ کو اوہام کی بہتات نہیں چھو سکتی


میری ہستی ہے اندھیروں کی پہنچ سے باہر

میں سویرا ہوں مجھے رات نہیں چھو سکتی


یہ ہتھیلی ہے وہ خوددار ہتھیلی صاحب

جس کو زردار کی خیرات نہیں چھو سکتی


آپ کے دل نے کبھی چوٹ نہیں کھائی ہے

آپ کے دل کو کوئی بات نہیں چھو سکتی


کیسے ہو سکتا ہے ہم جیسوں کے رہنے لائق

وہ نشیمن جسے برسات نہیں چھو سکتی


ہے مرا ہاتھ مرے یار کے ہاتھوں میں سلیم

غم کی پرچھائیں مرا ہاتھ نہیں چھو سکتی

سردار سلیم


عرش ملسیانی

 یوم پیدائش 20 سپتمبر 1908


خودی کا راز داں ہو کر خودی کی داستاں ہو جا

جہاں سے کیا غرض تجھ کو تو آپ اپنا جہاں ہو جا


بیان پایمالی شکوۂ برق تپاں ہو جا

گلستان جہاں کے پتے پتے کی زباں ہو جا


شریک کارواں ہونے کی گو طاقت نہیں تجھ میں

مگر اتنی تو ہمت کر کہ گرد کارواں ہو جا


تزلزل سے بری ہو تیرا استقلال الفت میں

یقین پر یقیں ہو جا گمان بے گماں ہو جا


کسی صورت تو شرح آرزوئے شوق کرنی ہے

زباں چپ ہے اگر اے دل تو آپ اپنی زباں ہو جا


زمانے پر بھروسا کر نہ راز عشق کا اے دل

جہاں تک ہو سکے تو آپ اپنا رازداں ہو جا


تجھے داغوں کے لاکھوں ماہ و انجم مل ہی جائیں گے

اٹھ اے درد دل پر آہ اٹھ کر آسماں ہو جا


کبھی تو عارضی سا اک تبسم لب پہ آنے دے

کبھی تو مہرباں مجھ پر مرے نا مہرباں ہو جا


ترے آنے پہ اے تیر نگاہ ناز میں خوش ہوں

دل بیتاب میں آ کر حساب دوستاں ہو جا


بلندی نام سے اے عرشؔ مل سکتی نہیں تجھ کو

زمین شعر پر اوج سخن سے آسماں ہو جا


عرش ملسیانی


باقی صدیقی

 یوم پیدائش 20 سپتمبر 1905


ہم چھپائیں گے بھید کیا دل کا

رنگ آنکھوں میں آ گیا دل کا


زندگی تیرگی میں ڈوب گئی

ہم جلاتے رہے دیا دل کا


تم زمانے کی راہ سے آئے

ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا


زندگی بھر کوئی پتہ نہ چلا

دور گردوں کا، آپ کا، دل کا


وقت اور زندگی کا آئینہ

نوک غم اور آبلہ دل کا


آنکھ کھلتے ہی سامنے باقیؔ

ایک سنسان دشت تھا دل کا


باقی صدیقی


عدل اشرف

 مقبول عوام کب ہوا میں 

اک ماہ تمام کب ہوا میں 


آنکھوں کا پیام کب ہوا میں 

ابرو کا غلام کب ہوا میں 


ہر بات قلم سے کرتا ہوں میں 

لہجے کا غلام کب ہوا میں 


سورج کا ستم ستم سہا ہے 

بارش کا مقام کب ہوا میں 


سب لفظ تھے ان کہے مسلسل 

اک حرف دوام کب ہوا میں 


آزاد خیال ہوگیا کیا ؟ 

اس دشت میں دام کب ہوا میں 


عادل اشرف


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...