Urdu Deccan

Sunday, September 26, 2021

اعزاز احمد آذر

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1942


ان اجڑی بستیوں کا کوئی تو نشاں رہے 

چولھے جلیں کہ گھر ہی جلیں پر دھواں رہے 


نیرو نے بنسری کی نئی تان چھیڑ دی 

اب روم کا نصیب فقط داستاں رہے 


پانی سمندروں کا نہ چھلنی سے ماپیے 

ایسا نہ ہو کہ سارا کیا رائیگاں رہے 


مجھ کو سپرد خاک کرو اس دعا کے ساتھ 

آنگن میں پھول کھلتے رہیں اور مکاں رہے 


کاٹی ہے عمر رات کی پہنائیوں کے ساتھ 

ہم شہر بے چراغ میں اے بے کساں رہے 


آذرؔ ہر ایک گام پہ کاٹا ہے سنگ جبر 

ہاتھوں میں تیشہ سامنے کوہ گراں رہے


اعزاز احمد آذر


ماہناز بنجمن

 اک داغِ عشق یوں مری چادر میں آ گیا

سوچا نہیں تھا جو وہ مقدر میں آ گیا


بے اختیار ،عشق سے ، ۔پردہ اٹھا گیا

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


جب جب یہ زندگی مجھے بے آسرا لگی

سایہ کسی کے ہاتھ کا منظر میں آگیا


خوشبو سی آرہی ہے یہ کس کی قریب سے

دیکھوں تو اب یہ کون برابر میں آگیا


چشمِ طلب میں پیاس کی جب انتہا ہوئی

صحرا بھی چل کے آپ سمندر میں آگیا


رکھی تھی میں نے خود پہ بھی اتنی کڑی نظر

غدار کوئی کس طرح لشکر میں آگیا


مہمان جان کر اسے کیسے کروں وداع

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


ماہناز بنجمن


غلام بھیک نیرنگ

 یوم پیدائش 26 سپتمبر 1876


کٹ گئی بے مدعا ساری کی ساری زندگی

زندگی سی زندگی ہے یہ ہماری زندگی


کیا ارادوں سے ہے حاصل؟ طاقت و فرصت کہاں

ہائے کہلاتی ہے کیوں بے اختیاری زندگی


اے سر شوریدہ اب تیرے وہ سودا کیا ہوئے

کیا سدا سے تھی یہی غفلت شعاری زندگی


درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا

آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی


آرزوئے زیست بھی یاں یاں آرزوئے دید ہے

تو نہ پیارا ہو تو مجھ کو ہو نہ پیاری زندگی


اور مرجھائے گی تیری چھیڑ سے دل کی کلی

کر نہ دوبھر مجھ پہ اے باد بہاری زندگی


یاں تو اے نیرنگؔ دونوں کے لیے ساماں نہیں

موت بھی مجھ پر گراں ہے گر ہے بھاری زندگی


غلام بھیک نیرنگ


جتندر موہن سنہا رہبر

 یوم پیدائش 24 سپتمبر 1911


جیے جا رہا ہوں تجھے یاد کر کے

تصور کی دنیا کو آباد کر کے


پشیماں ہیں ہم عرض روداد کر کے

کرم ہی کیا تم نے بیداد کر کے


مجھے اس کی مطلق شکایت نہیں ہے

ستم پر ستم لاؤ ایجاد کر کے


کہاں رہیے اپنوں سے کر کے کنارا

ملا کیا ہے غیروں سے فریاد کر کے


ہمیں واسطہ ایسے صیاد سے ہے

کہ جو صید رکھتا ہے آزاد کر کے


برا کر رہے ہیں ترا نام لے کر

خطا کر رہے ہیں تجھے یاد کر کے


محبت سی شے اس نے مجھ کو عطا کی

کہ خوش خوش چلوں عمر برباد کر کے


جو چاہو شمار اپنا اہل سخن میں

پڑھو شعر رہبرؔ کو استاد کر کے


جتیندر موہن سنہا رہبر



سلمان ظفر

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1987


دنیا کا ذرہ ذرہ میاں عشق عشق ہے 

ادنیٰ ہو یا ہو آلا یہاں عشق عشق ہے 


جس روز ہم نے خواب میں دیکھا تھا آپ کو 

اس روز سے ہمارا مکاں عشق عشق ہے 


دنیا اسی لیے تو سمجھ ہی نہیں سکی 

یارو ہمارے دل کی زباں عشق عشق ہے 


آنسو جو تیری یاد میں ٹپکا تھا ایک شب 

رخسار پر جو ہے یہ نشاں عشق عشق ہے 


سلمانؔ کیسے لکھے گا اس کے جمال کو 

انکار سے بھی جس کے عیاں عشق عشق ہے


سلمان ظفر


بلراج کومل

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1928


دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا

اب کے برس بھی رات کا منتظر وہی رہا


نومید ہو گئے تو سبھی دوست اٹھ گئے

وہ صید انتقام تھا در پر وہی رہا


سارا ہجوم پا پیادہ چوں کہ درمیاں

صرف ایک ہی سوار تھا رہبر وہی رہا


سب لوگ سچ ہے با ہنر تھے پھر بھی کامیاب

یہ کیسا اتفاق تھا اکثر وہی رہا


یہ ارتقا کا فیض تھا یا محض حادثہ

مینڈک تو فیل پا ہوئے اژدر وہی رہا


سب کو حروف التجا ہم نذر کر چکے

دشمن تو موم ہو گئے پتھر وہی رہا


بلراج کومل


عروج زیدی بدایونی

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1912


خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے

مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے


میری روداد محبت کو نہ سننے والے

تجھ میں وہ بات کہاں جو تری تصویر میں ہے


پیکر خاک بھی ہوں باعث کونین بھی ہوں

کتنا ایجاز نمایاں مری تفسیر میں ہے


پھول بن کر بھی یہ احساس شگوفے کو نہیں

میری تخریب کا پہلو مری تعمیر میں ہے


حسن کے ساتھ تجھے حسن وفا بھی ملتا

اسی حلقے کی ضرورت تری زنجیر میں ہے


وسعت دامن رحمت کی قسم کھاتا ہوں

عذر تقصیر بھی داخل حد تقصیر میں ہے


ایک تہہ دار یہ مصرع ہے جواب خط میں

کس قدر شوخ بیانی تری تحریر میں ہے


کیا تماشا ہے یہ اے پائے جنون رسوا

کبھی زنجیر سے باہر کبھی زنجیر میں ہے


جانے کب اس پہ اجالے کو ترس آئے گا

وہ سیہ پوش فضا جو مری تقدیر میں ہے


گفتگو ہوتی ہے اکثر شب تنہائی میں

ایک خاموش تکلم تری تصویر میں ہے


میری نظروں میں یہی حسن تغزل ہے عروجؔ

شعر گوئی کا مزا پیروی‌‌ میرؔ میں ہے


عروج زیدی بدایونی


زبیر حمزہ

 یوم پیدائش 24 سپتمبر 


ستم شعار زمانے نے حوصلے نہ دیے

رہِ سیاہ پہ پھینکا ، مگر دیے نہ دیے


بہت سے واقعے ایسے گزر گئے ہیں کہ جو

ترے جمال کی عادت نے دیکھنے نہ دیے


"ہمارے بعد مزارِ وفا کو دیکھو تو ،،

کہیں نہ پھول نہ خوشبو نہ طاقچے نہ دیے


جدائیاں بھی نہ پندارِ دل مٹا پائیں

کہ راستے تو دیے دل نے ، واسطے نہ دیے


بھرے جہان سے چن کر مجھے مقدر نے

جو چند لوگ دیے بھی ، تو کام کے نہ دیے


زبیر حمزہ


سنگم جبلپوری

 یوم پیدائش 24 سپتمبر 1954


دلکشی تھی زندگی کے ساز میں

جب تیری لے تھی میری آواز میں


بے اثر ہے تیرا اندازِ بیان

بات کہہ کچھ تو نئے انداز میں


وہ پرندے آج تک لوٹے نہیں

جو ہمارے ساتھ تھے پرواز میں


اب ہر ایک چہرے پہ ہیں چہرے کئی

کیسے پہچانو گےتم آغاز میں


میں نے نام اس کا قیامت رکھ دیا

وہ ملا سنگھم اسی انداز میں 


سنگم جبلپوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...