شوق سے قتل کرو کوکھ میں بیٹی کو مگر
پھر نہ کہنا کہ زمیں پر کوئی عورت نہ رہی
شمشاد شاؔد
یوم پیدائش 25 سپتمبر 1942
ان اجڑی بستیوں کا کوئی تو نشاں رہے
چولھے جلیں کہ گھر ہی جلیں پر دھواں رہے
نیرو نے بنسری کی نئی تان چھیڑ دی
اب روم کا نصیب فقط داستاں رہے
پانی سمندروں کا نہ چھلنی سے ماپیے
ایسا نہ ہو کہ سارا کیا رائیگاں رہے
مجھ کو سپرد خاک کرو اس دعا کے ساتھ
آنگن میں پھول کھلتے رہیں اور مکاں رہے
کاٹی ہے عمر رات کی پہنائیوں کے ساتھ
ہم شہر بے چراغ میں اے بے کساں رہے
آذرؔ ہر ایک گام پہ کاٹا ہے سنگ جبر
ہاتھوں میں تیشہ سامنے کوہ گراں رہے
اعزاز احمد آذر
اک داغِ عشق یوں مری چادر میں آ گیا
سوچا نہیں تھا جو وہ مقدر میں آ گیا
بے اختیار ،عشق سے ، ۔پردہ اٹھا گیا
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
جب جب یہ زندگی مجھے بے آسرا لگی
سایہ کسی کے ہاتھ کا منظر میں آگیا
خوشبو سی آرہی ہے یہ کس کی قریب سے
دیکھوں تو اب یہ کون برابر میں آگیا
چشمِ طلب میں پیاس کی جب انتہا ہوئی
صحرا بھی چل کے آپ سمندر میں آگیا
رکھی تھی میں نے خود پہ بھی اتنی کڑی نظر
غدار کوئی کس طرح لشکر میں آگیا
مہمان جان کر اسے کیسے کروں وداع
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
ماہناز بنجمن
یوم پیدائش 26 سپتمبر 1876
کٹ گئی بے مدعا ساری کی ساری زندگی
زندگی سی زندگی ہے یہ ہماری زندگی
کیا ارادوں سے ہے حاصل؟ طاقت و فرصت کہاں
ہائے کہلاتی ہے کیوں بے اختیاری زندگی
اے سر شوریدہ اب تیرے وہ سودا کیا ہوئے
کیا سدا سے تھی یہی غفلت شعاری زندگی
درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا
آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی
آرزوئے زیست بھی یاں یاں آرزوئے دید ہے
تو نہ پیارا ہو تو مجھ کو ہو نہ پیاری زندگی
اور مرجھائے گی تیری چھیڑ سے دل کی کلی
کر نہ دوبھر مجھ پہ اے باد بہاری زندگی
یاں تو اے نیرنگؔ دونوں کے لیے ساماں نہیں
موت بھی مجھ پر گراں ہے گر ہے بھاری زندگی
غلام بھیک نیرنگ
یوم پیدائش 24 سپتمبر 1911
جیے جا رہا ہوں تجھے یاد کر کے
تصور کی دنیا کو آباد کر کے
پشیماں ہیں ہم عرض روداد کر کے
کرم ہی کیا تم نے بیداد کر کے
مجھے اس کی مطلق شکایت نہیں ہے
ستم پر ستم لاؤ ایجاد کر کے
کہاں رہیے اپنوں سے کر کے کنارا
ملا کیا ہے غیروں سے فریاد کر کے
ہمیں واسطہ ایسے صیاد سے ہے
کہ جو صید رکھتا ہے آزاد کر کے
برا کر رہے ہیں ترا نام لے کر
خطا کر رہے ہیں تجھے یاد کر کے
محبت سی شے اس نے مجھ کو عطا کی
کہ خوش خوش چلوں عمر برباد کر کے
جو چاہو شمار اپنا اہل سخن میں
پڑھو شعر رہبرؔ کو استاد کر کے
جتیندر موہن سنہا رہبر
یوم پیدائش 25 سپتمبر 1987
دنیا کا ذرہ ذرہ میاں عشق عشق ہے
ادنیٰ ہو یا ہو آلا یہاں عشق عشق ہے
جس روز ہم نے خواب میں دیکھا تھا آپ کو
اس روز سے ہمارا مکاں عشق عشق ہے
دنیا اسی لیے تو سمجھ ہی نہیں سکی
یارو ہمارے دل کی زباں عشق عشق ہے
آنسو جو تیری یاد میں ٹپکا تھا ایک شب
رخسار پر جو ہے یہ نشاں عشق عشق ہے
سلمانؔ کیسے لکھے گا اس کے جمال کو
انکار سے بھی جس کے عیاں عشق عشق ہے
سلمان ظفر
یوم پیدائش 25 سپتمبر 1928
دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا
اب کے برس بھی رات کا منتظر وہی رہا
نومید ہو گئے تو سبھی دوست اٹھ گئے
وہ صید انتقام تھا در پر وہی رہا
سارا ہجوم پا پیادہ چوں کہ درمیاں
صرف ایک ہی سوار تھا رہبر وہی رہا
سب لوگ سچ ہے با ہنر تھے پھر بھی کامیاب
یہ کیسا اتفاق تھا اکثر وہی رہا
یہ ارتقا کا فیض تھا یا محض حادثہ
مینڈک تو فیل پا ہوئے اژدر وہی رہا
سب کو حروف التجا ہم نذر کر چکے
دشمن تو موم ہو گئے پتھر وہی رہا
بلراج کومل
یوم پیدائش 25 سپتمبر 1912
خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے
مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے
میری روداد محبت کو نہ سننے والے
تجھ میں وہ بات کہاں جو تری تصویر میں ہے
پیکر خاک بھی ہوں باعث کونین بھی ہوں
کتنا ایجاز نمایاں مری تفسیر میں ہے
پھول بن کر بھی یہ احساس شگوفے کو نہیں
میری تخریب کا پہلو مری تعمیر میں ہے
حسن کے ساتھ تجھے حسن وفا بھی ملتا
اسی حلقے کی ضرورت تری زنجیر میں ہے
وسعت دامن رحمت کی قسم کھاتا ہوں
عذر تقصیر بھی داخل حد تقصیر میں ہے
ایک تہہ دار یہ مصرع ہے جواب خط میں
کس قدر شوخ بیانی تری تحریر میں ہے
کیا تماشا ہے یہ اے پائے جنون رسوا
کبھی زنجیر سے باہر کبھی زنجیر میں ہے
جانے کب اس پہ اجالے کو ترس آئے گا
وہ سیہ پوش فضا جو مری تقدیر میں ہے
گفتگو ہوتی ہے اکثر شب تنہائی میں
ایک خاموش تکلم تری تصویر میں ہے
میری نظروں میں یہی حسن تغزل ہے عروجؔ
شعر گوئی کا مزا پیروی میرؔ میں ہے
عروج زیدی بدایونی
یوم پیدائش 24 سپتمبر
ستم شعار زمانے نے حوصلے نہ دیے
رہِ سیاہ پہ پھینکا ، مگر دیے نہ دیے
بہت سے واقعے ایسے گزر گئے ہیں کہ جو
ترے جمال کی عادت نے دیکھنے نہ دیے
"ہمارے بعد مزارِ وفا کو دیکھو تو ،،
کہیں نہ پھول نہ خوشبو نہ طاقچے نہ دیے
جدائیاں بھی نہ پندارِ دل مٹا پائیں
کہ راستے تو دیے دل نے ، واسطے نہ دیے
بھرے جہان سے چن کر مجھے مقدر نے
جو چند لوگ دیے بھی ، تو کام کے نہ دیے
زبیر حمزہ
یوم پیدائش 24 سپتمبر 1954
دلکشی تھی زندگی کے ساز میں
جب تیری لے تھی میری آواز میں
بے اثر ہے تیرا اندازِ بیان
بات کہہ کچھ تو نئے انداز میں
وہ پرندے آج تک لوٹے نہیں
جو ہمارے ساتھ تھے پرواز میں
اب ہر ایک چہرے پہ ہیں چہرے کئی
کیسے پہچانو گےتم آغاز میں
میں نے نام اس کا قیامت رکھ دیا
وہ ملا سنگھم اسی انداز میں
سنگم جبلپوری
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...