Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

شاعر لکھنوی

 یوم پیدائش 16 اکتوبر 1917


جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے

وہ نظر نظر سے گلے ملے تو بجھے چراغ بھی جل گئے


یہ شکست دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں

میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے


نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی

یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے


جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردۂ راہ تھے

وہ مقام عشق کو پا گئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے


جو کھلے ہوئے ہیں روش روش وہ ہزار حسن چمن سہی

مگر ان گلوں کا جواب کیا جو قدم قدم پہ کچل گئے


نہ ہے شاعرؔ اب غم نو بہ نو نہ وہ داغ دل نہ وہ آرزو

جنہیں اعتماد بہار ہے وہی پھول رنگ بدل گئے


شاعر لکھنوی


ناہید ورک

 یوم پیدائش 15 اکتوبر


اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں 

اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں 


دیکھیے جا کر کہاں رکتے ہیں اب 

تیری قربت سے تو ہجرت ہے ہمیں 


سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے 

ورد کرنے کی اجازت ہے ہمیں 


دل جزیرے پر ہے اس کی روشنی 

اک ستارے سے محبت ہے ہمیں 


اب ذرا سرگوشیوں میں بات ہو 

مہرباں لہجے کی عادت ہے ہمیں 


پھر اسی چوکھٹ کی دل کو ہے تڑپ 

پھر اسی در پر سکونت ہے ہمیں 


ناہید ورک


ناز بٹ

 یوم پیدائش 15 اکتوبر


بے خبر ہوتے ہوئے بھی با خبر لگتے ہو تم 

دور رہ کر بھی مجھے نزدیک تر لگتے ہو تم 


کیوں نہ آؤں سج سنور کر میں تمہارے سامنے 

خوش ادا لگتے ہو مجھ کو خوش نظر لگتے ہو تم 


تم نے لمس معتبر سے بخش دی وہ روشنی 

مجھ کو میری آرزوؤں کی سحر لگتے ہو تم 


جس کے سائے میں اماں ملتی ہے میری زیست کو 

مجھ کو جلتی دھوپ میں ایسا شجر لگتے ہو تم 


کیوں تمہارے ساتھ چلنے پر نہ آمادہ ہو دل 

خوشبوئے احساس میرے ہم سفر لگتے ہو تم 


نازؔ تم پر ناز کرتی ہے محبت کی قسم 

زندگی بھر کی دعاؤں کا اثر لگتے ہو تم


ناز بٹ


قمر بدرپوری

 یوم پیدائش 15 اکتوبر 1955


سورج غروب ہونے کا مطلب ہے یہ"قمر"

تاریکیوں کے بعد نئی صبح آئے گی


قمر بدرپوری


نیلما ناہید درانی

 یوم پیدائش 15 اکتوبر 1955


جس گھڑی ان سے بات ہوتی ہے

رقص میں کائنات ہوتی ہے


ان کے آنے سے دن نکلتا ہے

ان کے جانے سے رات ہوتی ہے


لفظ یوں پھول بن کے جھڑتے ہیں

گویا ہر سو برات ہوتی ہے


ان سے ملنے کو معجزہ کہیے

حسن کی یہ زکوٰۃ ہوتی ہے


روگ ایسا لگا ہے الفت کا

اس سے کیسے نجات ہوتی ہے


ظالموں سے وہ ڈر نہیں سکتا

جس کے دل میں فرات ہوتی ہے


نیلما ناہید درانی


ضیاء رشیدی

 حبیبِ خدا ہیں وہ خیر البشربھی 

 گئے رات اسراء وہ معراج پر بھی


 نبیِ مکرم شفیعِ معظم 

ابو بکر ساتھی ہیں ان کے عمر بھی


کیا ظلمتوں کا صفایا یقینا 

گئے آپؐ کے پاء اقدس جدھر بھی 


وہ پہنچا دئے دین کو ہے مکمل  

دیا تھا خدا نے انہیں جس قدر بھی 


 پڑھا ہے انہیں دیکھ کلمہ خدا کا 

بشر تو بشر راستے کے حجر بھی 

 

معطر ہیں رہتیں یقینا وہ گلیاں 

مہک جاتے ان کے ہر اک رہ گزر بھی


ضیاء تم گزارو شب وروز ایسے 

ہو جنت کی خواہش جہنم سے ڈر بھی


ضیاء رشیدی


محسن احسان

 یوم پیدائش 15 اکتوبر 1933


مرے وجود کے دوزخ کو سرد کر دے گا

اگر وہ ابر کرم ہے تو کھل کے برسے گا


گلہ نہ کر کہ ہے آغاز شب ابھی پیارے

ڈھلے گی رات تو یہ درد اور چمکے گا


قدح کی خیر سناؤ کہ اب کے بارش سنگ

اگر ہوئی تو طرب زار شب بھی ڈوبے گا


یہ شہر کم نظراں ہے ادھر نہ کر آنکھیں

یہاں اشارۂ‌ مژگاں کوئی نہ سمجھے گا


میں اس بدن میں اتر جاؤں گا نشے کی طرح

وہ ایک بار اگر پھر پلٹ کے دیکھے گا


رواں تو ہوں سوئے افلاک آرزو لیکن

یہ زور موج ہوا بازوؤں کو توڑے گا


اگر ہے شوق اسیری تو موند لے آنکھیں

تو عمر بھر در و دیوار بھی نہ دیکھے گا


تلاش قافلۂ زندگی ہے اب بے سود

یہ رہگذار نفس پر کہیں نہ ٹھہرے گا


نہ آنکھ میں کوئی جنبش نہ پاؤں پر کوئی گرد

جہاں سے اتنا بھی محتاط کون گزرے گا


رہے گی دل میں نہ جب کوئی بھی خلش محسنؔ

بھلا چکا ہے جسے تو اسے پکارے گا


محسن احسان


جاوید آغا

 یوم پیدائش 15 اکتوبر


اٹھا کے سر کو چلے خوبرو جوانی ہو

پھر اس کے ہاتھ میں اسلاف کی نشانی ہو


امیرِ شہر مری آخری وصیّت ہے

مجھے جو قتل کرے شخص خاندانی ہو


جہاں پہ فاختہ بے خوف گھونسلے سے اڑے

ترے جہان میں ایسی بھی راجدھانی ہو


ہے شاعری کا اگر شوق تو ضروری ہے

سلیس لہجہ ہو اشعار میں روانی ہو


یہ سانپ بھی مرے لاٹھی بھی اپنی بچ جائے

بتاؤ راستہ ایسا جو درمیانی ہو

 

حضور آپ کی آنکھوں نے بات چھیڑی تھی

یہ بات ختم بھی پھر آپ کی زبانی ہو


تمھارے جانے پہ کچھ اس طرح لگاہے مجھے

کہ جیسے گھر میں کوئی مرگِ ناگہانی ہو


یہی ہے پیار کہ ہو دل میں بات پوشیدہ

ملو تو آنکھوں سے پھر اس کی ترجمانی ہو


مری غزل پہ ہو گر تبصرہ تو یاد رہے

نہ خوش گمانی ہو آغا. نہ. بدگمانی ہو


جاویدآغا


ہما علی

 بہار رنگ مرے چار سو ابھی تک ہے 

دوام حسن ہے وہ ماہ رو ابھی تک ہے 


سنا تھا فرقتیں حلیہ بگاڑ دیتی ہیں ؟

کہاں کا ہجر کہ وہ خوبرو ابھی تک ہے 


ہو رنج کیا اسے محرومیءِ تمنا کا 

انا کے باب میں وہ سر خرو ابھی تک ہے


زمانے والے اسے مجھ سے دور لے جائیں 

وگرنہ خواب میں تو گفتگو ابھی تک ہے


وہ صفحہ ڈائری کا اب بھی ہے مہکتا سا

کہ خشک پھول میں بھی رنگ و بو ابھی تک ہے


یہ کالی شال میں ہر پل جو اوڑھے رکھتی ہوں 

یہ پہلے عشق کی تھی آبرو ابھی تک ہے


ہما علی


شہروز خاور

 یوم پیدائش 14 اکتوبر


خاک ہونے کا نہیں ، موجوں کا مارا ہوا میں

خشکی و تر کی کشاکش میں کنارا ہوا میں


جنگ آمادہ ہُوں دنیا سے بس اک تیرے لیے

خود سے ہاری ہوئی پرچھائیں سے ہارا ہوا میں


لوگ بڑھ بڑھ کے بغل گیر ہوا چاہتے ہیں

چند روزہ ترے کوچے میں گذارا ہوا میں


تو نے دیکھا ہے سدا دیکھنے والوں کی طرح

کب تری چشم تمنا کو گوارا ہوا میں


ہجر کاٹیں گی کہاں تک مری حوریں شہروز

عرش کا فرش پہ مدت سے اتارا ہوا میں


شہروز خاور


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...