یوم پیدائش 17 اکتوبر 1956
پھر سے وہی حالات ہیں امکاں بھی وہی ہے
ہم بھی ہیں وہی مسئلۂ جاں بھی وہی ہے
کچھ بھی نہیں بدلا ہے یہاں کچھ نہیں بدلا
آنکھیں بھی وہی خواب پریشاں بھی وہی ہے
یہ جال بھی اس نے ہی بچھایا تھا اسی نے
خوش خوش بھی وہی شخص تھا حیراں بھی وہی ہے
اے وقت کہیں اور نظر ڈال یہ کیا ہے
مدت کے وہی ہاتھ گریباں بھی وہی ہے
کل شام جو آنکھوں سے چھلک آیا تھا میری
تم خوش ہو کہ اس شام کا عنواں بھی وہی ہے
ہر تیر اسی کا ہے ہر اک زخم اسی کا
ہر زخم پہ انگشت بدنداں بھی وہی ہے
شہپرؔ وہی بھولا ہوا قصہ وہی پھر سے
اچھا ہے تری شان کے شایاں بھی وہی ہے
شہپر رسول