Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

شہپر رسول

 یوم پیدائش 17 اکتوبر 1956


پھر سے وہی حالات ہیں امکاں بھی وہی ہے

ہم بھی ہیں وہی مسئلۂ جاں بھی وہی ہے


کچھ بھی نہیں بدلا ہے یہاں کچھ نہیں بدلا

آنکھیں بھی وہی خواب پریشاں بھی وہی ہے


یہ جال بھی اس نے ہی بچھایا تھا اسی نے

خوش خوش بھی وہی شخص تھا حیراں بھی وہی ہے


اے وقت کہیں اور نظر ڈال یہ کیا ہے

مدت کے وہی ہاتھ گریباں بھی وہی ہے


کل شام جو آنکھوں سے چھلک آیا تھا میری

تم خوش ہو کہ اس شام کا عنواں بھی وہی ہے


ہر تیر اسی کا ہے ہر اک زخم اسی کا

ہر زخم پہ انگشت بدنداں بھی وہی ہے


شہپرؔ وہی بھولا ہوا قصہ وہی پھر سے

اچھا ہے تری شان کے شایاں بھی وہی ہے


شہپر رسول


ابن مقصود

 سر سید احمد خان کے مشن کے حوالے سے چار مصرعے قوم کے طالب علموں کے نام




واحد کشمیری

 نظر ملا نا نظر چرانا کمال فن ہے

نگاہ قاتل ترا نشانہ کمال فن ہے


نزاکتیں ہیں روانیاں ہیں ترے بیاں میں

ہراک سخن کا جدا فسانہ کمال فن ہے


تمھارے آنے سے میرا ماضی و حال یکساں

نہ وہ زمانہ نہ یہ زمانہ کمال فن ہے


لکھی ہے رندوں نے اپنے ہاتھوں فرار اپنی

یوں اپنی مرضی شکست کھانا کمال فن ہے


کمال فن ہے لبوں پہ لفظوں کی بے قراری

حیا کی چوکھٹ پہ سر جھکانا کمال فن ہے


محبتوں میں گھلی ہوئی یہ نوازشیں بھی

ملال نو میں یوں منہ چڑھانا کمال فن ہے


سخاوتوں میں محبتوں میں بڑا سکوں ہے

عداوتوں میں قرار پانا کمال فن ہے


لگی ہے برسوں سے آگ دل میں جھلس رہا ہوں 

بھڑکتے شعلوں کو یوں چھپانا کمال فن ہے


واحدکشمیری


ملک زادہ منظور احمد

 یوم پیدائش 17 اکتوبر 1929


زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی

تنگ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی


جام خالی تھے مگر مے خانہ تو آباد تھا

چشم ساقی میں تغافل تھا پشیمانی نہ تھی


غازۂ غم ایک تھا تھے سب کے چہرے مختلف

غور سے دیکھا تو کوئی شکل انجانی نہ تھی


جن سفینوں نے کبھی توڑا تھا موجوں کا غرور

اس جگہ ڈوبے جہاں دریا میں طغیانی نہ تھی


تجھ سے امید وفا خواب پریشاں تو نہ تھی

بے وفا عمر گریزاں تھی کہ طولانی نہ تھی


پڑھ چکا اپنی غزل منظورؔ تو ایسا لگا

مرثیہ تھا دور حاضر کا غزل خوانی نہ تھی


ملک زادہ منظور احمد


یگانہ چنگیزی

 یوم پیدائش 17 اکتوبر 1884


زمانہ خدا کو خدا جانتا ہے

یہی جانتا ہے تو کیا جانتا ہے


اسی میں دل اپنا بھلا جانتا ہے

کہ اک ناخدا کو خدا جانتا ہے


وہ کیوں سر کھپائے تری جستجو میں

جو انجام فکر رسا جانتا ہے


خدا ایسے بندے سے کیوں پھر نہ جائے

جو بیٹھا دعا مانگنا جانتا ہے


زہے سہو کاتب کہ سارا زمانہ

مجھی کو سراپا خطا جانتا ہے


انوکھا گنہ گار یہ سادہ انساں

نوشتے کو اپنا کیا جانتا ہے


یگانہؔ تو ہی جانے اپنی حقیقت

تجھے کون تیرے سوا جانتا ہے


یگانہ چنگیزی 


عاطف خان

 یوم پیدائش 16 اکتوبر


دیے اپنی ضو پہ جو اترا رہے ہیں 

اندھیرے محافظ ہوئے جا رہے ہیں 


جو ہم دل کے دل میں ہی دفنا رہے ہیں 

وہ اسرار خود ہی کھلے جا رہے ہیں 


انہیں بھولنا اتنا آساں نہ ہوگا 

مری زندگی جو ہوئے جا رہے ہیں 


تمہاری صداقت کی ہے یہ ہی قیمت 

ہم الزام سر پہ لیے جا رہے ہیں 


ہمی سے ہے غافل ہمارا مسیحا 

ادھر آس میں زہر ہم کھا رہے ہیں 


عاطف خان


عبد الاحد ساز

 یوم پیدائش 16 اکتوبر 1950


کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن

ترے جمال کی راتیں ترے خیال کے دن


نفس نفس نئی تہہ داریوں میں ذات کی کھوج

عجب ہیں تیرے بدن تیرے خد و خال کے دن


بہ ذوق شعر بہ جبر معاش یکجا ہیں

مرے عروج کی راتیں مرے زوال کے دن


خرید بیٹھے ہیں دھوکے میں جنس عمر دراز

ہمیں دکھائے تھے مکتب نے کچھ مثال کے دن


نہ حادثے نہ تسلسل نہ ربط عمر کہیں

بکھر کے رہ گئے لمحوں میں ماہ و سال کے دن


میں بڑھتے بڑھتے کسی روز تجھ کو چھو لیتا

کہ گن کے رکھ دیے تو نے مری مجال کے دن


یہ تجربات کی وسعت یہ قید صوت و صدا

نہ پوچھ کیسے کڑے ہیں یہ عرض حال کے دن


عبد الاحد ساز


فراغ روہوی

 یوم پیدائش 16 اکتوبر 1956


خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے

تھوڑا جھوٹا میں بھی ٹھہرا تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے


جنگ انا کی ہار ہی جانا بہتر ہے اب لڑنے سے

میں بھی ہوں ٹوٹا ٹوٹا سا بکھرا بکھرا تو بھی ہے


جانے کس نے ڈر بویا ہے ہم دونوں کی راہوں میں

میں بھی ہوں کچھ خوف زدہ سا سہما سہما تو بھی ہے


اک مدت سے فاصلہ قائم صرف ہمارے بیچ ہی کیوں

سب سے ملتا رہتا ہوں میں سب سے ملتا تو بھی ہے


اپنے اپنے دل کے اندر سمٹے ہوئے ہیں ہم دونوں

گم صم گم صم میں بھی بہت ہوں کھویا کھویا تو بھی ہے


ہم دونوں تجدید رفاقت کر لیتے تو اچھا تھا

دیکھ اکیلا میں ہی نہیں ہوں تنہا تنہا تو بھی ہے


حد سے فراغؔ آگے جا نکلے دونوں انا کی راہوں پر

صرف پشیماں میں ہی نہیں ہوں کچھ شرمندہ تو بھی ہے


فراغ روہوی


شاعر لکھنوی

 یوم پیدائش 16 اکتوبر 1917


جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے

وہ نظر نظر سے گلے ملے تو بجھے چراغ بھی جل گئے


یہ شکست دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں

میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے


نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی

یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے


جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردۂ راہ تھے

وہ مقام عشق کو پا گئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے


جو کھلے ہوئے ہیں روش روش وہ ہزار حسن چمن سہی

مگر ان گلوں کا جواب کیا جو قدم قدم پہ کچل گئے


نہ ہے شاعرؔ اب غم نو بہ نو نہ وہ داغ دل نہ وہ آرزو

جنہیں اعتماد بہار ہے وہی پھول رنگ بدل گئے


شاعر لکھنوی


ناہید ورک

 یوم پیدائش 15 اکتوبر


اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں 

اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں 


دیکھیے جا کر کہاں رکتے ہیں اب 

تیری قربت سے تو ہجرت ہے ہمیں 


سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے 

ورد کرنے کی اجازت ہے ہمیں 


دل جزیرے پر ہے اس کی روشنی 

اک ستارے سے محبت ہے ہمیں 


اب ذرا سرگوشیوں میں بات ہو 

مہرباں لہجے کی عادت ہے ہمیں 


پھر اسی چوکھٹ کی دل کو ہے تڑپ 

پھر اسی در پر سکونت ہے ہمیں 


ناہید ورک


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...