Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

سلیم کوثر

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1947


میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے


میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں

میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے


عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی

میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے


مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر

تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے


تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں

تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے


وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں

مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے


کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے


جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی

تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے


سلیم کوثر


مولانا سید شاہ معز الدین قادری

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1905


اس دامن رحمت کا صدقہ تقدیرِ معزؔ بن کر چمکا

انوارِ محمدؐ سے بڑھ کر مرقد میں اجالا کیا ہوگا


مولانا سید شاہ معز الدین قادری


نیاز احمد مجاز انصاری

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1950


کہیں بھی انقلاب آئے یہی تصویر بولے گی

کبھی تحریر بولے گی کبھی شمشیر بولے گی


فقط خوابوں میں کھونے سے کہیں تقدیر بولے گی

عمل شامل اگر ہو تو ہر اک تدبیر بولے گی


وہاں پر مصحفِ احساس کی تحریر بولے گی

حدیثِ زندگی کی جِس جگہ تفسیر بولے گی


ہر اک منبر سے جب اسلام کی تاثیر بولے گی

مُقّرر خود نہ بولے گا مگر تقریر بولے گی


جہاں سے امن کے موسم میں ہوگی خون کی بارش

سمجھ لینا وہیں سے جنگِ عالمگیر بولے گی


خبر کیا تھی کہ جس کی پیاس پر کوثر نچھاور ہے

اُسی معصوم کی گردن پہ نوكِ تیر بولے گی


کِسے تیرا خیال آئے گا تنہائی کے عالم میں

اگر آئینہ خانے میں کوئی تصویر بولے گی


دہل اٹھّیں گی دیواریں تمہارے قید خانوں کی

 چٹخ کر جب ہمارے پاؤں کی زنجیر بولے گی


کوئی تو خضر بن کر راستے میں آ ہی جائے گا

سِکندر کی زباں جب عالمی تسخیر بولے گی


جِسے ہم جاگتی آنکھوں میں رکھ کر بھول آئے ہیں

کہاں تک اُس ادھورے خواب کی تعبیر بولے گی


محاذِ زندگی پر فتح یابی ہی مُقدر ہے

زبانِ صدق سے تحریک جب تکبیر بولے گی


مرے احباب بھی مجھ کو بھلا دیں گے مجاز اُس دن

کھنڈر کا روپ لے کر جب مری جاگیر بولے گی


نیاز احمد مجاز انصاری


بہادر شاہ ظفر

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1775


لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں


کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں 

اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں 


کانٹوں کو مت نکال چمن سے او باغباں

یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں


بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ

قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں


کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


بہادر شاہ ظفر


(ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

یہ شعر پیمانہ غزل پیج نمبر 123 پر موجود ہے)


آنند نرائن ملا

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1901


یہ دل آویزیٔ حیات نہ ہو

اگر آہنگ حادثات نہ ہو


تیری ناراضگی قبول مگر

یہ بھی کیا بھول کر بھی بات نہ ہو


زیست میں وہ گھڑی نہ آئے کہ جب

ہات میں میرے تیرا ہات نہ ہو


ہنسنے والے رلا نہ اوروں کو

صبح تیری کسی کی رات نہ ہو


عشق بھی کام کی ہے چیز اگر

یہی بس دل کی کائنات نہ ہو


کون اس کی جفا کی لائے تاب

گاہے گاہے جو التفات نہ ہو


رند کچھ کر رہے ہیں سرگوشی

ذکر ملاؔ سے خوش صفات نہ ہو


آنند نرائن ملا


وامق جونپوری

 یوم پیدائش 23 اکتوبر 1909


زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے

فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے


نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی

مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے


یہ مانا شیشۂ دل رونق بازار الفت ہے

مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے


نگاہیں تاڑ لیتی ہیں محبت کی اداؤں کو

چھپانے سے زمانے بھر کی شہرت اور ہوتی ہے


یہ مانا حسن کی فطرت بہت نازک ہے اے وامقؔ

مزاج عشق کی لیکن نزاکت اور ہوتی ہے


وامق جونپوری


عبدالرحمان خان وصفی بہرائچی

 یوم پیدائش 22 اکتوبر 1914


غم سے گھبرا کے کبھی نالہ و فریاد نہ کر

عزت نفس کسی حال میں برباد نہ کر


دل یہ کہتا ہے کہ دے اینٹ کا پتھر سے جواب

جو تجھے بھولے اسے تو بھی کبھی یاد نہ کر


توڑ دے بند قفس کچھ بھی اگر ہمت ہے

اک رہائی کے لئے منت صیاد نہ کر


اپنے حالات کو بہتر جو بنانا ہے تجھے

عہد رفتہ کو کبھی بھول کے بھی یاد نہ کر


حال کو دیکھ سمجھ وقت کی قیمت اے دوست

فکر فردا میں کبھی وقت کو برباد نہ کر


زندگی بنتی ہے کردار سے کردار بنا

مختصر زیست کے لمحات کو برباد نہ کر


کبھی بدلا ہے نہ بدلے گا محبت کا مزاج

اہل دل ہے تو کسی دل کو بھی ناشاد نہ کر


مدعی علم کا ہے جہل مرکب لا ریب

قول فیصل ہے فراموش یہ ارشاد نہ کر


عبدالرحمان خان وصفی بہرائچی


آصف انجم

 یوم پیدائش 22 اکتوبر


براہِ دستِ طلب، انکسارِ ذات کے پھول

قبول کیجئے لایا ہوں چار نعت کے پھول


تُو میری قبر پہ خاکِ مدینہ رکھنا دوست

مری طلب میں نہیں تیری کائنات کے پھول


درود ﷺ پڑھتے ہوئے کوئی بھی ارادہ کروں

مہک اٹھیں گے مرے پاس ممکنات کے پھول


حضور ﷺ آپ کے دستِ دعا کی نسبت سے

بروزِ حشر مہک جائیں گے نجات کے پھول


مجھے جو ناقہ ء نبوی ﷺ کا ساتھ مل جاتا

بڑی لگن سے سجاتا اُسے میں کات کے پھول


سُنو یہ میرے نبی ﷺ کی دعاؤں کا ہے ثمر

فرشتے بانٹنے آئے شبِ برات کے پھول


حضور ﷺ آپ ﷺ کا ادنیٰ غلام ہے انجم

جو آپ ﷺ چاہیں تو کھلتے رہیں حیات کے پھول


آصف انجم


انور ندیم

 یوم پیدائش 22 اکتوبر 1937


کیا سنائیں تمہیں کوئی تازہ غزل

شعر حیرت زدہ آب دیدہ غزل


تم کو لوگو ابھی بھانگڑہ چاہیئے

درد کی زندگی کا ترانہ غزل


وقت برباد کرتے رہے اس طرح

ہم سناتے رہے سب کو تازہ غزل


ترجمان شکستہ دلی تھی مگر

محفلوں میں چلی وہ شکستہ غزل


آدمی کو کبھی بھول سکتی نہیں

زندگی سے نبھاتی ہے رشتہ غزل


ہر گھڑی چھیڑنا بھی مناسب نہیں

بن گئی زندگی میں تراشا غزل


انور بے زباں آج اقرار کر

رات پھر ہو گئی بے ارادہ غزل


انور ندیم


اسد اعوان

 یوم پیدائش 22 اکتوبر 1975


ان گنت یوں تو خریدار ملے ہم نہ ملے 

وہ جو یوسف تھے کئی بار ملے ہم نہ ملے 


آج راہوں میں ملاقات ہوئی ہے اُن سے 

آج وہ صورتِ دلدار ملے ہم نہ ملے 


کون جانے کہ کہاں کھوئے تھے ہم محفل میں

کتنی رغبت سے ہمیں یار ملے ہم نہ ملے 


ہم بھی نخوت میں رہے کوچہء تنہائی میں

عید کے روز طرح دار ملے ہم نہ ملے


ہم تو ہر دور میں حق گوئی کے منصب پہ رہے 

کب کوئی ہم سے سرِدار ملے ہم نہ ملے 


کل جو تنہائی میں ملنے سے گریزاں تھے ہمیں 

آج وہ بر سرِ بازار ملے ہم نہ ملے 


ہم بھی کوفے میں رہے ابنِ مظاہر کی طرح 

ابنِ مرجانہ سے غدار ملے ہم نہ ملے 


سوچتے رہتے ہیں ہم اپنی کہانی پہ اسد 

کھل کے ہر فرد کے کردار ملے ہم نہ ملے


اسد اعوان


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...