Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

محمد عارف

 جس حد تلک بھی راہِ وفا لے چلی، گئے

ہم زہر تک تو نام تِرا لے کے پی گئے


جینے کی جُستجو میں ہمیں موت آ گئی

مرنے کی آرزو تھی، مگر اور جی گئے


گھر سے نکل کے، پاس ہی، اِک میکدہ بھی تھا

ہم کو قسم ہے آپ کی جو ہم کبھی گئے


ہم سے غمِ فراق کی شدًت نہ پوچھیئے  

ہم اِنتہائے کرب میں ہونٹوں کو سی گئے


تھی تشنگی ضرور، مگر زندگی تو تھی

کیا شے ہمیں پِِلائی کہ ہم جاں سے ہی گئے


دیکھا جمالِ یار تو قائم رہے نہ ہوش

ایسا لگا کہ جیسے ابھی تھے، ابھی گئے


عارف ہجومِ یاس میں پژمردگی کے ساتھ

لب پر لئے جہان سے پھیکی ہنسی گئے


محمد عارف


محب الرحمان وفا

 یوم پیدائش 26 اکتوبر 1964

 

    ذراسا مل گیا ہوتا جوپیار مجھ کو بھی

    تو راس آ گئی ہوتی بہار مجھ کو بھی


    کشادہ دل جو دیا ہے تو تنگ دست نہ رکھ

    غنی بنادے اے پروردگار مجھ کو بھی


    کسی کے خواب ہوئے چکناچور پل بھر میں

    یہی شکایتیں ہیں میرے یار مجھ کو بھی


    سنا ہے ہوتا ہے اک دوست مثلِ آئینہ

    اگر یہ سچ ہے تو یارا سنوار مجھ کو بھی


    میں ایک پل میں خطائیں معاف کردونگا

    بس ایک بار تو دل سے پکار مجھ کو بھی


   کوئی جو دل بھی دکھائے تو مسکراتا رہوں

   خدایا بخش دے یہ اختیار مجھ کو بھی


   فضا میں خوشنما گل عطر گھولتے ہیں"وفا"

   تو یاد آتا ہے وہ بار بار مجھ کو بھی


محب الر حمان وفا


نوشاد نوری

 یوم پیدائش 26 اکتوبر 1926


کاروبارِ جنوں کی گیرائی

صرف تحسین، صرف رسوائی


ایک چھوٹی سی بات انساں کو

آسماں سے کہاں اٹھا لائی


دل کے ایسے معاملے ہیں جہاں

کام کرتی نہیں ہے دانائی


رات اُن کا خیال آتے ہی

چاندنی سیج پر اتر آئی


حسن اک کیفیت کو کہتے ہیں

جس سے جب تک نبھائے بینائی


دیکھتے دیکھتے کمال ہوا

آنکھوں آنکھوں میں بات طے پائی


گاہے گاہے رگوں میں چٹکی سی

جان پر آدمی کے بن آئی


سب سے دلچسپ و دلنشیں موضوع 

آدمی اور کنج تنہائی


آنسوؤں کی لکیر سے نوشاد

زخم کی ناپتے ہیں گہرائی


نوشاد نوری


اقبال اشہر

 یوم پیدائش 26 اکتوبر 1965


ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی

آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی


آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا

آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی


مدتوں بعد چلا ان پہ ہمارا جادو

مدتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی


مدتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے

مدتوں بعد ہمیں پیاس چھپانی آئی


مدتوں بعد کھلی وسعت صحرا ہم پر

مدتوں بعد ہمیں خاک اڑانی آئی


مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل

مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی


اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت

ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی


اقبال اشہر


ریاض ساغر

 دیکھ کر پرواز میری کہہ اٹھے سارے رقیب

اتنی اونچائی پہ ہوگا اس کا اندازہ نہ تھا


ریاض ساغر


 #اردو #اردودکن #urdud


eccan

دیپک شرما دیپ

 یوم پیدائش 25 اکتوبر


ہماری جان تم ایسا کرو گی 

ہماری جان کا سودا کرو گی 


تبھی یہ دل تمہیں دیں گے بتاؤ 

ذرا سی بات پر روٹھا کرو گی 


چلو تکیہ تمہارے ہی سرہانے 

وگرنہ رات بھر جھگڑا کرو گی 


نگاہوں سے نگاہوں کو پکڑ کر 

لبوں سے ہائے اف توبہ کرو گی 


ارے شرما رہی ہو کیوں کہو بھی 

نہا کر ہائے کیا پہنا کرو گی


دیپک شرما دیپ


ماورآ عنایت

 یوم پیدائش 25 اکتوبر 


بچا باقی تو جل کر کچھ نہیں ہے

مرے کمرے کے اندر کچھ نہیں ہے


شفق کرتی ہے پردہ شب جو آئے

حیا بن اور زیور کچھ نہیں ہے


سوائے نام کے تیرے مری جاں

مجھے دنیا میں ازبر کچھ نہیں ہے


مجھے تم زہر کی پڑیا پلا دو

یہ گولی خواب آور کچھ نہیں ہے


اگرچہ کر رہا ہے ان کو زخمی

بنا انگور کیکر کچھ نہیں ہے


ہزاروں بار ٹھوکر تم لگاؤ

تمہاری ایک ٹھوکر کچھ نہیں ہے


کرے پیدا یہ حرکت جھیل میں پر

بذاتِ خود یہ پتھر کچھ نہیں ہے


نہیں رکھا جو تم نے اس کو دل میں

تو میرے دل سا بے گھر کچھ نہیں ہے


ہر اک شے سے اٹھا ہے ماوراؔ دل

نظر کا جگ میں محور کچھ نہیں ہے


ماوراؔ عنایت


فاطمہ تاج

 یوم پیدائش 25 اکتوبر 1948


عروج درد تمنا ہے اب تو آ جاؤ

ہمارا دل یہی کہتا ہے اب تو آ جاؤ


نہیں ہے صحن گلستاں میں کوئی ہنگامہ

ہجوم شوق تمنا ہے اب تو آ جاؤ


کھلے ہیں پھول کئی آرزو کے گلشن میں

بس انتظار تمہارا ہے اب تو آ جاؤ


کبھی کبھی تو حسیں چاندنی بھی چبھتی ہے

کرن کرن میں اندھیرا ہے اب تو آ جاؤ


نہ جانے عمر کہاں یہ تمام ہو جائے

ابھی حیات کا لمحہ ہے اب تو آ جاؤ


ہم اپنے دل کے اندھیروں سے خود پریشاں تھے

چراغ شوق جلایا ہے اب تو آ جاؤ


نہ ساتھ دے گی تمہارا بھی تاجؔ تنہائی

ہمارے ساتھ یہ دنیا ہے اب تو آ جاؤ


فاطمہ تاج


مومن غازی پوری

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1933


اربابِ سیاست کی ہر اک بات ہی مومنؔ

بالخیر بہت کم ہے شر انگیز بہت ہے


  مومنؔ غازی پوری


زین نقوی

 ترے خیال میں سگرٹ فقط نشہ ہے مگر

ہم اہلِ ہجر اسے اپنا رزق کہتے ہیں


زین نقوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...