Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

شاہد عباس ملک

 درد ہونا قرار پایا ہے 

یعنی رونا قرار پایا ہے 


میری قسمت میں رتجگے آئے  

ان کا سونا قرار پایا ہے


فکر ہونے لگی ہے کانٹوں کی 

یہ بچھونا قرار پایا ہے


آ ندامت گلے لگا مجھ کو 

داغ دھونا قرار پایا ہے


دشت شاہد بلا رہا ہے مجھے 

پھر سے کھونا قرار پایا ہے


شاہد عباس ملک


نویش ساہو

 یوم پیدائش 01 نومبر


جو کرتے تھے الٹا سیدھا کرتے تھے 

ہم پتھر پہ دریا پھینکا کرتے تھے 


اس جنگل کے پیڑوں سے میں واقف ہوں 

گر جاتے تھے جس پر سایہ کرتے تھے 


میں بستی میں تتلی پکڑا کرتا تھا 

باقی سارے لوگ تو جھگڑا کرتے تھے 


کچھ بچے سیلابوں میں بہہ جاتے ہیں 

ہم پلکوں سے دریا روکا کرتے تھے 


سب روحیں ذہنوں پر کپڑا رکھتی تھیں 

ہم بس جسموں کا ہی پردہ کرتے تھے 


روز مشاہد رہتے تھے ہم شام تلک 

پھر سورج کا ماتھا چوما کرتے تھے 


میں اس آگ میں جسم جلا کر آیا تھا 

جس میں سارے آنکھیں سیکا کرتے تھے


نویش ساہو


کوکی گل

 آج اس نے بھی کہہ دیا ہے مجھے

تم سے اے گل! بڑا گلہ ہے مجھے


ایک عرصے سے وہ نہیں ملتا

جانے کس بات کی سزا ہے مجھے


سوچتی تھی رہوں گی کیسے میں

کچھ بھی لیکن نہیں ہوا ہے مجھے  


سارے دکھ مر گئے ہیں اپنی موت

آپ سے مل گئی شفا ہے مجھے


جس جگہ سے میں خوف کھاتی تھی

اب اسی جا سکوں ملا ہے مجھے  


     کوکی گل


عطا عابدی

 یوم پیدائش 01 نومبر 1962


تماشا زندگی کا روز و شب ہے

ہماری آنکھوں کو آرام کب ہے


چمکتی ہے تمنا جگنوؤں سی

اندھیری رات میں رونق عجب ہے


ضرورت ڈھل گئی رشتے میں ورنہ

یہاں کوئی کسی کا اپنا کب ہے


کہیں دنیا کہاں اس کے تقاضے

وہ تیرا مے کدہ یہ میرا لب ہے


زباں ہی تیرا سرمایہ ہے لیکن

عطاؔ خاموش یہ جائے ادب ہے


عطا عابدی


احمد ذوہیب

 یوم پیدائش 02 نومبر


سجے گی نامہِ اعمال میں کتابِ نعت

بہ روزِ حشر ملے گا ہمیں ثوابِ نعت


چمک رہے ہیں شبستانِ دل میں رنگ و نور

میں دیکھتا ہوں کہ جلوہ نما ہے خوابِ نعت


غزل کے خار اتارو طلب کے پیڑوں سے

کہ رکھ دو عشق کے گلدان میں گلابِ نعت


وجودِ شعر مہکتا ہے ان کی سیرت سے

کہ اصل میں ہے حیاتِ نبی ، نصابِ نعت


دیارِ روح میں انوار بھرنے کو احمد

طلوع ہوتا ہے دل سے یہ آفتابِ نعت


احمد زوہیب


ترونا مشرا

 یوم پیدائش 01 نومبر 1966


عشق کی رسم نبھانا تھی نبھا لی میں نے

درد کی بستی بسانا تھی بسا لی میں نے


وہ ضرور آئے گا اک آس لگا لی میں نے

گھر کی ہر چیز قرینے سے سجا لی میں نے


آج پھر چائے بناتے ہوئے وہ یاد آیا

آج پھر چائے میں پتی نہیں ڈالی میں نے


آگ دہکی تو نکلنا پڑا کمرے سے مگر

اس کی تصویر کسی طرح بچا لی میں نے


نام اس کا ہی لیا کرتی ہے وہ شام و سحر 

ایک مینا جو بڑے پیار سے پالی میں نے


وہ تو محفل میں ہی اعلان وفا کر دیتا

بات مت پوچھئے پھر کیسے سنبھالی میں نے


گھر کی بنیاد کے پتھر بھی سڑک پر ہوتے

وہ تو اچھا ہوا دیوار بچا لی میں نے


ترونا مشرا


عبیداللہ توحیدی

 یوم پیدائش 01 نومبر 1955


شبِ فراق میں تارے تمام رکھے گئے

اسی میں ہجر تمہارے تمام رکھے گئے


غمِ حیات میں فرحت قدم قدم پہ رہی

خوشی خوشی میں خسارے تمام رکھے گئے


نظر نظر میں رہا ہے جو پانیوں کا گماں

انہیں میں ریت کنارے تمام رکھے گئے


ہوا نہ کوئی ہمارے نصیب میں ہندسہ

صفر صفر ہی سہارے تمام رکھے گئے


خیال جو بھی جہاں میں تھے بد گمانی کے

مری ہی ذات کے بارے تمام رکھے گئے


نظر کے پاس رہا ہے یہ تیرگی کا سماں

نظر سے دور نظارے تمام رکھے گئے


حیا کے پتلوں کی یہ خامشی سمجھنے کو

خموشیوں میں اشارے تمام رکھے گئے


عبیداللہ توحیدی


حسن نجمی سکندرپوری

 یوم پیدائش 01 نومبر 1913


لوگ صبح و شام کی نیرنگیاں دیکھا کیے

اور ہم چپ چاپ ماضی کے نشاں دیکھا کیے


عقل تو کرتی رہی دامان ہستی چاک چاک

ہم مگر دست جنوں میں دھجیاں دیکھا کیے


خنجروں کی تھی نمائش ہر گلی ہر موڑ پر

اور ہم کمرے میں تصویر بتاں دیکھا کیے


ہم تن آسانی کے خوگر ڈھونڈتے منزل کہاں

دور ہی سے گرد راہ کارواں دیکھا کیے


ہم کو اس کی کیا خبر گلشن کا گلشن جل گیا

ہم تو اپنا صرف اپنا آشیاں دیکھا کیے


موسم پرواز نے نجمیؔ پکارا تھا مگر

پر سمیٹے ہم قفس کی تیلیاں دیکھا کیے


حسن نجمی سکندرپوری


مسلم سلیم

یوم پیدائش 01 نومبر 1950


جثۂ تحیر کو لفظ میں جکڑتے ہیں

شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں


کیوں ہمارے قبضے میں کوئی جن نہیں آتا

اس چراغ ہستی کو ہم بھی تو رگڑتے ہیں


برقرارئ ظاہر کتنا خوں رلاتی ہے

اپنے جسم کے اندر ہم کسی سے لڑتے ہیں


قابل عبور اتنی ہے بدن کی صف بندی

تیر جتنے چلتے ہیں روح ہی میں گڑتے ہیں


مسلم سلیم


صدیق فتح پوری

 یوم پیدائش 01 نومبر 1936


طلسم ذات سے باہر نکلیے

نظر کے گھات سے باہر نکلیے


اجالے جانے کب سے منتظر ہیں

اندھیری رات سے باہر نکلیے


تصور سے فقط ہوتا نہیں کچھ

ہوائی بات سے باہر نکلیے


ہیں انساں کے لئے یہ سم قاتل

بری عادات سے باہر نکلیے


ندی نالے سبھی امڈے ہوئے ہیں

بھری برسات سے باہر نکلیے


کہیں گم ہو نہ جائیں آپ اس میں

ہجوم ذات سے باہر نکلیے


عذاب جاں ہے ناکردہ گناہی

ان الزامات سے باہر نکلیے


اصول زندگی بدلا ہوا ہے

حسیں لمحات سے باہر نکلیے


بدل جائیں گے روز و شب بھی صدیقؔ

حصار ذات سے باہر نکلیے


صدیق فتح پوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...