Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

بخش لائلپوری

 یوم پیدائش 11 نومبر 1934


کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا

زندگی تلخ سہی دل سے لگائے رکھنا


لفظ تو لفظ ہیں کاغذ سے بھی خوشبو پھوٹے

صفحۂ وقت پہ وہ پھول کھلائے رکھنا


چاند کیا چیز ہے سورج بھی ابھر آئے گا

ظلمت شب میں لہو دل کا جلائے رکھنا


حرمت حرف پہ الزام نہ آنے پائے

سخن حق کو سر دار سجائے رکھنا


فرش تو فرش فلک پر بھی سنائی دے گا

میری آواز میں آواز ملائے رکھنا


کبھی وہ یاد بھی آئے تو ملامت کرنا

کبھی اس شوخ کی تصویر بنائے رکھنا


بخشؔ سیکھا ہے شہیدان وفا سے ہم نے

ہاتھ کٹ جائیں علم منہ سے اٹھائے رکھنا


بخش لائلپوری


فارغ بخاری

 یوم پیدائش 11 نومبر 1917


یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے

جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے


دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر

راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے


آؤ تعمیر کریں اپنی وفا کا معبد

ہم نہ مسجد کے لیے ہیں نہ شوالوں کے لیے


سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے

منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے


رات کا کرب ہے گلبانگ سحر کا خالق

پیار کا گیت ہے یہ درد اجالوں کے لیے


شب فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا

اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے


فارغ بخاری


مولانا ابوالکلام آزاد

 یوم پیدائش 11 نومبر 1888


ہے عکس روئے یار دل داغ دار میں

کچھ تیرگی نہیں ہے ہمارے مزار میں


کچھ ایسے محو ہو گئے اقرار یار میں

لطف انتظار کا نہ ملا انتظار میں


دوچند اس سے حسن پہ ان کو غرور ہے

جتنا نیاز و عجز ہے مجھ خاکسار میں


وہ پیاری پیاری شکل وہ انداز دل فریب

رہتا نہیں ہے دیکھ کے دل اختیار میں


ایسی بھری ہیں یار کے دل میں کدورتیں

نامہ لکھا ہے مجھ کو تو خط غبار میں


ہم کچھ وصف کاکل پیچاں نہ لکھ سکے

مضموں الجھ رہے ہیں قلم مشکبار میں


کچھ بھی نہ اس کی وعدہ خلافی کا رنج ہو

آ جائے موت ہی جو شب انتظار میں


اے موت تو ہی آ نہ آئیں گے وہ کبھی

آنکھیں ہیں اک عرصے سے وا انتظار میں


سمجھو کہ کس کو کہتے ہیں تکلیف انتظار

بیٹھو کبھی جو دیدۂ خوننابہ یار میں


سودائے زلف و رخ میں غضب کا ہے انتظار

اب آ گئے ہیں گردش لیل و نہار میں


بیٹھے ہیں آج آپ تو پہلو میں غیر کے

ہم ہوں گے کل عروس اجل کے کنار میں


مٹ کر ہوں خاک سرمہ کی مانند بھی اگر

پھر بھی کبھی سمائیں نہ ہم چشم یار میں


کہنے لگے کہ آپ کی نیت تو ٹھیک ہے

بیتاب مجھ کو دیکھ کے بوس و کنار میں


شکوہ کریں تو کیا کریں جور و جفا کا ہم

سب عمر کٹ گئی ستم روزگار میں


مرنے کے بعد بھی ہے وہی کشمکش خدا

میں قبر میں ہوں دل مرا ہے کوئے یار میں


تقدیر کے لکھے کو مٹانا محال ہے

کیا دخل ہے مشیت پروردگار میں


بجلی سی کوند جاتی ہے گھونگھٹ کی آڑ میں

کیا شوخیاں ہیں اس نگہ شرمسار میں


دعوائے عاشقی پہ یہ کہنے لگا وہ بت

اللہ کی شان !آپ بھی ہیں اس شمار میں


پامال کیجئے گا سمجھ کر خدا اسے

ہے آپ ہی کا گھر دل بے اختیار میں


سودا نیا ، جنوں ہے نیا ، ولولے نئے

اب اور ہی بہار ہے اب کے بہار میں


دل پر لگی وہ چوٹ کہ اف کر کے رہ گئے

ٹوٹا جو گرکے جام کوئی بزم یار میں


گر ان پہ اختیار نہیں ہے نہیں سہی

غم ہے یہی کہ دل بھی نہیں اختیار میں


اے دل خدا کی یاد میں


اب صرف عمر ہو

کچھ کم پھرے صنم کدۂ روزگار میں 


مولانا ابوالکلام آزاد

باسط علی صبا

 یوم پیدائش 11 نومبر 1935

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے

دوشیزگان صبح نے چہرے چھپا لیے


ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئینے

ہر حادثے کی یاد سمجھ کے سجا لیے


میزان عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف

اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے


دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے


لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول

پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے


ہر مرحلہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر

ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لیے


سبط علی صبا 


احمد علی برقی اعظمی

 بیاد مولانا ابوالکلام آزاد

تاریخ ولادت 11 نومبر 1888

تاریخ وفات : 22 فروری 1958


شخصیت آزاد کی تھی مرجع اہل نظر

ان کو حاصل تھا جہاں میں عز و جاہ و کر وفر


ہے " غبار خاطر " ان کے فکر و فن کی ترجمان

ان کے رشحات قلم ہیں مظہر علم و ہنر


ان کی عظمت کے نشاں ہیں " الہلال " و " البلاغ "

جس میں ہیں اردو صحافت کے سبھی لعل و گہر


"ترجمان القرآں " ہے ان کی بصیرت کی گواہ

ان کی اردو فارسی عربی پہ تھی گہری نظر


شخصیت پر ان کی ہے اقبال کا صادق یہ قول

ہوتے ہیں پیدا بڑی مشکل سے ایسے دیدہ ور


ان کی تقریروں سے عصری آگہی ہے ہمکنار

ان کی تحریریں ہیں اک آٸینہ نقد و نظر


اس صدی کی تھے وہ برقی شخصیت تاریخ ساز

ان کا فن آٸینہ ایام میں ہے جلوہ گر


احمد علی برقی اعظمی


غضنفر غضنی

 دونوں ہی آج رنج و الم سے نکل گ


ئے

دونوں کے زخم بھرگئے دونوں سنبھل گئے


ہوتا تھا خوش میں جن کی ترقی پہ دوستو

وہ لوگ آج میری ترقی سے جل گئے


اک روز تھے عروج پہ جو چاند کی طرح

سورج کی طرح آج وہی لوگ ڈھل گئے


مانا کہ کل تلک وہ مرے دل میں تھے مگر

یہ سچ ہے آج وہ مرے دل سے نکل گئے


کل تک جو میرے ساتھ تھے غضنی وہ اب نہیں

بدلا جو وقت میرا تو سارے بدل گئے


غضنفر غضنی

سرفراز نواز

 یوم پیدائش 10 نومبر 1977


ایک رستے کی کہانی جو سنی پانی سے 

ہم بھی اس بار نہیں بھاگے پریشانی سے 


میری بے جان سی آنکھوں سے ڈھلکتے آنسو 

آئینہ دیکھ رہا ہے بڑی حیرانی سے 


میرے اندر تھے ہزاروں ہی اکیلے مجھ سے 

میں نے اک بھیڑ نکالی اسی ویرانی سے 


مات کھائے ہوئے تم بیٹھے ہو دانائی سے 

جیت ہم لے کے چلے آئے ہیں نادانی سے 


ورنہ مٹی کے گھڑے جیسے بدن ہیں سارے 

معرکے سر ہوئے سب جرأت ایمانی سے 


آئینہ چپکے سے منظر وہ چرا لیتا ہے 

تو سجاتا ہے بدن جب کبھی عریانی سے


سرفراز نواز


عرفان شاہد

 یوم پیدائش 10 نومبر


تمہیں لگا ہے کہ ایسے ہی ہم اداسیوں سے پلٹ گئے ہیں 

ہمارے تو ایک دوجے کو چوم چوم کے ہونٹ پھٹ گئے ہیں


یہ پیڑ پیاسے ہیں کب تلک ایسے چھاؤں کو بانٹتے رہے گے

تجھے خبر آۓ گی کسی دن کہ راستے سے ہی ہٹ گئے ہیں


خدا کی اس کائنات میں کچھ بھی دسترس میں نہیں رہا ہے

تجھے گنوا کے تولگ رہا ہے مجھے مرے ہاتھ کٹ گئے ہیں


کسی کی خوشبو کا اک خلا ہے جو آج تک پر نہیں ہوا ہے 

 نجانے کتنوں سے ہم ملے کتنوں کے گلے سے لپٹ گئے ہیں


یقین مانو کہ کوئی بھی ٹھیک سے نہیں سانس لے رہا ہے

 کہ ہم کبھی بس دو لوگ تھے اور تین حصوں میں بٹ گئے ہیں

 

عرفان شاہد


فیاض علی فیاض

 یوم پیدائش 10 نومبر 1952


گر پیار سے روکا تو ٹھہر جائے گی خوشبو

ورنہ تیرے کوچے سے گزر جائے گی خوشبو


اس واسطے پھرتی ہے تعاقب میں تمہارے

چھولے گی جو تم کو تو نکھر جائے گی خوشبو


ظالم تجھے اس بات کا احساس نہیں ہے

پھولوں کو جو مسلے گا تو مر جائے گی خوشبو


پھولوں کا لہو جب کبھی صحرا میں بہے گا

تپتے ہوئے صحرا میں بکھر جائے گی خوشبو


قاصد تو بنا لیتا میں خوشبو کو بھی لیکن

جا کر در جاناں پہ ٹھہر جائے گی خوشبو


مل جائے اگر اس کو کوئی نور کا پیکر کر

پل بھر میں خلاؤں سے گزر جائے گی خوشبو


چاہت کی تمنا میں ہے وہ کب سے سفر میں

لگتا ہے کہ تھک ہار کے گھر جائے گی خوشبو


رہتا ہوں اسی فکر میں فیاض پریشان

بچھڑوں گا جب اس سے تو کدھر جائے گے خوشبو


فیاض علی فیاض


نور پاتوری

 یوم پیدائش 10 نومبر 1949


ناکامیوں کی بھیڑ میں ایسا مجھے لگا

اب تک مرے نصیب کا سورج نہیں اگا


ہے قوم کو ضرورت انوار آگہی

ہر آنکھ محو خواب ہے آواز دے چکا


پردہ پڑا ہے عقل پہ طاری ہے بے حسی

یہ کاہلانہ پن کا مرض ہے اسے بھگا


ہر ایک کو ہے فکر فقط اپنی ذات کی

یاری نہ دوستی ہے نہ اپنا کوئی سگا


اے نور سادگی کا زمانہ کہاں رہا

یاروں نے رشتہ داروں نے دھوکا دیا ٹھگا


نور پاتوری 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...