یوم پیدائش 01 جنوری 1936
خزاں کا زرد لبادہ اتار دے یارب
مرے چمن کو لباسِ بہار دے یارب
تو میرے فقر کو ایسا وقار دے یارب
کہ شاہ تاج ادب سے اتار دے یارب
جہاں سے جاتی ہو غارِ حرا کی پگ ڈنڈی
نگاہ ِ شوق کو وہ رہ گذار دے یارب۔
میں کب تک اڑتا رہوں نیلگوں فضاؤن میں
مجھے کھجوروں کے بن میں اتار دے یارب
پھوار بن کے میں گر جاؤں سبز گنبد پر
مجھے حضور کے صدقے اتار دے یارب
مری جبیں پہ سجا اپنی سجدہ گاہ کی دھول
مرے وجود کا چہرہ نکھار دے یارب
اذانِ صبح کے نغمے سے کھول آنکھ مری
فسونِ شب مرے سر سے اتار دے یارب
میں اپنی ذات کے آئینے میں تجھے دیکھوں
مجھے وہی نگہِ اعتبار دے یارب
ترے عذاب سے ڈر کر نہ ہو تری طاعت
تو ڈر سے بڑھ کے مجھے اپنا پیار دے یارب
رہوں میں در پہ ترے تو نگاہ رکھ مجھ پر
ہٹوں جو دور تو فورا پکار دے یارب
فریبِ نفس کے زندان میں کب سے ہوں محبوس
فصیلیں توڑ کے راہِ فرار دے یارب
میں آج تک تو رہا اپنے دل کے قابو میں
اب اپنے دل پہ مجھے اختیار دے یارب
ہوس کو خلعتِ شاہی سے زیب و زینت بخش
جنوں کو پیرہنِ تار تار دے یارب
تاج الدین اشعر رامنگری