Urdu Deccan

Sunday, January 2, 2022

زین العابدین شرر

 یوم پیدائش 01 جنوری 1973


پھرے سب ہے اپنی ضرورت اٹھائے

مری پیاس کی کون شدت اٹھائے


اٹھایا ہے کس کو یہاں بزدلی نے

اٹھے گا وہی جو ہے ہمت اٹھائے


ہوئے ہاتھ پیلے امیری کے، غربت 

کھڑی رہ گئی اپنی سیرت اٹھائے


حسیں لگ رہی ہے نگاہوں کو کتنی

زمیں لالہ و گل کی رنگت اٹھائے


زین العابدین شرر


اسلم دہلوی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1942


خندہ زن مجھ پہ نہ ہو اے مری تدبیر ابھی

وہ جو چاہے تو بدل سکتی ہے تقدیر ابھی


ناوک انداز ستم تجھکو بھلاؤں کیسے

میرے سینے میں ہے پیوست ترا تیر ابھی


دست وحشت کو نہ روکا تو یقیں ہے مجھ کو

اور الجھے گی تری زلف گرہ گیر ابھی


اس کو قدرت نے عطا کی ہے کمال وسعت

تونے سمجھی ہی نہیں عشق کی توقیر ابھی


وہ گرفتار محبت ابھی آتا ہوگا

نوحہ گر ہوتی چلی آئیگی زنجیر ابھی


دل ابھی پوری طرح مائل فریاد نہیں

دل پہ کچھ اور ستم حسن ستم گیر ابھی


تجھ سے ملنا تری چاہت کا سبب کیا معنی

نقش ہے دل پہ ترے ظلم کی تصویر ابھی


اور محروم تمنا رہوں کب تک کہیئے

میرا ہی خواب ہے کیوں تشنہء تعبیر ابھی


اپنے شانوں پہ یہ زلفیں نہ بکھیرو ورنہ 

یہ ہی رسوائی کی ہو جائیں گی تشہیر ابھی


اے مری جان غزل روح سخن حسن خیال

نامکمل ہے مرے عشق کی تفسیر ابھی


ایک مدت سے ہے مشتاق نگاہی پہ زوال

کار گر ہو نہیں پائی کوئی تدبیر ابھی


اسلم دہلوی


جگر بریلوی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1890


تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں

اب مجھے زندگی کی آس نہیں 


کشمکش میں نہ روح پڑ جائے

یوں تو مرنے کا کچھ ہراس نہیں 


لالہ و گل بجھا سکیں جس کو

عشق کی پیاس ایسی پیاس نہیں 


عمر سی عمر ہو گئی برباد

دل ناداں عبث اداس نہیں 


سانس لینے میں درد ہوتا ہے

اب ہوا زندگی کی راس نہیں 


راہ میں اپنی خاک ہونے دے

اور کچھ میری التماس نہیں 


کیا بتاؤں مآل شوق جگرؔ

آہ قائم مرے حواس نہیں


جگر بریلوی


شارق میرٹھی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1920


ترے بغیر ہے اب یہ مری خوشی اے دوست

خوشی ملے نہ مجھے عمر بھر کبھی اے دوست


ترا خیال تھا مقصود زندگی اپنا

تری طلب تھی اندھیرے میں روشنی اے دوست


اب اس کے بعد کسے آرزو ہے جینے کی

تری نگاہ کرم تک تھی زندگی اے دوست


تری جدائی میں اکثر یہ سوچتا ہوں میں

نہ جانے کیسے کٹے گی یہ زندگی اے دوست


جو تجھ کو ڈھونڈھنا چاہا تو کیا گناہ کیا

تری تلاش کوئی جرم تو نہ تھی اے دوست


ہنسا بھی ہوں میں بہت اس حیات فانی میں

اب آئے گی نہ لبوں پر کبھی ہنسی اے دوست


بڑا ستم ہے ملے تجھ سے تیرے شارقؔ کو

ترے جمال سے محروم زندگی اے دوست


شارق میرٹھی


جعفر شیرازی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1920


عکس جا بہ جا اپنی ذات کے گراتا ہے

کون آسمانوں سے آئنے گراتا ہے


میں نے روپ دھارا ہے اس کی روح کا اور وہ

میرے نقش ہی میرے سامنے گراتا ہے


عمر بھر اٹھائے گا دکھ مرے بکھرنے کا

آنکھ کی بلندی سے کیوں مجھے گراتا ہے


شعلۂ محبت اور آب اشک اے ناداں

روشنی کو دریا میں کس لئے گراتا ہے


وہ ہوا کا جھونکا بھی میرا سخت دشمن ہے

شاخ سے جو پتے کو زور سے گراتا ہے


جذب کر نہ لے جعفرؔ سوچ لہر کی تجھ کو

تو کہاں سمندر میں کنکرے گراتا ہے


جعفر شیرازی


انور انصاری

 یوم پیدائش 01 جنوری 1953


دیار غیر مری جائے رزق ہے انور

وطن کی سمت مرا خاندان کھینچتا ہے


انور انصاری


تاج الدین اشعر رامنگری

 یوم پیدائش 01 جنوری 1936


خزاں کا زرد لبادہ اتار دے یارب

مرے چمن کو لباسِ بہار دے یارب


تو میرے فقر کو ایسا وقار دے یارب

کہ شاہ تاج ادب سے اتار دے یارب 


جہاں سے جاتی ہو غارِ حرا کی پگ ڈنڈی

نگاہ ِ شوق کو وہ رہ گذار دے یارب۔


 میں کب تک اڑتا رہوں نیلگوں فضاؤن میں

 مجھے کھجوروں کے بن میں اتار دے یارب

 

پھوار بن کے میں گر جاؤں سبز گنبد پر

مجھے حضور کے صدقے اتار دے یارب


مری جبیں پہ سجا اپنی سجدہ گاہ کی دھول

مرے وجود کا چہرہ نکھار دے یارب


اذانِ صبح کے نغمے سے کھول آنکھ مری 

فسونِ شب مرے سر سے اتار دے یارب


میں اپنی ذات کے آئینے میں تجھے دیکھوں

مجھے وہی نگہِ اعتبار دے یارب


ترے عذاب سے ڈر کر نہ ہو تری طاعت

تو ڈر سے بڑھ کے مجھے اپنا پیار دے یارب


رہوں میں در پہ ترے تو نگاہ رکھ مجھ پر

ہٹوں جو دور تو فورا پکار دے یارب


 فریبِ نفس کے زندان میں کب سے ہوں محبوس

فصیلیں توڑ کے راہِ فرار دے یارب


میں آج تک تو رہا اپنے دل کے قابو میں

اب اپنے دل پہ مجھے اختیار دے یارب


ہوس کو خلعتِ شاہی سے زیب و زینت بخش

جنوں کو پیرہنِ تار تار دے یارب 


تاج الدین اشعر رامنگری


صابر ادیب

 یوم پیدائش 01 جنوری 1939


تجھے تلاش ہے جس کی گزر گیا کب کا

مرے وجود میں وہ شخص مر گیا کب کا


جو مجھ میں رہ کے مجھے آئینہ دکھاتا تھا

مرے بدن سے وہ چہرہ اتر گیا کب کا


طلسم ٹوٹ گیا شب کا میں بھی گھر کو چلوں

رکا تھا جس کے لیے وہ بھی گھر گیا کب کا


تجھے جو فیصلہ دینا ہے دے بھی مصنف وقت

وہ مجھ پہ سارے ہی الزام دھر گیا کب کا


نہ جانے کون سا پل ٹوٹ کر بکھر جائے

ہمارے صبر کا کشکول بھر گیا کب کا


صابر ادیب


شمشاد حشمت شاد

 یوم پیدائش 01 جنوری 1990


اب کہاں چین سے سونے بھی دیا جاتا ہے 

خواب میں آ کے میرا خون کیا جاتا ہے 


اس لیے عدل کی امید نہیں ہے مجھ کو 

جھوٹ کو سچ کے مقابل میں لیا جاتا ہے


وہ تو خوش ہونگے مگر حال یہاں ہے ایسا 

غم بھلانے کے لیے جام پیا جاتا ہے 


چارہ گر سے بھی کرو اب نہ توقع "شمشاد 

اب دواؤں کی جگہ زہر دیا جاتا ہے 


شمشاد حشمت شاد


رفیق عثمانی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1957


جان کا دشمن ہی میری جان بن کے رہ گیا 

ایک کافر اب مرا ایمان بن کے رہ گیا 


دیکھ کر اس کو زمانہ یاد کرتا ہے مجھے 

وہ زمانے میں مری, پہچان بن کے رہ گیا 


ہر کوئی پڑھتا ہے مجھ کو پر سمجھتا کون ہے 

میں تو گویا میر کا , دیوان بن کے رہ گیا 


اب کسی شیطان کی جگ میں ضرورت کیا رہی 

آج کا انسان خود , شیطان بن کے رہ گیا 


بلبلاتی پھر رہی ہیں, حسرتیں آزار سے 

دل یہ میرا حشر کا , میدان بن کے رہ گیا 


وہ تو کب کا جا چکا لیکن خیال اس کا رفیق 

خانۂ دل میں حسیں, مہمان بن کے رہ گیا 


رفیق عثمانی 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...