Urdu Deccan

Saturday, January 22, 2022

اختر مادھو پوری

 یوم پیدائش 18 جنوری 1929


شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا

سانحہ کیا یہ مقدر کا نرالا نہ ہوا


ہے فقط نام کو آزادئ اظہار خیال

ورنہ کب کس کے لبوں پر یہاں تالا نہ ہوا


ٹوٹتے شیشے کو دیکھا ہے زمانے بھر نے

دل کے ٹکڑوں کا کوئی دیکھنے والا نہ ہوا


جس نے پرکھا انہیں وہ تھی کوئی بے جان مشین

دل کے زخموں کا بشر دیکھنے والا نہ ہوا


کس قدر یاس زدہ ہے یہ حصار ظلمت

دل جلائے بھی تو ہر سمت اجالا نہ ہوا


دشت غربت کے سفر کی یہ اذیت ناکی

خشک تلووں کا ابھی ایک بھی چھالا نہ ہوا


ضبط کا حد سے گزر جانا یہی ہے اخترؔ

دل سلگتا ہے مگر ہونٹوں پہ نالہ نہ ہوا


اختر مادھو پوری


شاہد فیروز

 یوم پیدائش 17جنوری


فریبِ ضو میں ہمیں کس نے لا اچھالا ہے

سجھائی کچھ نہیں دیتا کہاں اجالا ہے


وگرنہ کون تھا جو تیری پرورش کرتا

خدائے فکر تجھے میں نے ہی تو پالا ہے


تماشا دیکھتی آنکھوں ! سلامتی پاؤ

تمھارے شوق سے کرتب مرا نرالا ہے


میں اپنے کرب کو سہلا رہا ہوں مدت سے

یہ میری راکھ پہ سر رکھ کے سونے والا ہے


ترے حصار میں آ کر بدل گیا ہوں میں

مرا وجود بھی اب روشنی کا ہالہ ہے


مرے لیے ہے وہی میرا حکمِ کن شاہد

حصارِ وقت سے جو لمحہ بھی نکالا ہے


شاہد فیروز


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں بیاد ہردلعزیز سخنور و ممتاز نغمہ نگار ابراہیم اشک مرحوم

تاریخ وفات : 16 جنورٕی 2022


ہو گٸے دنیاسے رخصت آج ابراہیم اشک

اردو دنیا کے لٸے ہے روح فرسا یہ خبر


ان کی غزلوں سے عیاں ہے زندگی کا سوز و ساز

فلمی نغمے بھی ہیں ان کے سب کے منظور نظر


ان کو تھا دوھہ نگاری میں بھی حاصل امتیاز

ان کی نظمیں بھی ہیں اک آٸینہ نقد و نظر


" آگہی " ہے نام جس مجموعہ اشعار کا

ندرت فکر و نظر ہے اس میں ان کی جلوہ گر


ان کے ہے " الہام " سے ظاہر شعور فکر و فن

اک ادیب و شاعر و فنکار تھے وہ نامور


گلشن اردو میں ان کی ذات تھی مثل بہار

ان کی اردو شاعری ہے جس کا اک شیریں ثمر


ان کے سینے میں دھڑکتا تھا دل درد آشنا

گردش حالات پر بھی ان کی تھی گہری نظر


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کےبلند

عہد حاضر کے تھے برقی وہ سخنور معتبر


احمد علی برقی اعظمی


فوزیہ اختر شیخیوروی

 یوم پیدائش 17 جنوری


مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے

زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے


سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے

ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے


مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے

ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے


سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا

میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے


یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن

کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے


میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں

تمہارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے


کسی ہمدرد کا کاندھا میسر فوزیہ کو ہو

تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے


فوزیہ اختر شیخپوروی 


ابراہیم اشک

 یوم وفات 16 جنوری 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


ہر لمحہ زخم یار ہو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو

پھر دل کی ہر دھڑکن سنو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


نکلے کوئی مہتاب تو، پہلو میں آفتاب ہو

یوں جشن زندگی کرو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


ساقی مرے شراب لا، پینا ہے بے حساب لا

رندوں کا آج رقص ہو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


تیری نگاہ ناز ہو، میرے بھی دل کا ساز ہو

پھر عشق نغمہ باز ہو،تازہ بہ تازہ نو بہ نو


کیا بزم حسن یار ہے،موسم بھی لالہ زار ہے

دو بھر کے مجھ کو جام دو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


اپنا شریک غم وہی،دیتا ہے جو ہردم خوشی

لائے پیام یار جو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


دل یہ بہت بےآس ہے،ہونٹوں پہ گہری پیاس ہے

ابر کرم ہو آج تو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


بھٹکے ہووے ہو کس لیے،ہم عصر میرے شاعرو

میری طرح غزلیں کہو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


ہر اک صدی کے نام ہو، کوئی نرالا کام ہو

ایسے کتاب دل لکھو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


کیا حسن گلاندام ہے، جیسے چھلکتا جام ہے

اس پر خدا کی مہر ہو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


ابراہیم اشک


عارف اعظمی

 پیدائش:01 جنوری 1951


چمن والو حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی 

گلوں کے دل پہ جو بیتی وہ سمجھائی نہیں جاتی

 

چمن کا حسن بالآخر گلوں کی آبرو ٹھہرا 

یہ عزت شاہ راہ عام پہ لائی نہیں جاتی

 

غم دوراں کی الجھن ہو کہ وحشت ہو محبت کی 

شکستہ دل کی حالت بر زباں لائی نہیں جاتی

 

ارے کم ظرف مے نوشی کا یہ کوئی سلیقہ ہے 

سر محفل مئے گل رنگ چھلکائی نہیں جاتی

 

سجا دیتا ہوں خوابوں کے در و دیوار پہ اس کو 

وہ اک شے جو کسی صورت سے اپنائی نہیں جاتی

 

نہ پوچھو کیا نگاہ ناز نے دل پر اثر چھوڑا 

غزل کے شعر میں تاثیر وہ لائی نہیں جاتی

 

ہجوم شہر ہو عارفؔ کہ اپنے گھر کی خلوت ہو 

نہیں جاتی مگر اپنی یہ تنہائی نہیں جاتی 


عارف اعظمی


شمیم انور

 یوم پیدائش01 جنوری 1948


اپنا سایہ دیکھ کر میں بے تحاشہ ڈر گیا 

ہو بہ ہو ویسا لگا جو میرے ہاتھوں مر گیا

 

ہلکے سے حسن تبسم کا بھی اندازہ ہوا 

بوجھ سارے دن کا لے کر جب میں اپنے گھر گیا

 

پھل لدے اس پیڑ پر پھر پڑ گیا پہرہ کڑا 

پتیوں کو چومتا جب سن سے اک پتھر گیا


کچھ مکینوں میں عجب تبدیلیاں پائی گئیں 

اس بڑی بلڈنگ میں جب کچھ روز وہ رہ کر گیا


تیلیوں کی سخت جانی اور مری جد و جہد 

پھر کہاں پرواز کی خواہش رہے جب پر گیا


اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں 

پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا وہ لے کر گیا


شمیم انور 


انور محمد انور

 یوم پیدائش 16 جنوری


یہ جو سندر شباب بکتے ہیں

درحقیقت عذاب بکتے ہیں


جادو ٹونا بھی اک تجارت ہے

جس میں سارے سراب بکتے ہیں 


پیسے والے خرید لیتے ہیں

پر غریبوں کے خواب بکتے ہیں


حسن ہی جڑ ہے اس مصیبت کی

اس لیئے تو گلاب بکتے ہیں 


تم خریدار تو بنو انور

جسم تو بے حساب بکتے ہیں


انور محمد انور


محمد نعمت اللہ

 یوم پیدائش 16 جنوری 1986


بے جا سوال کرنے کی زحمت نہ کیجیے

اور مضمحل ہماری طبیعت نہ کیجیے


سلجھی ہیں کو ششوں سے مری الجھی گتھیاں

انسان ہوں جناب میں حیرت نہ کیجیے


مقتول کے خلاف سبھی کر کے فیصلے

 پامال اپنی عزت و عظمت نہ کیجیے

 

 جو کچھ ملا ہے رب کا کریں شکر یہ ادا

 حد سے زیادہ پانے کی حسرت نہ کیجیے

 

اک التجا ہے آپ سے اے وقت کے امیر

خالی کسی غریب کو رخصت نہ کیجیے


 پہلے جناب کیجیے اپنا محاسبہ

 نعمت کو ورنہ آپ نصیحت نہ کیجیے 

 

محمد نعمت اللہ


گویا جہان آبادی

 یوم پیدائش 16 جنوری 1892


عشق خود اپنے ہی نظاروں میں حیراں نکلا

اُن کے پردےمیں بھی در پردہ غمِ جان نکلا


 کتناسامانِ جنوں بے سروساماں نکلا

  چاک دامن نہ ہوا تھا کہ گر یباں نکلا

  

کس کا مشتاق تھا یارب وہ لہو کا قطرہ

جو تڑپتا ہوا نزدیکِ رگ جاں نکلا


 راہِ ساحل نظر آئی نہ جہاں ظلمت میں

  غیب سے ایک ستارا سرِ مژگاں نکلا

  

  آنکھ یہ بارہا سمجھی کہ بہار آئی ہے

    اشکِ رنگیں کا تبسم بھی گلستاں نکلا

    

  اِس لطافت کی کوئی حد بھی ہے اللہ اللہ

    موجِ ہر گل میں کوئی حُسن خراماں نکلا

    

  ماسویٰ کا تو فسانہ غم ساحل میں کہاں

    اپنی ہستی ہر اکِ اشک گریزاں نکلا

    

  شکر کے معنٰی سمجھ جنت احساس نہ پوچھ

    اشک خوب آنکھ سے فردوسِ بداماں نکلا

    

  انجم و مہرومہ و شعلہ و پروانہ و دل

    پی کے میخانے سے جو نکلا و رقصاں نکلا

    

   گویا جہان آبادی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...