Urdu Deccan

Saturday, January 22, 2022

مولانا ظفر علی خان

 یوم پیدائش 19 جنوری 1873


وہ مسلمان کہاں اگلے زمانے والے

گردنیں قیصر و کسریٰ کی جھکانے والے


امتیاز ابیض و اسود کا مٹانے والے

سبق انسان کو اخوّت کا پڑھانے والے


بات کیا تھی کہ نہ روما سے نہ ایران سے دیے

چند بے تربیت اونٹوں کے چرانے والے


بھید وہ کیا تھا جو آپس میں ملے تھے نہ کبھی

ہوگئے مشرق و مغرب کو ملانے والے


جن کو کا فور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکا

بن گئے خاک کو اکسیر بنانے والے


پیشوائی کو نکل آئی خدائی ساری

گھر سے نکلے جو محمدؐ کے گھرانے والے


 غم و خمخانہ بھی ہے مہر و نشاں بھی ہے وہی

  نہیں ملتے ہیں مگر خم کے لنڈھانے والے

  

 وہی نیسان ہے گہر ریز ابھی تک لیکن

  نظر آتے نہیں گوہر کے لٹانے والے

  

 کیا سکھاتے ہیں تمدن کی حقیقت ہم کو

  آج قرآن کی دولت کو چرانے والے

  

 فیض کس کا ہے یہ اس پر بھی کبھی غور کریں

  اپنی تہذیب کا افسانہ سنانے والے

  

 بادشاہی میں فقیری کا چلن رکھتے ہیں

  دوش پر بار امانت کا اٹھانے والے

  

 نہ دبے ہیں کبھی باطل سے نہ دب سکتے ہیں

  گردن اللہ کے رستے میں کٹانے والے

  

آشنا ذوق اسیری سے ہو میری مانند

شعر کہنے ہوں اگر وجد میں لانے والے


مولانا ظفر علی خان


مولانا ظفر علی خان

 یوم پیدائش 19 جنوری 1873


کچھ اس کی بھی خبر ہے تجھ کو اے مسلم کہ آپہنچی

وہ ساعت جو نہ بھولے سے بھی لے گی نام ٹلنے کا


بھڑک اٹھی وہ آگ اسلام نے جس کی خبر دی تھی

کیا ہے کفر نے ساماں ترے خرمن کے جلنے کا


جمی ہیں پپڑیاں تیرے غبار آلودہ ہونٹوں پر

تماشا دیکھ لے حسرت سے زمزم کے ابلنے کا


تجھے تہذیب مغرب سبز باغ اپنا دکھاتی ہے

یہ ساماں ہو رہا ہے تیری نیت کے پھسلنے کا


ترا اخراج قسطنطنیہ سے شائد نشاں ہوگا

امام مہدی برحق کے میداں میں نکلنے کا


اگر قرآں کے وعدے سچ ہیں اور شک نہیں سچ میں

تو وقت آہی گیا ہے کفر کے سورج کے ڈھلنے کا


رسول اللہ خود گرتے ہوؤں کو تھام لیتے ہیں

تجھے اے بے خبر ہر وقت موقع ہے سنبھلنے کا


خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا


مولانا ظفر علی خان 


فیض الامین فیض

 یوم پیدائش 18 جنوری 


قدرت کا سرسبز بچھونا اچھا لگتا ہے 

کھلی فضا میں گھاس پہ سونا اچھا لگتا ہے 


شام ڈھلے جب شاخ پہ چڑیاں نغمے گاتی ہیں 

مجھ کو تیرے ساتھ میں ہونا اچھا لگتا ہے 


ہر ایک چیز جو اپنی جگہ پر سجی سجائی ہو 

خود ہی گھر کا کونا کونا اچھا لگتا ہے 


تم کیا جانو رہ رہ کیسے پاتے ہیں منزل 

تم کو تو بس خواب سلونا اچھا لگتا ہے 


میرے گاؤں کے لوگ بھی کتنے بھولے بھالے ہیں 

آج بھی ان کو جادو ٹونا اچھا لگتا ہے


فیض الامین فیض


عائشہ ایوب

 یوم پیدائش 18 جنوری 1983


اگر وہ خود ہی بچھڑ جانے کی دعا کرے گا 

تو اس سے بڑھ کے مرے ساتھ کوئی کیا کرے گا 


سنا ہے آج وہ مرہم پہ چوٹ رکھے گا 

مجھی سے مجھ کو بھلانے کا مشورہ کرے گا 


ترس رہی ہیں یہ آنکھیں اس ایک منظر کو 

جہاں سے لوٹ کے آنے کا دکھ ہوا کرے گا 


اگر یہ پھول ہے میری بلا سے مرجھائے 

اگر یہ زخم ہے مالک اسے ہرا کرے گا 


میں جانتی ہوں کہ جتنا خفا بھی ہو جائے 

وہ میرے شہر میں آیا تو رابطہ کرے گا 


میں اس سے اور محبت سے پیش آؤں گی 

جو میرے حق میں کوئی عائشہؔ برا کرے گا 


عائشہ ایوب


تبسم صدیقی

 یوم پیدائش 18 جنوری 1964


یہ جو ہم اختلاف کرتے ہیں 

آپ کا اعتراف کرتے ہیں 


آؤ دھوتے ہیں دل کے داغوں کو 

آؤ آئینے صاف کرتے ہیں 


تم کو خوش دیکھنے کی خاطر ہم 

بات اپنے خلاف کرتے ہیں 


مجرم عشق تو بھی ہے اے دوست 

جا تجھے ہم معاف کرتے ہیں 


لفظ کے گھاؤ ہوں تو کیسے بھریں 

لفظ گہرا شگاف کرتے ہیں


تبسم صدیقی


قمر الدین صدیقی برتر

 یوم پیدائش 18 جنوری 1935

(نظم) بچے اسکول سے آرہے ہیں


بچے اسکول سے آرہے ہیں

بچے معصوم روشن ستارے

حسن گھر کا ہیں آنگن کی رونق

 خوش فضا یہ وطن کے نظارے


 ان سے روشن رہے گا زمانہ

 ان میں وہ علم کی روشنی ہے

 ان سے انسانیت ہی بڑھے گی

 ان میں وہ پیار کی زندگی ہے


 یہ ہیں پاکیزہ جذبوں کا گلشن

 یہ محبت ہیں اور یہ وفا ہیں

 ان پہ قرآں کی آیات واری

 ان پہ انجیل گیتا فدا ہیں


اُف یہ کیسا دھماکہ ہوا ہے

بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے ہیں

جیسے قرآں کے بکھرے ہوں اوراق

جیسے انجیل گیتا پھٹے ہیں


اے دھماکوں کے بانی، تو سن لے 

یہ عمل وحشیانہ قدم ہے

اپنے رب کو دکھائے گا کیا منہ

نا پسند ارب کو تیرا ستم ہے


کوئی مذہب یہ کہتا نہیں ہے

بے گناہوں کو مارو ، مٹائو

مذہبوں کی تو تلقین یہ ہے

علم کی روشنی سب میں لائو


علم کی گرمی لے کر بڑھیں ہم

تبجہالت کا کہرا چھٹے گا

پھر بُری سوچ ہوگی نہ کوئی

تب عمل وحشیانہ ہٹے گا


قمر الدین صدیقی برتر 


اختر مادھو پوری

 یوم پیدائش 18 جنوری 1929


شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا

سانحہ کیا یہ مقدر کا نرالا نہ ہوا


ہے فقط نام کو آزادئ اظہار خیال

ورنہ کب کس کے لبوں پر یہاں تالا نہ ہوا


ٹوٹتے شیشے کو دیکھا ہے زمانے بھر نے

دل کے ٹکڑوں کا کوئی دیکھنے والا نہ ہوا


جس نے پرکھا انہیں وہ تھی کوئی بے جان مشین

دل کے زخموں کا بشر دیکھنے والا نہ ہوا


کس قدر یاس زدہ ہے یہ حصار ظلمت

دل جلائے بھی تو ہر سمت اجالا نہ ہوا


دشت غربت کے سفر کی یہ اذیت ناکی

خشک تلووں کا ابھی ایک بھی چھالا نہ ہوا


ضبط کا حد سے گزر جانا یہی ہے اخترؔ

دل سلگتا ہے مگر ہونٹوں پہ نالہ نہ ہوا


اختر مادھو پوری


شاہد فیروز

 یوم پیدائش 17جنوری


فریبِ ضو میں ہمیں کس نے لا اچھالا ہے

سجھائی کچھ نہیں دیتا کہاں اجالا ہے


وگرنہ کون تھا جو تیری پرورش کرتا

خدائے فکر تجھے میں نے ہی تو پالا ہے


تماشا دیکھتی آنکھوں ! سلامتی پاؤ

تمھارے شوق سے کرتب مرا نرالا ہے


میں اپنے کرب کو سہلا رہا ہوں مدت سے

یہ میری راکھ پہ سر رکھ کے سونے والا ہے


ترے حصار میں آ کر بدل گیا ہوں میں

مرا وجود بھی اب روشنی کا ہالہ ہے


مرے لیے ہے وہی میرا حکمِ کن شاہد

حصارِ وقت سے جو لمحہ بھی نکالا ہے


شاہد فیروز


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں بیاد ہردلعزیز سخنور و ممتاز نغمہ نگار ابراہیم اشک مرحوم

تاریخ وفات : 16 جنورٕی 2022


ہو گٸے دنیاسے رخصت آج ابراہیم اشک

اردو دنیا کے لٸے ہے روح فرسا یہ خبر


ان کی غزلوں سے عیاں ہے زندگی کا سوز و ساز

فلمی نغمے بھی ہیں ان کے سب کے منظور نظر


ان کو تھا دوھہ نگاری میں بھی حاصل امتیاز

ان کی نظمیں بھی ہیں اک آٸینہ نقد و نظر


" آگہی " ہے نام جس مجموعہ اشعار کا

ندرت فکر و نظر ہے اس میں ان کی جلوہ گر


ان کے ہے " الہام " سے ظاہر شعور فکر و فن

اک ادیب و شاعر و فنکار تھے وہ نامور


گلشن اردو میں ان کی ذات تھی مثل بہار

ان کی اردو شاعری ہے جس کا اک شیریں ثمر


ان کے سینے میں دھڑکتا تھا دل درد آشنا

گردش حالات پر بھی ان کی تھی گہری نظر


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کےبلند

عہد حاضر کے تھے برقی وہ سخنور معتبر


احمد علی برقی اعظمی


فوزیہ اختر شیخیوروی

 یوم پیدائش 17 جنوری


مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے

زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے


سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے

ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے


مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے

ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے


سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا

میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے


یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن

کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے


میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں

تمہارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے


کسی ہمدرد کا کاندھا میسر فوزیہ کو ہو

تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے


فوزیہ اختر شیخپوروی 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...