یوم پیدائش 21 جنوری 1965
وا ہوئے زندگی کی تلخی سے
درد کے کتنے باب آنکھوں میں
عمران ابن عرشی
یوم پیدائش 21 جنوری 1964
سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا
کہ عمر بھر کے لیے کس کو گھر نصیب ہوا
وہ ایک چہرہ جو برسوں رہا ہے آنکھوں میں
کب اس کو دیکھنا بھی آنکھ بھر نصیب ہوا
تمام عمر گزاری اسی کے کاندھے پر
جو ایک لمحہ ہمیں مختصر نصیب ہوا
ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ اور نم آنکھیں
ہمیں بس اتنا ہی زاد سفر نصیب ہوا
ہوا کے رخ سے پر امید تھا بہت گلشن
پر اب کے بھی شجر بے ثمر نصیب ہوا
بلندیوں کی ہوس میں جو سب کو چھوڑ گئے
کب ان پرندوں کو اپنا شجر نصیب ہوا
لبوں سے نکلیں ادھر اور ادھر قبول ہوئیں
کہاں دعاؤں میں ایسا اثر نصیب ہوا
ادھر چھپائیں تو کھل جائیں دوسری جانب
لباس زیست ذرا مختصر نصیب ہوا
سلیمؔ چاروں طرف تیرگی کے جال گھنے
پہ ہم کو نیشتر بے ضرر نصیب ہوا
سلیم سرفراز
یوم پیدائش 21 جنوری 1944
آپ کا حسیں چہرہ جب بھی یاد آیا ہے
ذہن کے دریچے سے چاند مسکرایا ہے
دل کشی کو میں کیسے آپ سے الگ سمجھوں
چاندنی حقیقت میں چاند ہی کا سایا ہے
ٹھیک ہی تو کہتے ہیں پھر بہار آئی ہے
درد دل کا مہکا ہے، زخم مسکرایا ہے
بے خودی سی طاری ہے، کیا خبر زمانے کو
ساز کس نے چھیڑا ہے، گیت کس نے گایا ہے
تنگ آکے خلوت سے، انتہائے الفت میں
درد کے فرشتوں سے شہرِ دل بسایا ہے
زندگی عبارت ہے اشک سے، تبسم سے
ہر کسی نے کھویا ہے، ہر کسی نے پایا ہے
میری آرزوؤں کا دل نہ توڑیئے مغموم
میں نے ہر تمنا کو خونِ دل پلا یا ہے
باغیش مغموم کلکتوی
یوم پیدائش 21 جنوری 1948
یوم وفات 07 مئی 2021
خلاصہ ہے گلوں کی داستاں کا
رہا قبضہ بہاروں پر خزاں کا
مخالف سمت رہبر چل رہے ہیں
خدا حافظ ہمارے کارواں کا
ہمارے سر پہ جو سایہ فگن ہے
یہ بادل ہے تعصب کے دھواں کا
وہ شعلوں کی زبانیں بولتا ہے
دہانہ ہے کسی آتش فشاں کا
ذرا سوچو یہ کیسا فاصلہ ہے
ہمارے اور تمھارے درمیاں کا
اڑا کر لے گئیں دشمن ہوائیں
ہر اک تنکا ہمارے آشیاں کا
شرافت حسین
یوم پیدائش 20 جنوری 1948
کوئی مشکل ہو خود ہوتی آساں نہیں
درد کیسے مٹے گر ہو درماں نہیں
ہوتے مومن کبھی بھی ہراساں نہیں
جن میں جرات نہیں ان میں ایماں نہیں
اہلِ ہمت کریں جب بھی عزمِ عمل
کون سی مشکلیں ہیں جو آساں نہیں
خاربھی لازمی ہیں گلابوں کے ساتھ
خارجس میں نہیں وہ گلستاں نہیں
ظلم کرتے ہو تم ظلم سہتے ہیں ہم
تم بھی انساں نہیں ہم بھی انساں نہیں
اِن پہ تنقید سب مل کے کھل کر کرو
میرے اشعار آیاتِ قرآں نہیں
فن کے گہنوں سے جس کو سجایا گیا
کم دلھن سے حسیں میرا دیواں نہیں
جانور دیکھ کر آج لگتا ہے یوں
یا ہم انساں نہیں یا یہ حیواں نہیں
عادل فاروقی
تاریخ پیدائش:20جنوری 1964
چاند کو دیکھ کے جب درد سوا ہوتا ہے
قطرۂ اشک بھی اک حرفِ دعا ہوتا ہے
صبح دم وہ بھی چلا آتا ہے اٹھلاتا ہوا
جس پہ احسان ترا بادِ صبا ہوتا ہے
دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے جگر زخم بھرا
شکریہ ان کا کہاں مجھ سے ادا ہوتا ہے
جس پہ گزری ہو وہی جانتا ہے اس کا مزہ
ہجر کی زیست کا ہر لمحہ سزا ہوتا ہے
چاندنی رات ہو ، گلزار ہو ، تنہائی ہو
پھر غزل چھیڑ کے دیکھے کوئی کیا ہوتا ہے
پھر منڈیروں سے اتر آتے ہیں پنچھی سارے
جب صنم دل کا ہر اک زخم ہرا ہوتا ہے
تسنیم صنم
یوم پیدائش 19 جنوری 1938
مرا یقیں، نہ کہیں میرا وہم ہو جائے
کبھی تو خواب کی تعبیر لے کے تو آئے
ترے جہان کی وسعت ترے خیال سے ہے
وہی خیال ہر اک دل میں کاش در آئے
نمود صبح کی، تقدیر شب تو ہے لیکن
مرا خیال گہن میں کہیں نہ آ جائے
یہ راستہ ہے لہو کا، قدم قدم پہ کہیں
چلو چلو کی سدا سن کے دل نہ گھبرائے
یہ ڈر، یہ خط، یہ تشویش کی فصیلیں ہیں
خدا کا قہر بھی اس شہر میں اتر آئے
بشیر آروی
یوم پیدائش 19 جنوری
کارِ جنوں میں خود کو نہ خود کی خبر ملے
دستِ طلب کو اپنا ہی شوریدہ سر ملے
رُخ آسماں کا لرزہ بر اندام کیوں نہ ہو
نوکِ سناں پہ جب کوئی پاکیزہ سر ملے
آئے نظر شفق پہ پرندے شکستہ حال
وہ چاہتے ہیں اب انھیں زارِ شجر ملے
مجھ کو ہے زندگی سے زیادہ قضا عزیز
”یا رب مری دعا کو نہ بابِ اثر ملے“
قیصر کو ابتغائے محبت سے کیا غرض
حسرت ہے اس کے دل میں کہ سوزِ جگر ملے
محمد امتیاز قیصر
یوم پیدائش 19 جنوری 1949
اب شام زندگی کا اندھیرا بھی ہو چلا
جو ہوں اسیر گردش حالات کیا کروں
(جلال الدین خاں نظر گیاوی)
شاعر حیدر بیابانی ادب اطفال کے اہم ستون آج بتاریخ 19/01/2022 اچلپور میں انتقال کر گئے
انا الیہ وانا الیہ راجعون
نہ دولت کام آئے گی نہ طاقت کام آئے گی
شرافت ہے کھرا سکہ شرافت کام آئے گی
نہ دیکھیں ہم بھری آنکھوں سے اپنے ہاتھ کے چھالے
کریں محنت مرے بھائی کہ محنت کام آئے گی
رہیں جس حال میں لیکن چلیں ہم راستہ سیدھا
یہی اپنی روش روز قیامت کام آئے گی
بڑھیں آگے ستارے چاند، سورج راہ تکتے ہیں
کسی بھی چیز کو پانے میں محنت کام آئے گی
سہج رکھیں اگر گھر میں پڑی ہیں فالتو چیزیں
ہے ہر شئے کام کی وقت ضرورت کام آئے گی
کریں گے علم حاصل چاہے ہم کو چین جانا ہو
نبی فرماگئے بے شک یہ دولت کام آئے گی
جہاں دیدہ بزرگوں سے بصیرت پاؤ حیدر جی
بصیرت جس میں ہو ایسی بصارت کام آئے گی
حیدر بیابانی
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...