Urdu Deccan

Saturday, January 22, 2022

عمران ابن عرشی

 یوم پیدائش 21 جنوری 1965


وا ہوئے زندگی کی تلخی سے

درد کے کتنے باب آنکھوں میں


عمران ابن عرشی


سلیم سرفراز

 یوم پیدائش 21 جنوری 1964


سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا 

کہ عمر بھر کے لیے کس کو گھر نصیب ہوا 


وہ ایک چہرہ جو برسوں رہا ہے آنکھوں میں 

کب اس کو دیکھنا بھی آنکھ بھر نصیب ہوا 


تمام عمر گزاری اسی کے کاندھے پر 

جو ایک لمحہ ہمیں مختصر نصیب ہوا 


ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ اور نم آنکھیں 

ہمیں بس اتنا ہی زاد سفر نصیب ہوا 


ہوا کے رخ سے پر امید تھا بہت گلشن 

پر اب کے بھی شجر بے ثمر نصیب ہوا 


بلندیوں کی ہوس میں جو سب کو چھوڑ گئے 

کب ان پرندوں کو اپنا شجر نصیب ہوا 


لبوں سے نکلیں ادھر اور ادھر قبول ہوئیں 

کہاں دعاؤں میں ایسا اثر نصیب ہوا 


ادھر چھپائیں تو کھل جائیں دوسری جانب 

لباس زیست ذرا مختصر نصیب ہوا 


سلیمؔ چاروں طرف تیرگی کے جال گھنے 

پہ ہم کو نیشتر بے ضرر نصیب ہوا 


سلیم سرفراز


باغیش مغموم کلکتوی

 یوم پیدائش 21 جنوری 1944


آپ کا حسیں چہرہ جب بھی یاد آیا ہے

ذہن کے دریچے سے چاند مسکرایا ہے


دل کشی کو میں کیسے آپ سے الگ سمجھوں

چاندنی حقیقت میں چاند ہی کا سایا ہے


ٹھیک ہی تو کہتے ہیں پھر بہار آئی ہے

درد دل کا مہکا ہے، زخم مسکرایا ہے


بے خودی سی طاری ہے، کیا خبر زمانے کو

ساز کس نے چھیڑا ہے، گیت کس نے گایا ہے


تنگ آکے خلوت سے، انتہائے الفت میں

درد کے فرشتوں سے شہرِ دل بسایا ہے


زندگی عبارت ہے اشک سے، تبسم سے

ہر کسی نے کھویا ہے، ہر کسی نے پایا ہے


میری آرزوؤں کا دل نہ توڑیئے مغموم

میں نے ہر تمنا کو خونِ دل پلا یا ہے


باغیش مغموم کلکتوی


شرافت حسین

 یوم پیدائش 21 جنوری 1948

یوم وفات 07 مئی 2021


خلاصہ ہے گلوں کی داستاں کا

 رہا قبضہ بہاروں پر خزاں کا


مخالف سمت رہبر چل رہے ہیں

خدا حافظ ہمارے کارواں کا


ہمارے سر پہ جو سایہ فگن ہے

 یہ بادل ہے تعصب کے دھواں کا


وہ شعلوں کی زبانیں بولتا ہے

دہانہ ہے کسی آتش فشاں کا


ذرا سوچو یہ کیسا فاصلہ ہے

 ہمارے اور تمھارے درمیاں کا


اڑا کر لے گئیں دشمن ہوائیں 

ہر اک تنکا ہمارے آشیاں کا


شرافت حسین


عادل فاروقی

 یوم پیدائش 20 جنوری 1948

                                               

کوئی مشکل ہو خود ہوتی آساں نہیں

درد کیسے مٹے گر ہو درماں نہیں


ہوتے مومن کبھی بھی ہراساں نہیں

جن میں جرات نہیں ان میں ایماں نہیں


اہلِ ہمت کریں جب بھی عزمِ عمل

کون سی مشکلیں ہیں جو آساں نہیں


خاربھی لازمی ہیں گلابوں کے ساتھ

خارجس میں نہیں وہ گلستاں نہیں


ظلم کرتے ہو تم ظلم سہتے ہیں ہم

تم بھی انساں نہیں ہم بھی انساں نہیں


اِن پہ تنقید سب مل کے کھل کر کرو

میرے اشعار آیاتِ قرآں نہیں


فن کے گہنوں سے جس کو سجایا گیا

کم دلھن سے حسیں میرا دیواں نہیں


جانور دیکھ کر آج لگتا ہے یوں

یا ہم انساں نہیں یا یہ حیواں نہیں


عادل فاروقی


تسنیم صنم

 تاریخ پیدائش:20جنوری 1964


چاند کو دیکھ کے جب درد سوا ہوتا ہے

قطرۂ اشک بھی اک حرفِ دعا ہوتا ہے


صبح دم وہ بھی چلا آتا ہے اٹھلاتا ہوا

جس پہ احسان ترا بادِ صبا ہوتا ہے


دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے جگر زخم بھرا

شکریہ ان کا کہاں مجھ سے ادا ہوتا ہے


جس پہ گزری ہو وہی جانتا ہے اس کا مزہ

ہجر کی زیست کا ہر لمحہ سزا ہوتا ہے


چاندنی رات ہو ، گلزار ہو ، تنہائی ہو

پھر غزل چھیڑ کے دیکھے کوئی کیا ہوتا ہے


پھر منڈیروں سے اتر آتے ہیں پنچھی سارے

جب صنم دل کا ہر اک زخم ہرا ہوتا ہے


تسنیم صنم


بشیر آروی

 یوم پیدائش 19 جنوری 1938


مرا یقیں، نہ کہیں میرا وہم ہو جائے

کبھی تو خواب کی تعبیر لے کے تو آئے


ترے جہان کی وسعت ترے خیال سے ہے

وہی خیال ہر اک دل میں کاش در آئے


نمود صبح کی، تقدیر شب تو ہے لیکن

مرا خیال گہن میں کہیں نہ آ جائے


یہ راستہ ہے لہو کا، قدم قدم پہ کہیں

چلو چلو کی سدا سن کے دل نہ گھبرائے


یہ ڈر، یہ خط، یہ تشویش کی فصیلیں ہیں

خدا کا قہر بھی اس شہر میں اتر آئے


بشیر آروی


محمد امتیاز قیصر

 یوم پیدائش 19 جنوری


کارِ جنوں میں خود کو نہ خود کی خبر ملے

دستِ طلب کو اپنا ہی شوریدہ سر ملے


رُخ آسماں کا لرزہ بر اندام کیوں نہ ہو

نوکِ سناں پہ جب کوئی پاکیزہ سر ملے


 آئے نظر شفق پہ پرندے شکستہ حال

 وہ چاہتے ہیں اب انھیں زارِ شجر ملے

 

 مجھ کو ہے زندگی سے زیادہ قضا عزیز

 ”یا رب مری دعا کو نہ بابِ اثر ملے“

 

 قیصر کو ابتغائے محبت سے کیا غرض

 حسرت ہے اس کے دل میں کہ سوزِ جگر ملے

 

محمد امتیاز قیصر


جلال الدین خان نظر گیاوی

 یوم پیدائش 19 جنوری 1949

 

 اب شام زندگی کا اندھیرا بھی ہو چلا

 جو ہوں اسیر گردش حالات کیا کروں


(جلال الدین خاں نظر گیاوی)


حیدر بیابانی

 شاعر حیدر بیابانی ادب اطفال کے اہم ستون آج بتاریخ 19/01/2022 اچلپور میں انتقال کر گئے

انا الیہ وانا الیہ راجعون


نہ دولت کام آئے گی نہ طاقت کام آئے گی

شرافت ہے کھرا سکہ شرافت کام آئے گی


نہ دیکھیں ہم بھری آنکھوں سے اپنے ہاتھ کے چھالے

کریں محنت مرے بھائی کہ محنت کام آئے گی


رہیں جس حال میں لیکن چلیں ہم راستہ سیدھا

یہی اپنی روش روز قیامت کام آئے گی


بڑھیں آگے ستارے چاند، سورج راہ تکتے ہیں

کسی بھی چیز کو پانے میں محنت کام آئے گی


سہج رکھیں اگر گھر میں پڑی ہیں فالتو چیزیں

ہے ہر شئے کام کی وقت ضرورت کام آئے گی


کریں گے علم حاصل چاہے ہم کو چین جانا ہو

نبی فرماگئے بے شک یہ دولت کام آئے گی


جہاں دیدہ بزرگوں سے بصیرت پاؤ حیدر جی

بصیرت جس میں ہو ایسی بصارت کام آئے گی


حیدر بیابانی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...