Urdu Deccan

Saturday, January 29, 2022

جوثر ایاغ

 یوم پیدائش 29 جنوری 1964


اجنبی رخ، آئینہ بھی اجنبی

زندگی کا فلسفہ بھی اجنبی


شہر بے معنی ہر اک رشتہ فضول

اس سے میرا رابطہ بھی اجنبی


جانے موسم ایسا کیسے ہو گیا

پہلا بھی تھا دوسرا بھی اجنبی


اجنبیت ہے غضب کا ذائقہ

ہے ہمارا مدعا بھی اجنبی


مختلف ہیں آدمی کے رنگ و بو

منظروں کا سلسلہ بھی اجنبی


سوچنا، لکھنا، ہر اک شب جاگنا

میرا تو ہے راستہ بھی اجنبی


گہری کھائی رات کی پھیلی ایاغ

ہو گیا بوڑھا دیا بھی اجنبی


جوثر ایاغ


نعمان طارق بٹ

 یوم پیدائش 28 جنوری


اس اذیت سے ہے کچھ دیر جڑے رہنا مجھے

آج کی رات کوئی شعر نہیں کہنا مجھے


ہونی پابند نہیں ہوتی کسی جذبے کی

دست بردار کرو، خواہشوں سے کہنا' مجھے! 


راکھ ہوں راکھ مگر جانتا ہوں اصل اپنا

اس لیے دوست کبھی کہنا نہیں گہنا مجھے


غم کوئی بھی ہو مگر بحر وہی ہے مخصوص

ایک رفتار سے ہر رات پڑا بہنا مجھے


نعمان طارق بٹ


دانش علی دانش

 یوم پیدائش 28 جنوری


حقیقتوں سے پرے ، واہمے کو کھینچتا ہے 

مرا دماغ فقط وسوسے کو کھینچتا ہے 


کسی بھی شے کو جہاں میں اکیلے چین نہیں 

ہر ایک جسم کسی دوسرے کو کھینچتا ہے 


میں چاہتا ہوں کہ ٹوٹےنہ پیار کی ڈوری 

سو ڈھیل دیتا ہوں جب وہ سرےکو کھینچتا ہے 


میں بار بار پلٹتا ہوں زندگی کی طرف 

مگر یہ عشق مجھے مارنے کو کھینچتا ہے 


سفر کو چھوڑ کے سب لوگ ، سننے لگتے ہیں 

کسی کا گیت ہر اک قافلے کو کھینچتا ہے 


ہماری بات کہانی کو طول دیتی ہے 

ہمارا ذکر ہر اک واقعے کو کھینچتا ہے 


دانش علی دانش


مہاراج سرکشن پرشاد شاد

 یوم پیدائش 28 جنوری 1864


فنا کہتے ہیں کس کو موت سے پہلے ہی مر جانا

بقا ہے نام کس کا اپنی ہستی سے گزر جانا


جو روکا راہ میں حر نے تو شہہ عباس سے بولے

مرے بھائی نہ غصے میں کہیں حد سے گزر جانا


کہا اہل حرم نے روکے یوں اکبر کے لاشے پر

جواں ہونے کا شاید تم نے رکھا نام مر جانا


بقا میں تھا فنا کا مرتبہ حاصل شہیدوں کو

وہاں اس پر عمل تھا موت سے پہلے ہی مر جانا


نہ لیتے کام گر سبط بنی صبر و تحمل سے

لعینوں کا نگاہ خشم سے آساں تھا مر جانا


دکھائی جنگ میں صورت ادھر جا پہنچے وہ کوثر

یہ اصغر ہی کی تھی رفتار ادھر آنا ادھر جانا


یہاں کا زندہ رہنا موت سے بد تر سمجھتا ہوں

حیات جاوداں ہے کربلا میں جا کے مر جانا


مہاراج


سرکشن پرشاد شاد

خان آرزو سراج الدین علی

یوم وفات 27 جنوری 1756


فلک نے رنج تیر آہ سے میرے زبس کھینچا

لبوں تک دل سے شب نالے کو میں نے نیم رس کھینچا


مرے شوخ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھو

بہار حسن کو دی آب اس نے جب چرس کھینچا


رہا جوش بہار اس فصل گر یوں ہی تو بلبل نے

چمن میں دست گلچیں سے عجب رنج اس برس کھینچا


کہا یوں صاحب محمل نے سن کر سوز مجنوں کا

تکلف کیا جو نالہ بے اثر مثل جرس کھینچا


نزاکت رشتہ الفت کی دیکھو سانس دشمن کی

خبردار آرزوؔ ٹک گرم کر تار نفس کھینچا


خاں آرزو سراج الدین علی


Thursday, January 27, 2022

اسنی بدر

 یوم پیدائش 26 جنوری 196


 نظم وہ کیسی عورتیں تھیں 


جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں 

جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں 

سحر سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں 

بھری دوپہر میں سر اپنا جو ڈھک کر ملنے آتی تھیں 

جو پنکھے ہاتھ کے جھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں 

جو دروازے پہ رک کر دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں 

پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں 

بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں 

اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں 

جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں 

سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں 

بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصے بناتی تھیں 

جو کلمے کاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں 

دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلاتی تھیں 

اور اپنی جا نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں 

کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلاتی تھیں 

پڑوسن مانگ لے کچھ با خوشی دیتی دلاتی تھیں 

جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں 

محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں 

کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں 

کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں 


وہ کیسی عورتیں تھیں 


میں جب گھر اپنے جاتی ہوں تو فرصت کے زمانوں میں 

انہیں ہی ڈھونڈھتی پھرتی ہوں گلیوں اور مکانوں میں 

کسی میلاد میں جزدان میں تسبیح دانوں میں 

کسی بر‌ آمدے کے طاق پر باورچی خانوں میں 

مگر اپنا زمانہ ساتھ لے کر کھو گئی ہیں وہ 

کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ 


اسنی بدر


جعفر بلوچ

 یوم پیدائش 27 جنوری 1947


خزاں کے دوش پہ ہے فصل گل کا رخت ابھی

کہ برگ و بار سے خالی ہے ہر درخت ابھی


ابھی غموں سے عبارت ہے سر نوشت بشر

کہ آسمان پرے ہے زمین سخت ابھی


سمجھ شعاع بریدہ نہ صرف جگنو کو

کرن کرن کا جگر ہوگا لخت لخت ابھی


متاع جاں بھی اسے پیش کر چکا ہوں میں

مرے رقیب کا لہجہ ہے کیوں کرخت ابھی


تمام رات رہا مے کدہ نشیں جعفرؔ 

گیا ہے اٹھ کے یہاں سے وہ نیک بخت ابھی


جعفر بلوچ


افتخار عابد

 یوم پیدائش 26 جنوری 1972


دیتا ہے اس طرح بھی مری تشنگی کی داد 

حسرت سے دیکھتا ہے سمندر مری طرف


افتخار عابد


فرمان فتح پوری

 یوم پیدائش 26 جنوری 1926


چاہت کے پرندے دل ویران میں آئے

صیاد کسی صید کے ارمان میں آئے


وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہونا

اترے میرے گھر میں کبھی دالان میں آۓ


سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج

پگھلائے مجھے برف کی دکان میں آئے


سایہ ہے تو گزرے کسی دیوار کو چھو کر

ہے دھوپ تو اونچان سے ڈھلوان میں آئے


نغمہ ہے تو پھوٹے کبھی ساز رگ جاں سے

آواز کوئی ہے تو مرے کان میں آئے


ہے جسم تو بن جائے مری روح کا مسکن

ہے جان تو پھر اس تن بے جان میں آئے


ساحل ہے تو نظارہ کی دعوت بھی نظر کو

ہے موج بلاخیز تو طوفان میں آئے


امرت ہے تو چمکے لب لعلیں سے کسی کے

ہے زہر تو بازار سے سامان میں آئے


غنچہ ہے تو کھل جائے مرے دل کی صدا پر

خوشبو ہے تو زخموں کے گلستان میں آئے


فرمانؔ وہ جس آن میں جس رنگ میں چاہے

آۓ مگر اتنا ہو کہ پہچان میں آئے


فرمان فتح پوری


زاہد کلیم

 یوم پیدائش 26 جنوری 1954


ذلت کے درپہ خم سرِ تسلیم ہو گئے

تم رنگ و نسل و خون میں تقسیم ہوگئے


زاہد کلیم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...