Urdu Deccan

Tuesday, February 8, 2022

خادم رزمی

 یوم پیدائش 02 فروری 1932


آن پہنچے ہیں یہ کہاں ہم لوگ

اب زمیں ہیں نہ آسماں ہم لوگ


کل یقیں بانٹتے تھے اوروں میں

اب ہیں خود سے بھی بد گماں ہم لوگ


کن ہواؤں کی زد میں آئے ہیں

ہو گئے ہیں دھواں دھواں ہم لوگ


چپ تو پہلے بھی جھیلتے تھے مگر

اس قدر کب تھے بے زباں ہم لوگ


کب میسر کوئی کنارہ ہو

کب سمیٹیں گے بادباں ہم لوگ


بن گئے راکھ اب نجانے کیوں

تھے کبھی شعلۂ تپاں ہم لوگ


ہم کو جانا تھا کس طرف رزمیؔ

اور کس سمت ہیں رواں ہم لوگ


خادم رزمی


فیاض وردک

 یوم پیدائش02 فروری 1970


سلسلہ در سلسلہ ہے درد کی زنجیر کا

کس سے پوچھوں کیا ہے منشا کاتبِ تقدیر کا


بے نوا ہونے لگے الفاظ میرے شہر میں

مٹ رہا ہے رفتہ رفتہ نقش ہر تحریر کا


لوگ کچھ معصوم سے مارے گئے اس شہر میں

کرنا ہوگا قاتلوں کو سامنا تعزیر کا


زندگی برباد ہو کر موت کا ساماں ہوئی

جانے کب ٹوٹے گا حلقہ درد کی زنجیر کا


میں نے اپنے دل کا خوں فیاض کرڈالا مگر

ختم ہوتا ہی نہیں ہے کھیل یہ تقدیر کا


فیاض وردک


زمن

 یوم پیدائش 02 فروری 1986


وفا کی روشنی ہے اور چاہت کا اجالا ہے

ہمارا دل یہ جان من محبت کا شیوالا ہے


تمہارا حسن شیشے سا یہاں سب لوگ پتھر کے

میرے پہلو میں آ جاؤ یہ گلشن پھولوں والا ہے


کسی سے درد کا شکوہ گلہ بھی کر نہیں سکتے

بڑے ہی ناز سے خود ہم نے ہی یہ روگ پالا ہے


جمال و حسن پر اپنے کبھی مغرور مت ہونا

یہ رنگت اڑنے والی ہے یہ بادل چھٹنے والا ہے


یقیں مانوں اندھیرے کی طرف ہی بڑھ رہا ہے وہ

جو دعویٰ کر رہا ہے یہ اسی کا بس اُجالا ہے


میرے غم کی تو یوں شدت بیانی ہو نہیں سکتی

میرے غم کے لیے یہ شاعری کچھ کم حوالہ ہے


تمہارے شہر میں چاہت بہت بدنام ہے جاناں

ہمارے گاؤں میں تو عشق اب بھی قیس والا ہے


زمن


اختر علیم سید

 یوم پیدائش 02 فروری 1952


کمالِ شوق یہی ہے تو با کمال ہیں ہم

ملے بغیر بھی آسودہءِ وصال ہیں ہم


رعایتیں ہمیں حاصل تھیں پیش دستی کی

اسے یقین تھا شائشتہِ جمال ہیں ہم


ہمیں نے ظلمتِ شب سے سحر تراشی ہے

ہمیں مثال بناؤ کہ بے مثال ہیں ہم


وہ جانتے ہیں جو علمِ شناخت رکھتے ہیں

ہمارے جیسے ہزاروں ہیں خال خال ہیں ہم


ستم تو یہ ہے کہ اپنی کبھی سنی ہی نہیں

خود آپ اپنے لئے جان کا وبال ہیں ہم


کچھ اس طرح ہمیں سلجھا رہا ہے وہ اختر

کہ جیسے الجھا ہوا سا کوئی سوال ہیں ہم


اختر علیم سید


ہاشم نعمانی

 یوم پیدائش 02 فروری 1964


آنکھوں کو جب دریا ہونا پڑتا ہے

سورج کو بھی ٹھنڈا ہونا پڑتا ہے

مر کر بھی تو چین کی نیند نصیب نہیں

قبر کے اندر زندہ ہونا پڑتا ہے 


تمہارے ذکر سے جنبش ہوئی ان آنکھوں کو 

میں وہ مریض ہوں جسکو غزل سنائی گئی 


ہاشم نعمانی


اسلم عارفی

 یوم پیدائش 02 فروری 1978


مرنے کے بعد تو کوئی نام و نشان ہو

پھرتا ہوں اس خیال سے کتبہ اُٹھا کے میں


اسلم عارفی


خلیق الزماں نصرت

 یوم پیدائش 02 فروری 1952


سرخیاں پڑھ کے ان اخباروں کی ڈر لگتا ہے

سارا عالم کسی بارود کا گھر لگتا ہے


بیٹھ جائیں گی یہ دیواریں کسی بھی لمحہ

اپنے گھر میں بھی تو رہتے ہوئے ڈر لگتا ہے


اپنے ہمسائے کے حالات ہیں اپنے جیسے

اپنے ہی گھر کی طرح ان کا بھی گھر لگتا ہے


آج بھی ہاتھ کی ریکھا کو مقدر سمجھیں

بلیاں کاٹ لیں رستے کو تو ڈر لگتا ہے


بول کے سچ ہی عدالت میں ہوئی رسوائی

اب تو سچ یہ ہے ہمیں سچ سے بھی ڈر لگتا ہے


خلیق الزماں نصرت


ڈاکٹر یونس خیال

 یوم پیدائش 02 فروری


دھوپ سے رشتہ ہے لیکن سائبانوں کی طرح

ہم زمیں پر بھی رہے تو آسمانوں کی طرح


تب سے اس کی دشمنی پر اعتبار آنے لگا

مشورے دیتا ہے جب سے مہربانوں کی طرح


رات بھر عرض تمنا، صبح کو فکر معاش

ہر گھڑی گزری ہے مجھ پر امتحانوں کی طرح


مے کدہ، ساقی ، صراحی اور ساغر آج بھی

یاد آتے ہیں مگر گزرے زمانوں کی طرح


موت صحرا میں چمکتے پانیوں کا سلسلہ

زندگی برسات میں کچے مکانوں کی طرح


ڈاکٹر یونس خیال


لطف الرحمن

 یوم پیدائش 02 فروری 1941


میں دور ہو کے بھی اس سے کبھی جدا نہ ہوا

کہ اس کے بعد کسی کا بھی آشنا نہ ہوا


تمام عمر مرا مجھ سے اختلاف رہا

گلہ نہ کر جو کبھی تیرا ہم نوا نہ ہوا


وہ جاتے جاتے دلاسے بھی دے گیا کیا کیا

یہ اور بات کہ پھر اس سے رابطہ نہ ہوا


ہزار شکر سلامت ہے میرا سر اب بھی

ہزار دشمن جاں سے بھی دوستانہ ہوا


ذرا سی چوٹ پہ جھنکار گونج اٹھتی ہے

کہ ساز ٹوٹ گیا پھر بھی بے صدا نہ ہوا


کچھ اتنا سہل نہیں تھا ضمیر کا سودا

بلا سے میں کبھی اہل قبا ہوا نہ ہوا


عجب ہے یادوں کی بہتی ہوئی یہ خشک ندی

لہو کو آنکھ سے ٹپکے ہوئے زمانہ ہوا


لطف الرحمن


اقبال متین

 یوم پیدائش 02 فروری 1929


برق ملتی ہے نہ تنکوں کو شرر ملتا ہے

دل کو برسات میں بے برگ شجر ملتا ہے


اس کی گرمئ سخن راس نہ آئی اس کو

اب وہ ملتا ہے تو کیا خاک بسر ملتا ہے


صرف جینے کی ہوس ساتھ رہے تو شاید

عمر کے ساتھ ہر اک گام پہ در ملتا ہے


چار دیواری سے شاید نہیں کچھ اس کو مفر

گھر کے باہر وہ بہ انداز دگر ملتا ہے


میں اسے بھول کے زندہ رہوں ممکن ہے مگر

مجھ کو ہر موڑ پہ اس شخص کا گھر ملتا ہے


جس کے کاسے میں انا ہے کوئی تخلیق نہیں

اس کو ہر لفظ میں اک کاسۂ سر ملتا ہے


درد کے ساتھ جڑا ہوتا ہے تخلیق کا کرب

کچھ سوا مجھ کو بہ ہنگام ہنر ملتا ہے


اب شہادت سر منبر ہی سہی عام ہوئی

اب دعاؤں کو کہاں باب اثر ملتا ہے


کل جہاں لاش پڑی تھی کوئی اقبال متینؔ

آج بھی کون وہاں خون میں تر ملتا ہے


اقبال متین


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...