Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

شعور آشنا

 یوم پیدائش 12 فروری 1967


تھی جیسی آرزو ہمیں ویسا نہیں ملا

ایسا نہیں کہ چاہنے والا نہیں ملا


شامل ہے اپنا خون چمن کی بہار میں

شاید ایسی لئے ہمیں حصہ نہیں ملا


فرقہ پرست سوچ ملی ہم جدھر گئے

مر مٹنے والا ملک میں جذبہ نہیں ملا


حیوانیت نے شہر میں خیمے لگا لئے

انسانیت نواز قبیلہ نہیں ملا


بے چہرہ وادیوں میں بھٹکنے کے جرم میں

اب تک مری حیات کو رستہ نہیں ملا


الفاظ بد حواس تھے معنیٰ کی پیاس سے

صحرا نورد ذہن کو دریا نہیں ملا


کھلتی نہیں کلی کہیں اخلاق کی شعور 

اب کوئی پھول بھی ہمیں ہنستا نہیں ملا


شعور آشنا


مرید عباس خاور

 یوم پیدائش 12 فروری 1963


ضو فشاں ہے میری قسمت کا نشاں 

ساتھ میرے ہے صف چارہ گراں 


 آتش وآب کا اسرار ہے یہ 

 چشم ودل میں تو نہیں ربط عیاں

  

 وہ کثافت ہے ہوس کی اب تو 

 عشق پر بھی ہے برائی کا گماں 

  

 ایک جیسا ہے رویہ سب کا 

 ایک جیسے ہیں عدو و یاراں

  

 حرص کی آگ میں جلتا تھا بہت

 اب ہے سور ج میرا لیکن ایماں

  

 کتنا محکم ہے زمیں پر شر ہی 

 خیر آئی نہیں مدت سے یہاں 

 

 خاور اس امن کے عرصے کی کہو 

 جو ہے چوپال کا رسمی عنواں 

 

 مرید عباس خاور


صابرہ خاتون حنا

 یوم پیدائش 12 فروری 1974


جب تری یاد ساتھ چلتی ہے

زندگی راہ میں بہلتی ہے


کاش تم ہوتے میرے پہلو میں

ہجر کی رات آنکھ ملتی ہے


تجھ کو احساس تو ہوا آخر

میرے سائے میں زیست پلتی ہے


تجھ سے مل کر سکوں نہیں ملتا

دکھ کی پرچھائیں ساتھ چلتی ہے


پھر تجھے اپنے پاس میں دیکھوں

اس تمنا میں رات ڈھلتی ہے


رات تک تھا جہاں مرا مسکن

صبح دیکھا تو آگ جلتی ہے


اے حناؔ تیری میٹھی باتوں سے

”نغمگی سی فضا میں ڈھلتی ہے“


صابرہ خاتون حنا


سر فراز سید

 یوم پیدائش 12 فروری


مال و متاع کوچہ و بازار بک گئے 

عہد ہوس میں سب در و دیوار بک گئے 


قصر شہی میں جبہ و دستار بک گئے 

نیلام گھر میں قافلہ سالار بک گئے 


جنس وفا کے چاؤ میں آئے تھے صبح دم 

بولی لگی تو خود بھی خریدار بک گئے 


شب بھر رہی فضا میں وفاداریوں کی گونج 

سورج چڑھا تو سارے وفادار بک گئے 


وہ زور تھا گرانیٔ جنس ہنر کا آج 

میں خود بھی بک گیا مرے افکار بک گئے 


ہوش و حواس قلب و نظر سجدہ و قیام 

اے عشق تیرے سارے ہی غم خوار بک گئے


سرفراز سید


حکیم محمد اجمل خاں شیدا

 یوم پیدائش 12 فروری 1868


درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی


ہوگی جب نالوں کی اپنے زیر گردوں بازگشت

میرے درد دل کی شہرت جا بجا ہو جائے گی


کوئے جاناں میں اسے ہے سجدہ ریزی کا جو شوق

میری پیشانی رہین نقش پا ہو جائے گی


کاکل پیچاں ہٹا کر رخ سے آؤ سامنے

پردہ دار حسن محفل میں ضیا ہو جائے گی


جب یہ سمجھوں گا کہ میری زیست ہے ممنون مرگ

موت میری زندگی کا آسرا ہو جائے گی 


انتظار وصل کرنا عمر بھر ممکن تو ہے

گو نہیں معلوم حالت کیا سے کیا ہو جائے گی


محتسب اور ہم ہیں دونوں متفق اس باب میں

برملا جو مے کشی ہو بے ریا ہو جائے گی


میں ابھی سے جان دے دوں گا جو راہ عشق میں

انتہا مجنوں کی میری ابتدا ہو جائے گی


فاش راز دل نہیں کرتا مگر یہ ڈر تو ہے

بے خودی میں آہ لب سے آشنا ہو جائے گی


باریاب خواب گاہ ناز ہونے دو اسے

ان کی زلفوں میں پریشاں خود صبا ہو جائے گی


مقصد الفت کو کر لو پہلے شیداؔ دل نشیں

ورنہ ہر آہ و فغاں بے مدعا ہو جائے گی


حکیم محمد اجمل خاں شیدا


اعجاز رحمانی

 یوم پیدائش 12 فروری 1936


اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا

سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا


فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے

خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا


پڑتی ہے تو پڑ جائے شکن اس کی جبیں پر

سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا


ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے

خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے گا


میں سوچ رہا ہوں یہ سر شہر نگاراں

یہ اس کی گلی ہے تو ٹھہرنا ہی پڑے گا


اب شانۂ تدبیر ہے ہاتھوں میں ہمارے

حالات کی زلفوں کو سنورنا ہی پڑے گا


اک عمر سے بے نور ہے یہ محفل ہستی

اعجازؔ کوئی رنگ تو بھرنا ہی پڑے گا


اعجاز رحمانی


انور ضیاء مشتاق

 یوم پیدائش 11 فروری


کیا اسے کرنا تھا جانے اور یہ کیا کر گئی

زندگی ہی زندگی کو کتنا تنہا کر گئی


دھوپ اوڑھے چل رہا تھا اور سفر دشوار تھا

دفعتاً اک یاد مجھ پہ اپنا سایہ کر گئی


کیا مسیحائی تھی تیری اے مسیحا دیکھ لے

زخم جو گہرا تھا اس کو اور گہرا کر گئی


کیا کسی سے ہو شکایت کیا کسی سے ہو گلہ

وہ مری قسمت تھی جو مجھ کو اکیلا کر گئی


انور ضیاء مشتاق


عبد الغفور نساخ

 یوم پیدائش 11 فروری 1834


ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق

پر حقیقت میں جاں فزا ہے عشق 


دیتا ہے لاکھ طرح سے تسکین 

مرض ہجر میں دوا ہے عشق 


تا دم مرگ ساتھ دیتا ہے 

ایک محبوب با وفا ہے عشق 


دیکھ نساخؔ گر نہ ہوتا کفر 

کہتے بے شبہ ہم خدا ہے عشق


عبد الغفور نساخ


مسرور تمنا

 یوم پیدائش 10 فروری 1981


میری نظروں کو لبھاتا ہے نظارا کیا کیا

جذبۂ عشق دکھاتا ہے تماشا کیا کیا


دیکھتے ہیں ابھی ہم اُن کے حسیں چہرے کو

اور دکھلائے گا اُن کا رخِ زیبا کیا کیا


میں نے بس ایک نظر اُن کی طرف ڈالی تھی

اور دنیا نے بنا ڈالا فسانہ کیا کیا


اتنی فرصت ہے کسے دھیان جو دے اُس کی طرف

روز ہوتا ہے مرے شہر میں چرچا کیا کیا


کیا سے کیا ہوگیا قسمت کے خفا ہونے سے

سوچتی میں رہی مسرور تمنا کیا کیا


مسرور تمنا


قیصر امام قیصر

 یوم پیدائش 10 فروری 1962


وہ جفا کرتے رہے اور میں وفا کرتا رہا

وار اُن کا اس لیے اکثر خطا کرتا رہا


مانگتا تھا رات دن رب سے دعا جس کے لیے

وہ ہمیشہ میرے حق میں بدعا کرتا رہا


آندھیوں کی زد میں آکر ہوگیا ظالم فنا

بھائی سے جو بھائی کو ہردم جدا کرتا رہا


دن میں جو سجدے کیا کرتا تھا رب کے سامنے

شب کی تنہائی میں لیکن وہ خطا کرتا رہا


اُس کو جنت کی بشارت خود بخود مل جائے گی

زندگی بھر باپ ماں سے جو وفا کرتا رہا


پیشِ حق دینا پڑے گا ان گناہوں کا حساب

چھپ کے قیصر جن گناہوں کو سدا کرتا رہا


قیصر امام قیصر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...