Urdu Deccan

Tuesday, March 1, 2022

رامز ہاشمی

 یوم پیدائش 01 مارچ


ترے ہونٹوں سے دوپٹے کے سرکنے کی قسم 

دل نے چاہا ہے تجھے دل کے دھڑکنے کی قسم 


رات گزرے ہے سلگتے ہوئے شعلوں پہ کہیں 

تیری بے تاب جوانی کے سلگنے کی قسم 


دل بھی ڈوبے ہی چلا جاتا ہے سورج کی طرح 

دن کے ڈھلنے پہ پرندوں کے تڑپنے کی قسم 


خوشبو سانسوں میں سمائی ہے تری سانسوں کی 

صحن گلشن میں گلابوں کے مہکنے کی قسم 


جھلملاتا ہے ترا عکس مرے اشکوں میں 

چاند راتوں میں چکوری کے مچلنے کی قسم 


چین پڑتا ہی نہیں تیرے سوا دم بھر کو 

تیری چاہت کے رگ و پے میں اترنے کی قسم 


دن گزرتا ہی نہیں رات ٹھہر جاتی ہے 

دور پردیس میں رامزؔ کے سسکنے کی قسم


رامز ہاشمی


سلیمان خمار

 یوم پیدائش 01 مارچ 1944


دکھ بھری شاموں کو خوشیوں کی سحر کرتا ہوا

آ گیا سورج وہؐ اندھیاروں کو سر کرتا ہوا


ساری باطل قوتوں کو بے اثر کرتا ہوا

نور احمدؐ تھا ہر اک کے دل میں گھر کرتا ہوا


انؐ کی اک اک بات گرہیں کھولتی تھی ذہن کی

ایک اک جملہ تھا انؐ کا دل میں گھر کرتا ہوا


میرے آقاؐ نے دیا ہے آبیاری کا ہنر

بانجھ ہوتی ڈالیوں کو باثمر کرتا ہوا


آپؐ کی آواز سے اونچا نہ ہو لہجہ کوئی

ہے یہ فرمانِ الہی باخبر کرتا ہوا


صحبتِ خیر الوریٰ کا یہ بھی اک اعجاز ہے

دھول کے ذرّوں کو خورشید و قمر کرتا ہوا


آگیا قرآں زمیں پر سارا قسطوں میں خمار

ہر کہا میرے نبیؐ کا معتبر کرتا ہوا


صلی اللہ علیہ وسلم


سلیمان خمار


نغمہ نور

 یوم پیدائش 01 مارچ 1986


کبھی ایسے چلوں کہ آبلہ پائی بھی مسکائے

کبھی ٹھہروں تو پتھریلی زمیں کی آنکھ بھر آئے


کبھی خود کو پڑھوں تو چاند کے لب تھرتھرا جائیں

کبھی کچھ یوں لکھوں کو آسماں کا دل پگھل جائے


کبھی ٹھنڈی ہوائیں آ کے کھیلیں میرے گیسو سے

کبھی خوشبو مری زلفوں میں آکر قید ہوجائے


کبھی ساون بجھائے پیاس اپنی میرے اشکوں سے

کبھی دریا مری آنکھوں میں اترے او رشرمائے


کبھی یوں ہو کہ پتھر کو میں قطرہ قطرہ پی جاؤں

کبھی یوں ہو شرارہ مجھ کو چھوتے ہی پگھل جائے


کبھی رنگین بارش سرخ کردے اوڑھنی میری

کبھی قوسِ قزح کا رنگ چہرے پر بکھر جائے


کبھی مجھ سے ہی آکر تتلیاں میرا پتا پوچھیں

کبھی اک مورنی میرے پروں پر خوب اترائے


کبھی سورج کی کرنیں مانگ میں پھیلا کے کھو جاؤں

کبھی کردوں فضا کو مضطرب وہ آگ برسائے


کبھی ابھرے فصیلِ زندگی پر بن کے سورج وہ

کبھی نغمہؔ شبِ تاریک میں مہتاب بن جائے


نغمہ نور


دانیال احمد


 یوم پیدائش 01 مارچ


گل و گلزار کرتی جا رہی ہے

محبت رخ بدلتی جا رہی ہے


یہ کس کے آنے کا ہے پیش خیمہ

مری دنیا بدلتی جا رہی ہے


کوئی آ کر سبنھالے زندگی کو

مسلسل آہ بھرتی جا رہی ہے


فلک میرا تماشا دیکھتا ہے

زمیں مجھ کو نگلتی جارہی ہے


یقیں مانو ہمیں کھو کر محبت

مسلسل ہاتھ ملتی جا رہی ہے


سخاوت ہو رہی ہے آسماں سے

زمیں کشکول بھرتی جا رہی ہے


مری عمرِ رواں کی ہر گھڑی کو

تری فرقت نگلتی جا رہی ہے


اٹھا رخ سے نقاب اپنا خدایا

نگاہِ دل مچلتی جا رہی ہے


تجھے پہلو میں لانے کی تمنا

مسلسل دل میں پلتی جا رہی ہے


جو میری جان لینے پر تلی تھی 

بلا وہ سر سے ٹلتی جا رہی ہے


ہماری زندگی کی برف احمد

تسلسل سے پگھلتی جارہی ہے


دانیال احمد


شکیل آویز

 یوم پیدائش 01 مارچ


چاہتوں کی عجیب منزل ہے 

عاشقوں کے قریب منزل ہے 


عاجزی ہے جھکے ہیں سجدے میں 

زاہدوں کے نصیب منزل ہے


آشنا وہ میرا نہیں لوٹا

بھول بیٹھا رقیب منزل ہے 


واہ قسمت فقیر کی دیکھو

پا گیا پھر اریب منزل ہے  


مفلسی دیکھ کر سجن دشمن 

ہار بیٹھا غریب منزل ہے


موت دہلیز یار پر پائی 

واہ رے کیا نصیب منزل ہے 


درد آویزؔ ہے یہ دنیا کو 

کیوں ہمارے قریب منزل ہے 


شکیل آویز


مدن موہن دانش

 یوم پیدائش 01 مارچ 1961


اور کیا آخر تجھے اے زندگانی چاہیئے

آرزو کل آگ کی تھی آج پانی چاہیئے


یہ کہاں کی ریت ہے جاگے کوئی سوئے کوئی

رات سب کی ہے تو سب کو نیند آنی چاہیئے


اس کو ہنسنے کے لئے تو اس کو رونے کے لئے

وقت کی جھولی سے سب کو اک کہانی چاہیئے


کیوں ضروری ہے کسی کے پیچھے پیچھے ہم چلیں

جب سفر اپنا ہے تو اپنی روانی چاہیئے


کون پہچانے گا دانشؔ اب تجھے کردار سے

بے مروت وقت کو تازہ نشانی چاہیئے


مدن موہن دانش


رفعت سلطان

 یوم پیدائش 01 مارچ 1924


اگر قدم ترے میکش کا لڑکھڑا جائے

تو شمع میکدہ کی لو بھی تھرتھرا جائے


اب اس مقام پہ لائی ہے زندگی مجھ کو

کہ چاہتا ہوں تجھے بھی بھلا دیا جائے


مجھے بھی یوں تو بڑی آرزو ہے جینے کی

مگر سوال یہ ہے کس طرح جیا جائے


غم حیات سے اتنی بھی ہے کہاں فرصت

کہ تیری یاد میں جی بھر کے رو لیا جائے


انہیں بھی بھول چکا ہوں میں اے غم دوراں

اب اس کے بعد بتا اور کیا کیا جائے


نہ جانے اب یہ مجھے کیوں خیال آتا ہے

کہ اپنے حال پہ بے ساختہ ہنسا جائے


گریز عشق سے لازم سہی مگر رفعتؔ

جو دل ہی بات نہ مانے تو کیا کیا جائے


رفعت سلطان


شاہد ماہلی

 یوم پیدائش 01 مارچ1974


حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا 

گزر گیا ہے مجھے روند کے زمانہ مرا 


سمندروں میں کبھی تشنگی کے صحرا میں 

کہاں کہاں نہ پھرا لے کے آب و دانہ مرا 


تمام شہر سے لڑتا رہا مری خاطر 

مگر اسی نے کبھی حال دل سنا نہ مرا 


جو کچھ دیا بھی تو محرومیوں کا زہر دیا 

وہ سانپ بن کے چھپائے رہا خزانہ مرا 


وہ اور لوگ تھے جو مانگ لے گئے سب کچھ 

یہاں تو شرم تھی دست طلب اٹھا نہ مرا 


مجھے تباہ کیا التفات نے اس کے 

اسے بھی آ نہ سکا راس دوستانہ مرا 


کسے قبول کریں اور کس کو ٹھکرائیں 

انہیں سوالوں میں الجھا ہے تانا بانا مرا 


شاہد ماہلی


نصرت مہدی

 یوم پیدائش 01 مارچ 1970


عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں

اس طرح عیب نکالو نہ مسلسل مجھ میں


زندگی ہے مری ٹھہرا ہوا پانی جیسے

ایک کنکر سے بھی ہو جاتی ہے ہلچل مجھ میں


میں بظاہر تو ہوں اک ذرہ زمیں پر لیکن

اپنے ہونے کا ہے احساس مکمل مجھ میں


آج بھی ہے تری آنکھوں میں تپش صحرا کی

کروٹیں لیتا ہے اب بھی کوئی بادل مجھ میں


جو اندھیروں میں مرے ساتھ چلا بچپن سے

اب وہ تارا بھی کہیں ہو گیا اوجھل مجھ میں


خواہشیں آ کے لپٹ جاتی ہیں سانپوں کی طرح

جب مہکتا ہے تری یاد کا صندل مجھ میں


اب وہ آیا تو بھٹک جائے گا رستہ نصرتؔ

اب گھنا ہو گیا تنہائی کا جنگل مجھ میں


نصرت مہدی


عارف عبدالمتین

 یوم پیدائش 01 مارچ 1923


میں جس کو راہ دکھاؤں وہی ہٹائے مجھے

میں نقش پا ہوں کوئی خاک سے اٹھائے مجھے


مہک اٹھے گی فضا میرے تن کی خوشبو سے

میں عود ہوں کبھی آ کر کوئی جلائے مجھے


چراغ ہوں تو فقط طاق کیوں مقدر ہو

کوئی زمانے کے دریا میں بھی بہائے مجھے


میں مشت خاک ہوں صحرا مری تمنا ہے

ہوائے تیز کسی طور سے اڑائے مجھے


اگر مرا ہے تو اترے کبھی مرے گھر میں

وہ چاند بن کے نہ یوں دور سے لبھائے مجھے


وہ آئینے کی طرح میرے سامنے آئے

مجھے نہیں تو مرا عکس ہی دکھائے مجھے


امنڈتی یادوں کے آشوب سے میں واقف ہوں

خدا کرے کسی صورت وہ بھول جائے مجھے


وفا نگاہ کی طالب ہے امتحاں کی نہیں

وہ میری روح میں جھانکے نہ آزمائے مجھے


عارف عبدالمتین


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...