Urdu Deccan

Wednesday, March 23, 2022

احمد وصال

 یوم پیدائش 06 مارچ 1978


میں اپنے خواب خزینوں سے خوب واقف ہوں

تمہارے ساتھ کے لمحوں سے خوب واقف ہوں


کہاں پہ بھٹکے ہوئے دل کو روک لینا ہے

سرابِ عشق کے رستوں سے خوب واقف ہوں


جہاں پہ درج محبت کی داستانیں ہیں

 غریب لوگوں کی آنکھوں سے خوب واقف ہوں


ہزار مجھ کو دھکیلو گے خودکشی کی طرف

میں زندگی کے طریقوں سے خوب واقف ہوں


خزاں کے وقت میں کرتا ہوں جو شجر کاری

کہ آنے والی بہاروں سے خوب واقف ہوں


اگر وہ ماریں بھی، چھاؤں میں ڈال آئیں گے

برے نہیں ہیں سب اپنوں سے خوب واقف ہوں


وصال بنتے ہیں نشتر، کہاں پہ پھاہے وہ

تمام لفظوں کے لہجوں سے خوب واقف ہوں


احمد وصال


نیر رانی شفق

 یوم پیدائش 06 مارچ 1967


ملن رت کے حسیں سپنے ذرا تعبیر کرتے ہیں

چلو ان چاند تاروں کو یوں ہی تسخیر کرتے ہیں


بنا کر چاند کو کشتی اتر جائیں کنارے پر

بھلا ڈالیں سبھی صدمات جو دلگیر کرتے ہیں


سبھی باتیں سبھی قصے سبھی دکھ بھول کر اپنے

نئے قصے نئی غزلیں کوئی تحریر کرتے ہیں


جو لفظوں اور معانی سے بہت ہے ماورا پیارے

ہے ابجد سے جو آگے وہ وفا تفسیر کرتے ہیں


بہت منہ زور ہیں دیکھو نکل جائیں نہ ہاتھوں سے

چلو اڑتے ہوئے لمحے یہیں زنجیر کرتے ہیں


حسد کی آگ کے شعلے جو بھڑکاتے ہیں اے لوگو

جلاتے ہیں خود اپنی جاں جو یہ تقصیر کرتے ہیں


شکاری نفس بیٹھا ہے بچھا کر جال ہر لمحہ

چلا کر تیر تقوے کے اسے نخچیر کرتے ہیں


سکوت شب نے دکھلائے نئے تارے تمنا کے

انہیں آنگن میں لانے کی کوئی تدبیر کرتے ہیں


روپہلی شام ہو یا ہوں سویرے ارغوانی سے

شفقؔ رنگوں کے سب منظر مجھے تسخیر کرتے ہیں


نیر رانی شفق


صائمہ آفتاب

 یوم پیدائش 06 مارچ 1976


عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ 

کہ دل نے پالا ہوا ہے ہر ایک ذات کا دکھ 


تلاش جنت و دوزخ میں رائیگاں انساں 

زمیں پہ روز مناتا ہے کائنات کا دکھ 


کئی جھمیلوں میں الجھی سی بد مزہ چائے 

اداس میز پہ دفتر کے کاغذات کا دکھ 


تمام دن کی مصیبت تو بانٹ لی ہم نے 

کبھی کہا ہی نہیں اپنی اپنی رات کا دکھ 


گئے دنوں کا کوئی خواب دفن ہے شاید 

کہ اب بھی آنکھ سے رستا ہے باقیات کا دکھ 


امام تشنہ کی اولاد ٹھہری ہوں آخر 

سو مجھ کو یکساں ملا راوی و فرات کا دکھ 


نہ جانے مالک کن کس طرح نبھاتا ہے 

یہ دسترس کی سہولت یہ ممکنات کا دکھ 


صائمہ آفتاب


قاری احمد لکھنوی

 یوم پیدائش 06 مارچ 1938


منزل پہ پہنچنا ہے تو کیوں سوئے ہوئے ہو

اے قافلے والو اٹھو حرکت میں جرس ہے


قاری احمد لکھنوی


غالب عرفان

 یوم پیدائش 05 مارچ 1938


عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے

آئینے کے باہر بھی آس پاس ہم ہی تھے


جب شعور انسانی رابطے کا پیاسا تھا

حرف و صوت علم و فن کی اساس ہم ہی تھے


فاصلوں نے لمحوں کو منتشر کیا تو پھر

اعتبار ہستی کی ایک آس ہم ہی تھے


مقتدر محبت کی شکوہ سنج محفل میں

خامشی کو اپنائے پر سپاس ہم ہی تھے


خواب کو حقیقت کا روپ کوئی کیا دیتا

منعکس تصور کا انعکاس ہم ہی تھے


غالب عرفان


نجمہ محبوب نجمہ

 یوم پیدائش 01 مارچ


جب عشق کا جنون مرے سر میں آگیا

سارا زمانہ پھر میری ٹھوکر میں آگیا


اِس نے تو میری ایک نصیحت نہیں سُنی

نادان دل تھا پیار کے چکّر میں آگیا


پھر اس کے التفات کا موسم بدل گیا

نرمی کا رنگ دھوپ کے تیور میں آگیا


حدّ تکلفات سے گزرا وہ اس طرح

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


دیکھا تھا میں نے اسکو نظر بھر کے اور پھر

طوفان میرے دل کے سمندر میں آگیا


میں جس کو چاہتی تھی وہ مجھ کو نہیں ملا 

جو نا پسند تھا وہ مقدر میں آگیا


نجمہ یہ آسرا بھی بہت ہے مرے لئے

جگنو سا ایک رات کے منظر میں آگیا


نجمہ محبوب نجمہ 


محمد سمیع اللہ

 یوم پیدائش 05 مارچ 1952


میں زمانے کی امانت ہوں بچالو مجھ کو

یارو افلاس کی دلدل سے نکالو مجھ کو


محمد سمیع اللہ


رضی الدین

 یوم پیدائش 05 مارچ


کوئی پوچھے جو ٹال دینا تم

کبھی اِظہارِ حال مت کرنا


رضی الدین


حامد اسد اسلامپوری

 یوم پیدائش 05 مارچ 1960


ہر دور میں جو ذہن کے بیمار رہے ہیں

وہ لوگ اندھیروں کے طرفدار رہے ہیں


جو حق کیلئے بر سرِ پیکار رہے ہیں

گفتار نہیں غازئِ کردار رہے ہیں


پھر آج چراغوں کو ضرورت ہے لہو کی

پھر آج اندھیرے ہمیں للکار رہے ہیں


منصف بنے بیٹھے ہیں وہی آج جو کل تک

قانون کی نظروں میں گنہگار رہے ہیں


کیا کیا نہ ہوئے ظلم وستم ہم پہ مگر ہم

اے ارضِ وطن تیرے وفادار رہے ہیں


دریا کا کنارا ہو کہ موجوں کی روانی

ہم رحمتِ باری کے طلبگار رہے ہیں


 حامد اسلامپوری


قدیم اللہ قریشی

 تاریخِ پیداٸش 5 مارچ 1996


مرا رستہ مری منزل نہیں ہے

کہیں امید کا ساحل نہیں ہے


میں خود دشمن ہوا دل کے سکوں کا

تو میری جان کا قاتل نہیں ہے


تمھارے ہجر میں گن کر ستارے

میں سو تو جاٶں راضی دل نہیں ہے


کنارا کر رہا ہوں خواہشوں سے

تمھاری ذات جب حاصل نہیں ہے


تمھارے حال سے غافل تو ہے دل

تمھاری یاد سے غافل نہیں ہے


قدیم اللہ قریشی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...