Urdu Deccan

Friday, March 25, 2022

سیّد خورشید سہسرامی

یوم پیدائش 16 مارچ 1998

فدائی جو شہ ابرار کے ہیں
وہی اعلیٰ ہوئے افکار کے ہیں

وہ کیسے جائیں گے دوزخ میں دیکھو
ہوئے جو مالک و مختار کے ہیں

کہ ان کی سنتوں کا ہے یہ صدقہ
" عدو قائل مرے ایثار کے ہیں "

کہ وہ مقبول لہجہ ہو گیا ہے
جو عادی سنتِ سرکار کے ہیں

گئے جو عرش سے یوں لامکاں تک
کہ چرچے بس اسی رفتار کے ہیں

زمانہ دیکھ لے اب ان کا رتبہ
مہ و انجم فدا رخسار کے ہیں

جو ہیں;خورشید؛ دنیا میں اجالے
انہیں کے رحمت و انوار کے ہیں

 سیّد خورشید سہسرامی


خورشید افسر بسوانی

 یوم پیدائش 16 مارچ 1941


قطرہ قطرہ تری پلکوں سے اٹھانا چاہوں

ہرطرح پیاس صدف کی میں بجھانا چاہوں


میں اک آنسو جسے پلکوں پہ نہ لانا چاہوں

تو ہے نغمہ تجھے ہونٹوں پہ سجانا چاہوں تو


کئی چہرے ابھر آتے ہیں سیر جادۂ شوق

کوئی اک چہرہ اگر بھول بھی جانا چاہوں


تیرا لہجہ ہی کچھ ایسا ، کہ یقیں آجائے

میں تری باتوں میں ہر چند نہ آنا چاہوں


آہ وہ شخص، اسے دیکھ لیا ہے جب سے

آنکھیں سوتی ہی نہیں لاکھ سلانا چاہوں


میرے ہونٹوں پہ کوئی انگلیاں رکھ دیتا ہے

اب جو سچ بات بھی یاروں کو بتانا چاہوں


وہی انداز پرانا ، وہ جہاں مل جائے

وہی بھولا ہوا افسانہ سنانا چاہوں


میں ہو کہدوں کہ جو تم ہو وہ نہیں ہو، تو ہنسو

روٹ جاؤ جو یہی بات چھپانا چاہوں


روٹھنے لگتی ہیں یہ تازہ ہوا میں افسر

جب بھی گھر کی کوئی دیوار اٹھانا چاہوں


خورشید افسر بسوانی



رفیق احمد نقشؔ

 یوم پیدائش 15 مارچ 1959


ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا

ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا 


تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال

تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا


تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو

بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا


منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب 

کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا


سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں 

بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا


اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در 

شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا


   رفیق احمد نقشؔ


سعادت سعید

 یوم پیدائش 15 مارچ 1949


آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا 

غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا 


کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں 

آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا 


لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر 

عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا 


شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق 

قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا 


دشت فنا میں دیکھا مساوات کا عروج 

اشرف نہیں رہا کوئی اسفل نہیں رہا 


ہے جس کا تخت سجدہ گہہ خاص و عام شہر 

میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا 


جس دم جہاں سے ڈولتی ڈولی ہی اٹھ گئی 

طبل و علم تو کیا کوئی منڈل نہیں رہا


سعادت سعید


ولی رضوی

 یوم پیدائش 15 مارچ 1928


جنوں کا قافلہ بانگِ جرس کی راہ کیوں دیکھے

ہر اک منزل پہ ہم شورِ سلاسل چھوڑ آئے ہیں


ولی رضوی


کنول ضیائی

 یوم پیدائش 15 مارچ 1927


پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے 

وہ شخص صاحب فن بھی ہے کامیاب بھی ہے 


ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں 

ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی ہے 


ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن 

ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب بھی ہے 


کسی غریب کی روٹی پہ اپنا نام نہ لکھ 

کسی غریب کی روٹی میں انقلاب بھی ہے 


مرا سوال کوئی عام سا سوال نہیں 

مرا سوال تری بات کا جواب بھی ہے 


کنول ضیائی



 یوم پیدائش 15 مارچ 1921


دل کو رہین لذت درماں نہ کر سکے 

ہم ان سے بھی شکایت ہجراں نہ کر سکے 


اس طرح پھونک میرا گلستانِ آرزو 

پھر کوئی تیرے بعد اسے ویراں نہ کر سکے 


مہنگی تھی اس قدر ترے جلووں کی روشنی 

ہم اپنی ایک شام فروزاں نہ کر سکے 


بچھڑے رہے تو اور بھی رسوا کریں گے لوگ 

تم بھی علاج گردش دوراں نہ کر سکے 


دل ان کے ہاتھ سے بھی گیا ہم سے بھی گیا 

شاید وہ پاس خاطر مہماں نہ کر سکے 


ان پر بھی آشکار ہو کیوں اپنے دل کا حال 

ہم اس متاع درد کو ارزاں نہ کر سکے 


اعظمؔ ہزار بار لٹے راہ عشق میں 

لیکن کبھی شکایت دوراں نہ کر سکے


اعظم چشتی


شفقت حیات شفق

 یوم پیدائش 15 مارچ


مسافتوں کی حدوں کو چھو کر میں قرب تیرا حصار کرلوں

یہ چند لمحے جو بچ گئے ہیں انہیں میں پھر سے شمار کرلوں


تلاش کرتی رہی ہوں تم کو مجھے تمہاری ہی جستجو تھی

 ملے ہیں اب نقش پا تمہارے میں ان پہ خود کو نثار کرلوں

 

میں صحرا صحرا بھٹک رہی ہوں کہ منزلوں کی خبر نہیں ہے

نشان منزل یہی ہے شاید سفر پہ ہی انحصار کرلوں


نظر سے بس ہوگیا ہے اوجھل وہ میرے خوابوں میں رہنے والا

جہاں بھی ہو گا مرا رہے گا میں خود کو کیوں سوگوار کرلوں


میں کاٹ لوں گی یہ کالی راتیں گزارلوں گی یہ وقت شفقت

جو تم کہو تو تمہاری یادوں میں آج پھر سے سنگھار کرلوں


شفقت حیات شفق


خورشید اقبال

 یوم پیدائش 14 مارچ 1962


ارتقا نے زندگی کو راحتیں بھی کیں عطا

تحفتاً لیکن ہزاروں الجھنیں بھی کیں عطا


خورشید اقبال


ناز پروائی

 یوم پیدائش 14 مارچ 1970


بے چین دل کو اپنے سمجھا بجھا رہی ہے

پردیس میں ہے ساجن آنسو بہا رہی ہے


جیسے کہ اب بھی میرے بچپن کا ہے زمانہ

ماں مجھ کو پیار سے یوں روٹی کھلا رہی ہے


دنیا حسیں ہے لیکن میں دیکھوں اس کو کیسے

تصویر پتلیوں میں بس تیری آ رہی ہے


تنہائیوں میں دل کو آئے گا چین کیسے

جب یاد بے وفا کی ہر پل ستا رہی ہے


اجڑے ہوئے کھنڈر میں مانا نہیں ہے کوئی

رہ رہ کے پھر یہ کیسی آواز آرہی ہے


ننھے سے گھر میں بچے روٹی کی آس میں ہیں

مجبور ماں سڑک پر کرتب دکھا رہی ہے


یادوں کا نور لے کر راہِ وفا میں چلنا

سورج ندی میں ڈوبا اب رات چھا رہی ہے


اے ناز مفلسی نے گھیرا ہے جب سے گھر کو

بیٹی جوان گھر میں آنسو بہا رہی ہے


ناز پروائی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...