Urdu Deccan
Friday, March 25, 2022
سیّد خورشید سہسرامی
خورشید افسر بسوانی
یوم پیدائش 16 مارچ 1941
قطرہ قطرہ تری پلکوں سے اٹھانا چاہوں
ہرطرح پیاس صدف کی میں بجھانا چاہوں
میں اک آنسو جسے پلکوں پہ نہ لانا چاہوں
تو ہے نغمہ تجھے ہونٹوں پہ سجانا چاہوں تو
کئی چہرے ابھر آتے ہیں سیر جادۂ شوق
کوئی اک چہرہ اگر بھول بھی جانا چاہوں
تیرا لہجہ ہی کچھ ایسا ، کہ یقیں آجائے
میں تری باتوں میں ہر چند نہ آنا چاہوں
آہ وہ شخص، اسے دیکھ لیا ہے جب سے
آنکھیں سوتی ہی نہیں لاکھ سلانا چاہوں
میرے ہونٹوں پہ کوئی انگلیاں رکھ دیتا ہے
اب جو سچ بات بھی یاروں کو بتانا چاہوں
وہی انداز پرانا ، وہ جہاں مل جائے
وہی بھولا ہوا افسانہ سنانا چاہوں
میں ہو کہدوں کہ جو تم ہو وہ نہیں ہو، تو ہنسو
روٹ جاؤ جو یہی بات چھپانا چاہوں
روٹھنے لگتی ہیں یہ تازہ ہوا میں افسر
جب بھی گھر کی کوئی دیوار اٹھانا چاہوں
خورشید افسر بسوانی
رفیق احمد نقشؔ
یوم پیدائش 15 مارچ 1959
ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا
ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا
تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال
تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا
تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو
بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا
منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب
کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا
سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں
بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا
اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در
شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا
رفیق احمد نقشؔ
سعادت سعید
یوم پیدائش 15 مارچ 1949
آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا
غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا
کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں
آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا
لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر
عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا
شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق
قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا
دشت فنا میں دیکھا مساوات کا عروج
اشرف نہیں رہا کوئی اسفل نہیں رہا
ہے جس کا تخت سجدہ گہہ خاص و عام شہر
میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا
جس دم جہاں سے ڈولتی ڈولی ہی اٹھ گئی
طبل و علم تو کیا کوئی منڈل نہیں رہا
سعادت سعید
ولی رضوی
یوم پیدائش 15 مارچ 1928
جنوں کا قافلہ بانگِ جرس کی راہ کیوں دیکھے
ہر اک منزل پہ ہم شورِ سلاسل چھوڑ آئے ہیں
ولی رضوی
کنول ضیائی
یوم پیدائش 15 مارچ 1927
پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے
وہ شخص صاحب فن بھی ہے کامیاب بھی ہے
ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں
ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی ہے
ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن
ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب بھی ہے
کسی غریب کی روٹی پہ اپنا نام نہ لکھ
کسی غریب کی روٹی میں انقلاب بھی ہے
مرا سوال کوئی عام سا سوال نہیں
مرا سوال تری بات کا جواب بھی ہے
کنول ضیائی
یوم پیدائش 15 مارچ 1921
دل کو رہین لذت درماں نہ کر سکے
ہم ان سے بھی شکایت ہجراں نہ کر سکے
اس طرح پھونک میرا گلستانِ آرزو
پھر کوئی تیرے بعد اسے ویراں نہ کر سکے
مہنگی تھی اس قدر ترے جلووں کی روشنی
ہم اپنی ایک شام فروزاں نہ کر سکے
بچھڑے رہے تو اور بھی رسوا کریں گے لوگ
تم بھی علاج گردش دوراں نہ کر سکے
دل ان کے ہاتھ سے بھی گیا ہم سے بھی گیا
شاید وہ پاس خاطر مہماں نہ کر سکے
ان پر بھی آشکار ہو کیوں اپنے دل کا حال
ہم اس متاع درد کو ارزاں نہ کر سکے
اعظمؔ ہزار بار لٹے راہ عشق میں
لیکن کبھی شکایت دوراں نہ کر سکے
اعظم چشتی
شفقت حیات شفق
یوم پیدائش 15 مارچ
مسافتوں کی حدوں کو چھو کر میں قرب تیرا حصار کرلوں
یہ چند لمحے جو بچ گئے ہیں انہیں میں پھر سے شمار کرلوں
تلاش کرتی رہی ہوں تم کو مجھے تمہاری ہی جستجو تھی
ملے ہیں اب نقش پا تمہارے میں ان پہ خود کو نثار کرلوں
میں صحرا صحرا بھٹک رہی ہوں کہ منزلوں کی خبر نہیں ہے
نشان منزل یہی ہے شاید سفر پہ ہی انحصار کرلوں
نظر سے بس ہوگیا ہے اوجھل وہ میرے خوابوں میں رہنے والا
جہاں بھی ہو گا مرا رہے گا میں خود کو کیوں سوگوار کرلوں
میں کاٹ لوں گی یہ کالی راتیں گزارلوں گی یہ وقت شفقت
جو تم کہو تو تمہاری یادوں میں آج پھر سے سنگھار کرلوں
شفقت حیات شفق
خورشید اقبال
یوم پیدائش 14 مارچ 1962
ارتقا نے زندگی کو راحتیں بھی کیں عطا
تحفتاً لیکن ہزاروں الجھنیں بھی کیں عطا
خورشید اقبال
ناز پروائی
یوم پیدائش 14 مارچ 1970
بے چین دل کو اپنے سمجھا بجھا رہی ہے
پردیس میں ہے ساجن آنسو بہا رہی ہے
جیسے کہ اب بھی میرے بچپن کا ہے زمانہ
ماں مجھ کو پیار سے یوں روٹی کھلا رہی ہے
دنیا حسیں ہے لیکن میں دیکھوں اس کو کیسے
تصویر پتلیوں میں بس تیری آ رہی ہے
تنہائیوں میں دل کو آئے گا چین کیسے
جب یاد بے وفا کی ہر پل ستا رہی ہے
اجڑے ہوئے کھنڈر میں مانا نہیں ہے کوئی
رہ رہ کے پھر یہ کیسی آواز آرہی ہے
ننھے سے گھر میں بچے روٹی کی آس میں ہیں
مجبور ماں سڑک پر کرتب دکھا رہی ہے
یادوں کا نور لے کر راہِ وفا میں چلنا
سورج ندی میں ڈوبا اب رات چھا رہی ہے
اے ناز مفلسی نے گھیرا ہے جب سے گھر کو
بیٹی جوان گھر میں آنسو بہا رہی ہے
ناز پروائی
محمد دین تاثر
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...

-
یوم پیدائش 03 اکٹوبر 1948 اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں آواز کا خزینہ شاید تہوں میں پائیں گلیوں میں سڑ رہی ہیں بیتے دنوں کی لاشیں ...
-
قد بڑھانے کے بہانے کتنے دوست دشمن ہوئے جانے کتنے گُل ہوئی شمع تو معلوم ہوا ظلم ڈھائے ہیں ہوا نے کتنے کچھ تو ہو صرفِ حسابِ گُل بھی پھول برسائ...
-
یوم پیدائش 01 مارچ 1932 وقت سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں بکھرا ہوا حیات کا دفتر سمیٹ لوں پھر جانے ہم ملیں نہ ملیں اک ذرا رکو میں دل کے آئینے م...
-
یوم پیدائش 04 مارچ 1972 ہم وفا ڈھونڈ رہے ہیں اب تک دیکھ کیا؟ ڈھونڈ رہےہیں اب تک شہر میں موت بِکے ہے تیرے ہم قضا ڈھونڈ رہے ہیں اب تک اپنے ا...
-
یوم پیدائش 11 فروری 1927 چراغ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں ہر ایک طرح سے خود کو جلا کے بیٹھے ہیں نہ کوئی راہ گزر ہے نہ کوئی ویرانہ غم حیا...
-
یوم پیدائش 25 دسمبر 1952 مرے ثبوت بہے جارہے ہیں پانی میں کسے گواہ بناؤں سرائے فانی میں جو آنسوؤں میں نہاتے رہے سو پاک رہے نماز ورنہ کسے مل ...
-
یوم پیدائش 03 اکتوبر 1968 تیرے میرے گھر کی حالت باہر کچھ اور اندر کچھ جیسے ہو پھولوں کی رنگت باہر کچھ اور اندر کچھ باہر باہر خاموشی ہے اند...
-
بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ ...
-
یوم پیدائش 15 مارچ 1994 مانا اس کو گلہ نہیں مجھ سے کچھ تو ہے جو کہا نہیں مجھ سے حق نہیں دوستی کا ایسا کوئی جو کہ اس کو ملا نہیں مجھ سے ...
-
یوم پیدائش 03 فروری 1940 ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے یہ خود فریب مگر راہ بھول جاتے تھے ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں کہ جن کے سائے...