یوم پیدائش 17 مارچ 1962
میں روز صحن سے پتے سمیٹتا جاؤں
لگا گیا ہے کوئی اک شجر اداسی کا
نصیر وارثی
یوم پیدائش 18مارچ 1916
اچھی نہیں ہمیشہ حقیقت کی بات چیت
کرتے ہیں لوگ اس سے شرارت کی بات چیت
مومن ہلاک لذت افطار ہو گیا
لیکن زباں پہ اس کی ہے جنت کی بات چیت
وہ آئے جب تو بحث کا نقشہ بدل گیا
کل سے چھڑی ہوئی تھی حماقت کی بات چیت
ہر روزہ دار مفتی اسلام ہوگیا
ہر مسئلہ میں کرتا ہے جنت کی بات چیت
روزہ میں کھل کے ہوتی ہے دو مفتیوں میں جنگ
اور اس کے بعد صاف جہالت کی بات چیت
کرتے ہیں ضبط غصہ کو دونوں بجبر وقہر
رہ جاتی ہے ادھوری شجاعت کی بات چیت
مغرب کے بعد چھڑتی ہے پھر ٹھنڈی ٹھنڈی جنگ
ہوتی ہے سرد سرد امامت کی بات چیت
ایسے بھی خال خال ہیں جن سے اگر ملو
کرتے ہیں کچھ شگفتہ طبیعت کی بات چیت
رکھتے ہیں وہ بلندئ گفتار فطرتاً
شکوے کا شائبہ نہ شکایت کی بات چیت
دشمن کے نام کو بھی وہ لیتے ہیں اس طرح
اڑ جاتی ہے ہوا میں عداوت کی بات چیت
اور ایسے روزہ دار بھی ملتے ہیں صبح وشام
ہوتی ہے جن کے انس میں وحشت کی بات چیت
ذکر عذاب قبر زباں پر ہے رات دن
ملتے ہی چھیڑتے ہیں قیامت کی بات چیت
واقف آروی
یوم پیدائش 17 مارچ 1953
فلک پہ مہرِ درخشاں ، زمیں پہ کھلتے گلاب
ہمارے حال پہ تادیر مسکرا نہ سکے
مختار مشرقی
یوم پیدائش 17 مارچ 1909
کچھ ایسی محبت ہے ہمیں گنگ و جمن سے
مرکر بھی جدا ہوں گے نہ ہم اپنے وطن سے
جلنے پہ بھی ہر بار بنائیں گے نشیمن
حق دارِ چمن جا نہیں سکتے ہیں چمن سے
کلیم فیض آبادی
یوم پیدائش 16 مارچ 1972
اب کون زندگی کا طلبگار ہے یہاں
ہر شخص خود سے برسر پیکار ہے یہاں
رشتوں کی پاسداری رکھے کون دہر میں
جب آدمی سے آدمی بیزار ہے یہاں
اپنی جڑوں کو کھوجتے گزری تمام عمر
پھل پھول کی تو بات ہی بیکار ہے یہاں
دستار کی فضیلتیں اپنی جگہ مگر
بے سر کا آدمی بھی سر دار ہے یہاں
سانسوں سے رشتہ توڑ لیا تو نے تو مگر
اب کون زندگی ترا غمخوار ہے یہاں
ساقی نہ تیرے جام و سبو معتبر رہے
ہوش و حواس میں ابھی میخوار ہے یہاں
تنہا سفر کی جھیل نہ پائے صعوبتیں
پھر آدمی کو قافلہ درکار ہے یہاں
چہرے چھپائے پھرتے مکھوٹوں سے ہیں سبھی
اب کون شخص آئینہ بردار ہے یہاں
اشفاق فکر کون ترا دیکھتا ہے اب
بے بحر شاعری میاں شہکار ہے یہاں
اشفاق اسانغنی
یوم پیدائش 16 مارچ 1935
اٹھ کے محفل سے مت چلے جانا
تم سے روشن یہ کونا کونا ہے
واجدہ تبسم
غزل
مہماں ہوۓ ہیں آج وہ گھر مدتوں کے بعد
آہوں میں آگیا ہے اثر مدتوں کے بعد
پوشیدہ ان کو رکھا ہے پتلی میں آنکھ کی
دیکھا ہے ان کو بارِ دگر مدتوں کے بعد
معکوس آئینہ بھی ہے قلب و نظر بھی ہیں
دیکھی گئ ہے ایسی نظر مدتوں کے بعد
واجدہ تبسمؔ
یوم پیدائش 16 مارچ 1941
قطرہ قطرہ تری پلکوں سے اٹھانا چاہوں
ہرطرح پیاس صدف کی میں بجھانا چاہوں
میں اک آنسو جسے پلکوں پہ نہ لانا چاہوں
تو ہے نغمہ تجھے ہونٹوں پہ سجانا چاہوں تو
کئی چہرے ابھر آتے ہیں سیر جادۂ شوق
کوئی اک چہرہ اگر بھول بھی جانا چاہوں
تیرا لہجہ ہی کچھ ایسا ، کہ یقیں آجائے
میں تری باتوں میں ہر چند نہ آنا چاہوں
آہ وہ شخص، اسے دیکھ لیا ہے جب سے
آنکھیں سوتی ہی نہیں لاکھ سلانا چاہوں
میرے ہونٹوں پہ کوئی انگلیاں رکھ دیتا ہے
اب جو سچ بات بھی یاروں کو بتانا چاہوں
وہی انداز پرانا ، وہ جہاں مل جائے
وہی بھولا ہوا افسانہ سنانا چاہوں
میں ہو کہدوں کہ جو تم ہو وہ نہیں ہو، تو ہنسو
روٹ جاؤ جو یہی بات چھپانا چاہوں
روٹھنے لگتی ہیں یہ تازہ ہوا میں افسر
جب بھی گھر کی کوئی دیوار اٹھانا چاہوں
خورشید افسر بسوانی
یوم پیدائش 15 مارچ 1959
ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا
ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا
تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال
تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا
تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو
بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا
منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب
کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا
سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں
بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا
اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در
شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا
رفیق احمد نقشؔ
یوم پیدائش 15 مارچ 1949
آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا
غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا
کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں
آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا
لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر
عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا
شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق
قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا
دشت فنا میں دیکھا مساوات کا عروج
اشرف نہیں رہا کوئی اسفل نہیں رہا
ہے جس کا تخت سجدہ گہہ خاص و عام شہر
میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا
جس دم جہاں سے ڈولتی ڈولی ہی اٹھ گئی
طبل و علم تو کیا کوئی منڈل نہیں رہا
سعادت سعید
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...