Urdu Deccan

Friday, March 25, 2022

نصیر وارثی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1962


میں روز صحن سے پتے سمیٹتا جاؤں

لگا گیا ہے کوئی اک شجر اداسی کا


نصیر وارثی


واقف اروی

 یوم پیدائش 18مارچ 1916


اچھی نہیں ہمیشہ حقیقت کی بات چیت

کرتے ہیں لوگ اس سے شرارت کی بات چیت


مومن ہلاک لذت افطار ہو گیا

لیکن زباں پہ اس کی ہے جنت کی بات چیت


وہ آئے جب تو بحث کا نقشہ بدل گیا

کل سے چھڑی ہوئی تھی حماقت کی بات چیت


ہر روزہ دار مفتی اسلام ہوگیا

ہر مسئلہ میں کرتا ہے جنت کی بات چیت


روزہ میں کھل کے ہوتی ہے دو مفتیوں میں جنگ

اور اس کے بعد صاف جہالت کی بات چیت


 کرتے ہیں ضبط غصہ کو دونوں بجبر وقہر

رہ جاتی ہے ادھوری شجاعت کی بات چیت


مغرب کے بعد چھڑتی ہے پھر ٹھنڈی ٹھنڈی جنگ

ہوتی ہے سرد سرد امامت کی بات چیت


ایسے بھی خال خال ہیں جن سے اگر ملو

کرتے ہیں کچھ شگفتہ طبیعت کی بات چیت


رکھتے ہیں وہ بلندئ گفتار فطرتاً

شکوے کا شائبہ نہ شکایت کی بات چیت


دشمن کے نام کو بھی وہ لیتے ہیں اس طرح

اڑ جاتی ہے ہوا میں عداوت کی بات چیت


اور ایسے روزہ دار بھی ملتے ہیں صبح وشام

ہوتی ہے جن کے انس میں وحشت کی بات چیت


ذکر عذاب قبر زباں پر ہے رات دن

ملتے ہی چھیڑتے ہیں قیامت کی بات چیت


واقف آروی



مختار مشرقی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1953


فلک پہ مہرِ درخشاں ، زمیں پہ کھلتے گلاب

ہمارے حال پہ تادیر مسکرا نہ سکے


مختار مشرقی


کلیم فیض آبادی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1909


کچھ ایسی محبت ہے ہمیں گنگ و جمن سے

مرکر بھی جدا ہوں گے نہ ہم اپنے وطن سے

جلنے پہ بھی ہر بار بنائیں گے نشیمن

حق دارِ چمن جا نہیں سکتے ہیں چمن سے


کلیم فیض آبادی


اشفاق اسانغنی

 یوم پیدائش 16 مارچ 1972


اب کون زندگی کا طلبگار ہے یہاں

ہر شخص خود سے برسر پیکار ہے یہاں


رشتوں کی پاسداری رکھے کون دہر میں

جب آدمی سے آدمی بیزار ہے یہاں


اپنی جڑوں کو کھوجتے گزری تمام عمر

پھل پھول کی تو بات ہی بیکار ہے یہاں


دستار کی فضیلتیں اپنی جگہ مگر

بے سر کا آدمی بھی سر دار ہے یہاں


سانسوں سے رشتہ توڑ لیا تو نے تو مگر

اب کون زندگی ترا غمخوار ہے یہاں


ساقی نہ تیرے جام و سبو معتبر رہے

ہوش و حواس میں ابھی میخوار ہے یہاں


تنہا سفر کی جھیل نہ پائے صعوبتیں

پھر آدمی کو قافلہ درکار ہے یہاں


چہرے چھپائے پھرتے مکھوٹوں سے ہیں سبھی

اب کون شخص آئینہ بردار ہے یہاں


اشفاق فکر کون ترا دیکھتا ہے اب

بے بحر شاعری میاں شہکار ہے یہاں


اشفاق اسانغنی


واجدہ تبسم

 یوم پیدائش 16 مارچ 1935


اٹھ کے محفل سے مت چلے جانا 

تم سے روشن یہ کونا کونا ہے


واجدہ تبسم 


غزل


مہماں ہوۓ ہیں آج وہ گھر مدتوں کے بعد 

آہوں میں آگیا ہے اثر مدتوں کے بعد 


پوشیدہ ان کو رکھا ہے پتلی میں آنکھ کی 

دیکھا ہے ان کو بارِ دگر مدتوں کے بعد 


معکوس آئینہ بھی ہے قلب و نظر بھی ہیں

 دیکھی گئ ہے ایسی نظر مدتوں کے بعد 


واجدہ تبسمؔ


سیّد خورشید سہسرامی

یوم پیدائش 16 مارچ 1998

فدائی جو شہ ابرار کے ہیں
وہی اعلیٰ ہوئے افکار کے ہیں

وہ کیسے جائیں گے دوزخ میں دیکھو
ہوئے جو مالک و مختار کے ہیں

کہ ان کی سنتوں کا ہے یہ صدقہ
" عدو قائل مرے ایثار کے ہیں "

کہ وہ مقبول لہجہ ہو گیا ہے
جو عادی سنتِ سرکار کے ہیں

گئے جو عرش سے یوں لامکاں تک
کہ چرچے بس اسی رفتار کے ہیں

زمانہ دیکھ لے اب ان کا رتبہ
مہ و انجم فدا رخسار کے ہیں

جو ہیں;خورشید؛ دنیا میں اجالے
انہیں کے رحمت و انوار کے ہیں

 سیّد خورشید سہسرامی


خورشید افسر بسوانی

 یوم پیدائش 16 مارچ 1941


قطرہ قطرہ تری پلکوں سے اٹھانا چاہوں

ہرطرح پیاس صدف کی میں بجھانا چاہوں


میں اک آنسو جسے پلکوں پہ نہ لانا چاہوں

تو ہے نغمہ تجھے ہونٹوں پہ سجانا چاہوں تو


کئی چہرے ابھر آتے ہیں سیر جادۂ شوق

کوئی اک چہرہ اگر بھول بھی جانا چاہوں


تیرا لہجہ ہی کچھ ایسا ، کہ یقیں آجائے

میں تری باتوں میں ہر چند نہ آنا چاہوں


آہ وہ شخص، اسے دیکھ لیا ہے جب سے

آنکھیں سوتی ہی نہیں لاکھ سلانا چاہوں


میرے ہونٹوں پہ کوئی انگلیاں رکھ دیتا ہے

اب جو سچ بات بھی یاروں کو بتانا چاہوں


وہی انداز پرانا ، وہ جہاں مل جائے

وہی بھولا ہوا افسانہ سنانا چاہوں


میں ہو کہدوں کہ جو تم ہو وہ نہیں ہو، تو ہنسو

روٹ جاؤ جو یہی بات چھپانا چاہوں


روٹھنے لگتی ہیں یہ تازہ ہوا میں افسر

جب بھی گھر کی کوئی دیوار اٹھانا چاہوں


خورشید افسر بسوانی



رفیق احمد نقشؔ

 یوم پیدائش 15 مارچ 1959


ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا

ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا 


تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال

تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا


تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو

بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا


منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب 

کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا


سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں 

بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا


اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در 

شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا


   رفیق احمد نقشؔ


سعادت سعید

 یوم پیدائش 15 مارچ 1949


آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا 

غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا 


کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں 

آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا 


لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر 

عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا 


شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق 

قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا 


دشت فنا میں دیکھا مساوات کا عروج 

اشرف نہیں رہا کوئی اسفل نہیں رہا 


ہے جس کا تخت سجدہ گہہ خاص و عام شہر 

میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا 


جس دم جہاں سے ڈولتی ڈولی ہی اٹھ گئی 

طبل و علم تو کیا کوئی منڈل نہیں رہا


سعادت سعید


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...