Urdu Deccan

Friday, March 25, 2022

سردار نقوی

 یوم پیدائش 21 مارچ 1941


میری ماں نے مجھے بتایا ہے 

اگلے وقتوں کے صاحبان دول 

جو خداوند کی مشیت سے 

عمر بھر لا ولد رہا کرتے 

یہ عجب کار خیر فرماتے 

اپنی دولت کو ایک برتن میں 

بند کر کے کہیں دبا دیتے 

اس پہ آٹے یا چکنی مٹی کا 

سانپ ضامن بنا کے رکھ دیتے 

تاکہ آئندہ کوئی شخص اگر 

ان کی دولت کی سمت آنکھ اٹھائے 

یہ خزانے کا سانپ لہرا کر 

اس کی اولاد بھینٹ میں چاہے 

لوگ اولاد بھینٹ دیتے تھے 

اور یہ مال کھود لیتے تھے 


میری ماں نے مجھے بتایا ہے 

میرے ناپختہ گھر کے آنگن میں 

ایسا ہی مال دفن تھا شاید 

اور یہ مال یوں ہی دفن رہا 

یا کسی اور گھر میں جا پہنچا 

میری ماں نے مجھے نہ بھینٹ دیا 

اور وہ مال ہاتھ سے کھویا 

میری ماں بھی عجیب عورت ہے 


اپنی ماں سے یہ واقعہ سن کر 

پہلے مجھ کو یقیں نہ آتا تھا 

میں نے افسانہ اس کو سمجھا تھا 

پر یہ افسانہ اک حقیقت تھا 


پر یہ افسانہ اک حقیقت ہے 

میں نے شاداب کھیتیاں دیکھیں 

میں نے مل دیکھے بنک بھی دیکھے 

میں نے دیکھا کہ مال و دولت کے 

ہر خزانے پہ ہر جگہ ہر پل 

اک نہ اک سانپ بیٹھا رہتا ہے 


سردار نقوی 



سعید الظفر صدیقی

 یوم پیدائش 21 مارچ 1944


زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے

میرے خدا کہیں تومری داستاں کھلے


کھلتا نہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں

ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے


مدت ہوئی ہے دونوں کو بچھڑے ہوئے مگر

اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ ابتک وہاں کھلے


وہ شہرِ دوستاں ہو کہ شہرِ ستم شعار

آوارگانِ عشق کسی پر کہاں کھلے


اب تک تو شہر مہر بلب ہے مرا سعید

شاید ستم کچھ اور بڑھے تو زباں کھلے


سعید الظفر صدیقی



شمشاد شاد

 یوم پیدائش 21 مارچ 


ہمنوا ہے، نہ ہمدم نہ درد آشنا، اس جہاں میں کوئی میرا اپنا نہیں

ہر کسی نے مجھے صرف دھوکا دیا، اب کسی پر بھی مجھ کو بھروسہ نہیں


سوزشیں، رتجگے، سسکیوں کے سوا اور کیا اب تلک زندگی نے دیا

غم مسلسل مقرب رہے عمر بھر رشتہ خوشیوں نے بھی تو بنایا نہیں


حق ہمیشہ سے میرا ہی مارا گیا، میرا سایہ تلک مجھ سے چھینا گیا

روشنی ہر کسی کو ملی ہے تو پھر میری قسمت میں ہی کیوں اجالا نہیں


منہ زبانی جتاتے ہیں ہمدردیاں، ڈوبتے کو بچاتا نہیں اب کوئی

ہائے مرنا بھی جیسے تماشا ہوا، کیوں مدد کے لئے کوئی آتا نہیں


میری راہوں میں کانٹے بچھائے گئے، تیر و نشتر مجھی پر چلائے گئے

میں کہ ایماں کی دولت سے سرشار تھا، صبر کا راستہ میں نے چھوڑا نہیں


عشق سچا اگر ہو تو صدیوں تلک یہ جہاں یاد رکھتا ہے دل والوں کو

زندہ ہے قیس و لیلیٰ کے قصے ابھی، ہیر رانجھا کو جگ نے بھلایا نہیں


شاؔد اچھلتی رہی اور سنبھلتی رہی، کشتیءِ زیست طوفاں سے لڑتی رہی

عزم و ہمت سے میں نے کیا سامنا، ہو مصیبت کوئی ڈر کے بھاگا نہیں


شمشاد شاؔد



ظہیر دہلوی

 یوم پیدائش 21 مارچ 1925


وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ کسی پہ تھا کوئی مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم بھی تم بھی تھے ایک جا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


وہ بنانا چہرہ عتاب کا وہ نہ دینا منہ سے جواب کا

وہ کسی کی منت و التجا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


تمہیں جس کی چاہ پہ ناز تھا جو تمھارا محرم راز تھا

میں وہی ہوں عاشق باوفا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی ہم میں تم میں بھی ساز تھے کبھی ہم بھی وقف نیاز تھے

ہمیں یاد تھا سو جتا دیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی بولنا وہ خفا خفا کبھی بیٹھنا وہ جدا جدا

وہ زمانہ ناز و نیاز کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


ابھی تھوڑے دن کا ہے تذکرہ کہ رقیب کہتے تھے برملا

مرے آگے تم کو برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی ہنس کے منہ کو چھپا لیا کبھی مسکرا کے دکھا دیا

کبھی شوخیاں تھیں کبھی حیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


جو بنا ہے عارف با خدا یہ وہی ظہیرؔ ہے بے حیا

وہ جو رند خانہ بدوش تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


ظہیرؔ دہلوی


قیصر صدیقی

 یوم پیدائش 19 مارچ 1937


آؤ ہم تم عشق کے اظہار کی باتیں کریں 

ڈال کر بانہوں میں باہیں پیار کی باتیں کریں 


پھول کی باتیں کریں گلزار کی باتیں کریں 

پیار کی باتیں کریں بس پیار کی باتیں کریں 


بات ہم دونوں کو یہ تو سوچنی ہی چاہئے 

پیار کے موسم میں کیوں تکرار کی باتیں کریں 


اس سے اچھی بات کوئی اور ہو سکتی نہیں 

یار کا افسانہ چھیڑیں یار کی باتیں کریں 


کاش بچپن لوٹ آئے اور ہم سب بیٹھ کر 

کچی مٹی کے در و دیوار کی باتیں کریں 


شکریہ بازاریت کی روشنی کا شکریہ 

گاؤں کی پگڈنڈیاں بازار کی باتیں کریں 


کعبہ و کاشی کے قصے ہو چکے اب بس کرو 

آؤ قیصرؔ نقش پائے یار کی باتیں کریں


قیصر صدیقی


فہیم انور

 یوم پیدائش 20 مارچ 1966


دست و بازو مرے کاٹ ڈالے گئے

اور مخالف کو تلوار دے دی گئی


فہیم انور



صدام حسین نازاں

 یوم پیدائش 20 مارچ 2001


سب کا اک انتخاب ہو جیسے

تم ہی عزت مآب ہو جیسے


تیرے جذبات خود بتاتے ہیں

تجھ میں چڑھتا شباب ہو جیسے


یوں جو کرتے ہو تم جناب جناب

کوئی اعلیٰ خطاب ہو جیسے


اس قدر خود پہ ناز کرتے ہو

اک تمہی کامیاب ہو جیسے


آتی رہتی ہے ہر گھڑی ہرپل

یاد تیری ثواب ہو جیسے


میری ہستی میں آپ کی یاری

باعثِ انقلاب ہو جیسے


آپ کا یہ حسین سا چہرہ

کوئی کھلتا گلاب ہو جیسے


دور ہی سے سلام کرتے ہو

میری عادت خراب ہو جیسے


تیری دلکش حسین چشمِ تر

کوئی جامِ شراب ہو جیسے


ایسا لگتا ہے آپ کو مجھ سے

عاشقی بےحساب ہو جیسے


تیری فرقت میں ایسا لگتا ہے

زندگانی عذاب ہو جیسے


اس کا چہرہ میں پڑھتا ہوں نازاؔں

حسن کی اک کتاب ہو جیسے


صدام حسین نازاں



رئیس انصاری

 یوم پیدائش 20 مارچ 1951


کوئی درخت کوئی سائباں رہے نہ رہے 

بزرگ زندہ رہیں آسماں رہے نہ رہے 


کوئی تو دے گا صدا حرف حق کی دنیا میں 

ہمارے منہ میں ہماری زباں رہے نہ رہے 


ہمیں تو پڑھنا ہے میدان جنگ میں بھی نماز 

مؤذنوں کے لبوں پر اذاں رہے نہ رہے 


ہمیں تو لڑنا ہے دنیا میں ظالموں کے خلاف 

قلم رہے کوئی تیر و کماں رہے نہ رہے 


یہ اقتدار کے بھوکے یہ رشوتوں کے وزیر 

بلا سے ان کا یہ ہندوستاں رہے نہ رہے 


خدا کرے گا سمندر میں رہنمائی بھی 

یہ ناؤ باقی رہے بادباں رہے نہ رہے


رئیس انصاری


شیر سنگھ ناز دہلوی

 یوم وفات 19 مارچ 1962


دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

جہاں سے اٹھ گئے اہل جہاں سے کچھ نہ کہا


چلی جو کشتئ عمر رواں تو چلنے دی

رکی تو کشتئ عمر رواں سے کچھ نہ کہا


خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی

بدل کے رہ گئے تیور زباں سے کچھ نہ کہا


بلا سے خاک ہوا جل کے آشیاں اپنا

تڑپ کے رہ گئے برق تپاں سے کچھ نہ کہا


گلہ کیا نہ کبھی ان سے بے وفائی کا

زباں تھی لاکھ دہن میں زباں سے کچھ نہ کہا


خوشی سے رنج سہے نازؔ عمر بھر ہم نے

خدا گواہ کبھی آسماں سے کچھ نہ کہا


شیر سنگھ ناز دہلوی


جعفر طاہر

 یوم پیدائش 19 مارچ 1917


چھیڑ کر تذکرۂ دور جوانی رویا

رات یاروں کو سنا کر میں کہانی رویا


ذکر تھا کوچہ و بازار کے ہنگاموں کا

جانے کیا سوچ کے وہ یوسف ثانی رویا


غیرت عشق نے کیا کیا نہ بہائے آنسو

سن کے باتیں تری غیروں کی زبانی رویا


جب بھی دیکھی ہے کسی چہرے پہ اک تازہ بہار

دیکھ کر میں تری تصویر پرانی رویا


چشم ارباب وفا ہے جو لہو روتی ہے

غیر پھر غیر ہے رویا بھی تو پانی رویا


تیری مہکی ہوئی سانسوں کی لویں یاد آئیں

آج تو دیکھ کے میں صبح سہانی رویا


اے وطن جب بھی سر دشت کوئی پھول کھلا

دیکھ کر تیرے شہیدوں کی نشانی رویا


جعفر طاہر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...