یوم پیدائش 04 اپریل 1962
شان و شوکت گئی حشمتیں چھوڑ دیں
عیش و عشرت لٹی رونقیں چھوڑ دیں
سارے ساماں دھرے کے دھرے رہ گئے
جانے والے گئے راحتیں چھوڑ دیں
یار بچھڑے جدا ہو گئے ہم سفر
ہائے! نوشاوں نے دلہنیں چھوڑ دیں
چھوڑ آئے کہیں بستئ دلنشیں
ہم نے پیچھے کئ منزلیں چھوڑ دیں
اب کہاں گرمئ محفلِ دوستاں
خلوتیں رہ گئیں جلوتیں چھوڑ دیں
چھوڑدی وہ گلی جس سے مانوس تھے
اور درِیار کی دستکیں چھوڑ دیں
جب زیادہ کوئی یاد آنے لگا
تب ملاقات کی کوششیں چھوڑ دیں
ہم کو پہچان پایا نہ کوئی یہاں
جس طرف بھی گئےحیرتیں چھوڑ دیں
کون اپنے عزیزوں کو سمجھائے گا
دشمنوں نے چلو سازشیں چھوڑ دیں
کوئی اپنے لئے پھر سہارا نہیں
تو نے مولا اگر نصرتیں چھوڑ دیں
ہم فقیروں کو دنیا سے مطلب ہی کیا
فقر چھوڑا نہیں مسندیں چھوڑ دیں
کوئی احساس بھی اب سلامت نہیں
چاہتیں مٹ گئیں رنجشیں چھوڑ دیں
کشمکش اسقدر تھی ، رہِ زیست میں
تیری یادیں کہیں راہ میں چھوڑ دیں
مے برسنے لگی پانیوں کی طرح
ہم نے پینے کی جب رغبتیں چھوڑ دیں
دل میں حسرت کوئی اور نہ ارماں کوئی
ہر تمنا سبھی خواہشیں چھوڑدیں
ہے گلہ ہی کسی سے نہ شکوہ کوئی
اک زمانہ ہوا مجلسیں چھوڑ دیں
اب کسی کو بھی اکرم مناتے نہیں
ہم نے پہلی سی وہ عادتیں چھوڑ دیں
ایسی خاموشیاں تو کبھی بھی نہ تھیں
دل نے درویش جی دھڑکنیں چھوڑ دیں
محمد اکرم درویش