Urdu Deccan

Tuesday, April 12, 2022

مرزا ادیب

 یوم پیدائش 04 اپریل 1914


حال اپنا سنا کے دیکھ لیا 

اور آنسو بہا کے دیکھ لیا 


کون سنتا ہے ہم غریبوں کی 

سب کو تو آزما کے دیکھ لیا 


ایک چھٹی بھی ہم کو مل نہ سکی 

نت بہانے بنا کے دیکھ لیا 


منہ جو کڑوا تھا وہ رہا کڑوا 

ہم نے لڈو بھی کھا کے دیکھ لیا 


کھا رہے ہیں چرا کے ہم بسکٹ 

اور جو امی نے آ کے دیکھ لیا 


ننھی دیتی نہیں ہے کھیر اپنی 

رو کے دیکھا رلا کے دیکھ لیا 


دل بہلتا نہیں کسی صورت 

گیت بھی آج گا کے دیکھ لیا


مرزا ادیب



رفعت وحید

 یوم پیدائش 04 اپریل 1975


خون کی حدتوں میں اتری ہے

اک اداسی رگوں میں اتری ہے


کیا خبر ہے کہ دن کہاں بچھڑا

رات کب کھڑکیوں میں اتری ہے


جو مسافت بھی پاؤں سے الجھی

بے جہت راستوں میں اتری ہے


پھر جزیرے نگل گیا ساگر

پھر زمیں پانیوں میں اتری ہے


اب کے رفعت ہماری بینائی

پھیلتے فاصلوں میں اتری ہے 


رفعت وحید



محمد اکرم درویش

 یوم پیدائش 04 اپریل 1962


شان و شوکت گئی حشمتیں چھوڑ دیں 

عیش و عشرت لٹی رونقیں چھوڑ دیں 


سارے ساماں دھرے کے دھرے رہ گئے

جانے والے گئے راحتیں چھوڑ دیں 


یار بچھڑے جدا ہو گئے ہم سفر

ہائے! نوشاوں نے دلہنیں چھوڑ دیں 


چھوڑ آئے کہیں بستئ دلنشیں

ہم نے پیچھے کئ منزلیں چھوڑ دیں 


اب کہاں گرمئ محفلِ دوستاں 

خلوتیں رہ گئیں جلوتیں چھوڑ دیں 


چھوڑدی وہ گلی جس سے مانوس تھے

اور درِیار کی دستکیں چھوڑ دیں 


جب زیادہ کوئی یاد آنے لگا

تب ملاقات کی کوششیں چھوڑ دیں 


ہم کو پہچان پایا نہ کوئی یہاں

جس طرف بھی گئےحیرتیں چھوڑ دیں 


کون اپنے عزیزوں کو سمجھائے گا 

دشمنوں نے چلو سازشیں چھوڑ دیں 


کوئی اپنے لئے پھر سہارا نہیں 

تو نے مولا اگر نصرتیں چھوڑ دیں 


ہم فقیروں کو دنیا سے مطلب ہی کیا

فقر چھوڑا نہیں مسندیں چھوڑ دیں 


کوئی احساس بھی اب سلامت نہیں 

چاہتیں مٹ گئیں رنجشیں چھوڑ دیں


کشمکش اسقدر تھی ، رہِ زیست میں 

تیری یادیں کہیں راہ میں چھوڑ دیں 


مے برسنے لگی پانیوں کی طرح 

ہم نے پینے کی جب رغبتیں چھوڑ دیں 


دل میں حسرت کوئی اور نہ ارماں کوئی

ہر تمنا سبھی خواہشیں چھوڑدیں 


ہے گلہ ہی کسی سے نہ شکوہ کوئی

اک زمانہ ہوا مجلسیں چھوڑ دیں 


اب کسی کو بھی اکرم مناتے نہیں

ہم نے پہلی سی وہ عادتیں چھوڑ دیں 


ایسی خاموشیاں تو کبھی بھی نہ تھیں 

دل نے درویش جی دھڑکنیں چھوڑ دیں 


محمد اکرم درویش



مرزا غالب

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1797


آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک


دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک


عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک


تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر

سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک


ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک


پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک


یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل

گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک


غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک


مرزا غالب



مبارک علی مبارک

 یوم پیدائش 02 اپریل 1960


شیشۂ دل جو ہوا چور ، تعجب کیا ہے

فطرتِ حسن ہمیشہ سے ہے پتھر جیسی


مبارک علی مبارک



عبد الحلیم حلیم

 یوم پیدائش 02 اپریل 1910


بدنام ہوں گے یا انھیں بدنام کریں گے

آیے ہیں دہر میں تو کوئی کام کریں گے


مسجد سے آرہے ہیں بہت ہی تھکے ہویے

چل کر صنم کدہ میں کچھ آرام کریں گے


ہم سے مآلِ دشت نوردی نہ پوچھیے

گمنام ہوں گے بھی تو بڑا نام کریں گے


عبد الحلیم حلیم



ارشاد گوہر

 یوم پیدائش 02 اپریل 1955


مذہبی پوشاک گھر میں رکھ کے باہر آیئے

رہبروں نے قوم کو یہ بات سمجھائی نہیں


ارشاد گوہر



طارق نعیم

 یوم پیدائش 02 اپریل 1958


محل سرا کا جو نقشہ دکھائی دیتا ہے

امیرِشہر بھی جاتا دکھائی دیتا ہے


وہ کہہ رہے ہیں سرابِ نظر ہے کچھ بھی نہیں

مجھے تو آنکھ میں دریا دکھائی دیتا ہے


ذرا جو غور سے دیکھیں تو لامکان سے بھی

مرے مکان کا ملبہ دکھائی دیتا ہے


یہی وہ دشتِ گماں ہے چلے چلو کہ یہاں

سفر کے بعد ہی رستہ دکھائی دیتا ہے


عجیب کام ہے اے ہمدمو! یہ کارِنفس

رکا ہوا بھی یہ ہوتا دکھائی دیتا ہے


مجھے یقیں ہے یہاں کا بنا ہوا ہی نہیں

اس آئینے میں زمانہ دکھائی دیتا ہے


تمام رات ہیولے سے رقص کرتے ہیں

کسی کسی کا سراپا دکھائی دیتا ہے


رعایا جتنے بھی چاہے عذاب میں ہو مگر

جہاں پناہ کو اچھا دکھائی دیتا ہے


سنا یہی ہے ابھی ختم ہونے والا نہیں

یہاں جو روز تماشا دکھائی دیتا ہے


طارق نعیم



قیصر شمیم

 یوم پیدائش 02 اپریل 1936


کہاں ہے کوئی خدا کا خدا کے بندوں میں 

گھرا ہوا ہوں ابھی تک انا کے بندوں میں 


نہ کوئی سمت مقرر نہ کوئی جائے قرار 

ہے انتشار کا عالم ہوا کے بندوں میں 


وہ کون ہے جو نہیں اپنی مصلحت کا غلام 

کہاں ہے بوئے وفا اب وفا کے بندوں میں 


خدا کرے کہ سماعت سے میں رہوں محروم 

کبھی جو ذکر ہو میرا ریا کے بندوں میں 


سزائیں میری طرح ہنس کے جھیلنے والا 

نہیں ہے کوئی بھی عہد سزا کے بندوں میں 


نہ عافیت کی سحر ہے نہ انبساط کی شام 

ہوں ایک عمر سے صحرا بلا کے بندوں میں 


سخن شناس ہے کتنا یہ پوچھ لوں قیصرؔ 

نظر وہ آئے جو حرف و نوا کے بندوں میں 


قیصر شمیم



فہیم الدین فہیم

 یوم پیدائش 02 اپریل 1963


تری یادوں کے دریا میں اترنا بھی ضروری تھا

جدائی بھی ضروری تھی ، ابھرنا بھی ضروری تھا


کیا ہوتا وفا وعدہ تجھے شہرت نہیں ملتی

تجھے وعدوں سے اپنے تو مکرنا بھی ضروری تھا


تری گلیوں میں جاتا تھا میں اکثر بے ارادہ بھی

تجھے دیکھے بنا جانم گزرنا بھی ضروری تھا


محبت کو نبھانا تھا مجھے ہر حال میں جاناں

نظر میں دہر کی ایسے سنورنا بھی ضروری تھا


سمیٹے میں نے رکھا تھا سبھی ماضی کی یادوں کو

پھر اک اک کر کے ان کا تو بکھرنا بھی ضروری تھا


بلندی پر وہ پہنچا تھا رعونت سے نہ بچ پایا

فہیمِ خوش نوا اس کا اترنا بھی ضروری تھا


فہیم الدین فہیم



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...