Urdu Deccan

Thursday, April 14, 2022

سید معراج جامی

 یوم پیدائش 12 اپریل 1955


زندگی کیا ہر قدم پر اک نئی دیوار ہے 

تیرگی دیوار تھی اب روشنی دیوار ہے 


کیوں بھٹکتے پھر رہے ہیں آج ارباب خرد 

کیا جنوں کے راستے میں آگہی دیوار ہے 


بچ نہیں سکتی تغیر کے اثر سے کوئی شے 

پہلے سنتی تھی مگر اب دیکھتی دیوار ہے 


ہم تو وابستہ ہیں ایسے دور سے جس دور میں 

آدمی کے راستے میں آدمی دیوار ہے 


جذبۂ جہد و عمل سے زندگی کوہ گراں 

بے عمل ہو زندگی تو ریت کی دیوار ہے 


آج اپنے دشمنوں سے کھل کے لڑ سکتا نہیں 

دشمنی کے راستے میں دوستی دیوار ہے 


روح کیوں مضطر نہ ہو جامیؔ حریم جسم میں 

جس طرف بھی دیکھتی ہے آہنی دیوار ہے


سید معراج جامی



عابد عمر

 یوم پیدائش 12 اپریل 1977


یقیں نہیں تھا کسی پہ مجھ کو سو راستے میں ٹھہر گیا ہوں

وگرنہ ماضی میں جس نے مجھ سے جدھر کہا میں ادھر گیا ہوں


میں بے وجہ تو نہیں چھپاتا جہان بھر سے شناخت اپنی

ہزار عیبوں سے واسطہ ہے تبھی تو خود سے مکر گیا ہوں


تلاشِ بسیار پر بھی دھڑکن کا مل سکا نہ سراغ کوئی

ہوں ایک مدت سے مخمصے میں ابھی ہوں زندہ کہ مر گیا ہوں


عمر حقائق سے آشنائی عجب اذیت سی دے رہی ہے

وہ آئینے سے ڈرا ہوا ہے میں اپنے سائے سے ڈر گیا ہوں


عابد عمر




واحد نظیر

 یوم پیدائش 12 اپریل 1968


آج میں ایسے حمد زار میں تھا 

اک تحیّر ہر اک نگار میں تھا 


چھو کے جس گل کو لوگ راکھ ہوئے 

میں بقا کی اسی قطار میں تھا


عزم تھا قافلے کے قدموں میں 

دشت روندا ہوا غبار میں تھا


گیسوؤں میں بھی بے نمک ہی رہا

 آبِ شور ایسا آبشار میں تھا 


شہر پاگل تھا شہر یاروں میں 

میں وہاں کب کسی شمار میں تھا


فتح دنیا کو کر رہا تھا میں

اور یمیں نرغۂ یسار میں تھا 


خلق تھی دامِ اعتبار میں اور

شاہ مصروف لوٹ مار میں تھا 


گردشِ آسماں نہ تھی اب کے 

آسماں خود ہی گردبار میں تھا 


حرف تفصیل کے اشارے تھے

کیا ہنر اس کے اختصار میں تھا


عکس تھے اس کے آئنہ تمثال

شعر پھر میر کے دیار میں تھا


 یوں کہیں گے کبھی نظیر نظر

کچھ سلیقہ تو خاکسار میں تھا


واحد نظیر 



خاور کمال صدیقی

 یوم پیدائش 12 اپریل 1965


 سب نے اپنی نظر سے دیکھا ہے

ہم نے چشمانِ تر سے دیکھا ہے


رونقوں کا زوال ہوتے ہوئے

روشنی کے نگر سے دیکھا ہے


اس کے وعدے تو بس دلاسے تھے

پھل ملا کیا شجر سے دیکھا ہے


کوئی تو بات یہ بتائے ذرا

کچھ بچا ان کے شر سے دیکھا ہے؟


کوئی منزل ملی نہ راہ نما

لوٹ کے ہر سفر سے دیکھا ہے


اس کا اقرار دل لگی ٹھہرا

کتنا کچھ بازی گر سے دیکھا ہے


ایک تیرہ شبی کا عالم بھی

دن ڈھلے تک سحر سے دیکھا ہے


رنج و آلام کا مداوا کبھی

شہر کے چارہ گر سے دیکھا ہے؟


اس سے باندھو وفا کی امیدیں

جس نے غائر نظر سے دیکھا ہے


خاور کمال صدیقی 



ناوک حمزہ پوری

 یوم پیدائش 12 اپریل 1933


زہرآب حیات پی رہا ہوں 

حیرت ہے کہ پھر بھی جی رہا ہوں 


کس کس کی زبان بند کرتا 

خود اپنے ہی ہونٹ سی رہا ہوں 


کیا کم ہے یہ سانحہ کہ میں ہی 

ان آنکھوں کی کرکری رہا ہوں 


سورج سے لڑانے والا آنکھیں 

میں ہی سورج مکھی رہا ہوں 


روداد حیات ہے بس اتنی 

پامال ستم گری رہا ہوں 


اپنی ہی نگہ میں ناوکؔ اب تک 

یہ سچ ہے کہ اجنبی رہا ہوں


ناوک حمزہ پوری




کرن وقار

 یوم وفات 10 اپریل 2021


تمام عمر رہی مرنے کی تمنا ہمیں

خیال جینے کا آیا نہ تیرے جانے کے بعد


کرن وقار




سردار وسیم اکرم سیمی

 یوم پیدائش 10 اپریل 1993


پرس میں جو تری تصویر لیے پھرتے ہیں

درد و غم سے بھری تقدیر لیے پھرتے ہیں


اپنے ہم پاوں کی زنجیر لیے پھرتے ہیں

 اپنے دکھ درد کی جاگیر لیے پھرتے ہیں

  

کھا گیا ہے ہمیں دیمک کی طرح ہجرِ یار

 ہم جوانی میں بھی اک پیر لیے پھرتے ہی


ہے سبب سب کا فقط ایک فقط ایک وسیم

پرس میں اس کی جو تصویر لیے پھرتے ہیں

 

سردار وسیم اکرم سیمی



گوہررحمٰن گہر مردانوی

 یوم پیدائش 10 اپریل 1976


جذبہء شوق جو انسان میں بیدار ہوا

قوم کا مونس و ہمدرد وہ غمخوار ہوا


 فطرتِ نوع کہ آخر وہ شجرسوکھ گیا

اک ذرا وقت سے پہلے جو ثمر بار ہوا


اپنی اوقات دکھائےگا ہی مخلوط نسل

شخص جو رہبر ملت ہوا، سرکار ہوا 


علم رکھ کربھی جہالت نہیں جاتی ہرگز

شاہ، افسر ہوا یا قوم کا معمار ہوا


معتبر کون ہے یہ وقت بتا دیتا ہے

شاعرِ گوہر گمنام جو بیکار ہوا


گوہررحمٰن گہر مردانوی



بلال تیغی

 یوم پیدائش 10 اپریل 2000


ٹکرا کے گر گیا تھا میں خود سے زمین پر

اک روز بھاگتا ہوا ماضی کے خوف سے


بلال تیغی




دانش اثری

 یوم پیدائش 10 اپریل 1991


ہم وہ مجبور کہ ہجرت بھی نہیں کرسکتے

یعنی آزادی کی چاہت بھی نہیں کرسکتے


اپنے کعبہ پہ تو قبضہ ہے عزازیلوں کا

ہم تو اب کھل کے عبادت بھی نہیں کرسکتے


ترکیا مست مئے ناب، عرب مست ریال

اب تو وہ میری حمایت بھی نہیں کرسکتے


قاتلو! ٹھہرو ذرا، ایک تو سجدہ کرلوں

کیا ذرا سی یہ رعایت بھی نہیں کرسکتے؟


جو بھی تھا سب تو لٹا ڈالا ہے حضرت، اب کیا

آپ اب اور سخاوت بھی نہیں کرسکتے


نام رکھا ہے مسلمانوں سا ، مرجاؤ، کہ تم

قوم مسلم سے براءت بھی نہیں کرسکتے


دانش اثری نے بتائی تھی تمھیں کل کی خبر

تم تو اب اس سے شکایت بھی نہیں کرسکتے


دانش اثری



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...