Urdu Deccan

Friday, May 13, 2022

خواجہ مظفر مینائی

 یوم پیدائش 01 مئی 1973


کسی دربار میں نہیں ملتا 

عشق بازار میں نہیں ملتا


کچھ ہیں مندر میں کچھ ہیں قبروں پر

پھول گلزار میں نہیں ملتا


کون سمجھائے شان والوں کو

سایہ دستار میں نہیں ملتا


ڈھونڈتا ہوں جسے وہ اے دنیا

تیرے سنگار میں نہیں ملتا


دکھ تو ہوتا ہے جب بھی تیرا نام

دل کی جھنکار میں نہیں ملتا


اے مظفر مجھے غزل کی قسم

بغض فنکار میں نہیں ملتا 


خواجہ مظفر مینائی



Wednesday, May 11, 2022

ساگر ثنااللہ

 یوم پیدائش 01 مئی 2001


ہم غریبوں کی جمع پونجی میں

یہ   محبت    بڑا   خزانہ  ہے


ساگر ثنااللہ



رخسانہ جبیں

 یوم پیدائش 01 مئی 1955


یہ ہماری زمیں وہ تمہاری زمیں 

سرحدیں کھا گئی ہیں یہ ساری زمیں 


تیری خاطر ہی کٹوائے سر بے شمار 

قیمت ایسی چکا دی ہے بھاری زمیں 


آنکھ اٹھی بھی نہ تھی تیری جانب ابھی 

ضرب سینوں پہ لگوا دی کاری زمیں 


غیر کوئی قدم رکھ نہ پائے یہاں 

ندیاں خون کی کر دیں جاری زمیں 


آسماں کا گماں سب کو ہونے لگا 

چاند تاروں سے ہم نے سنواری زمیں 


روز اگتا ہے سورج اسی کوکھ سے 

اور ہر شام روئی کنواری زمیں


رخسانہ جبیں



شہاب الدین شاہ قنوجی

 یوم پیدائش 01 مئی 1974


خود کو سلگا کے مروت کے اجالے رکھنا

کتنا مشکل ہے محبت کو سنبھالے رکھنا


تم سے امید نہیں مہرے وفا کی لیکن

عشق کا کام ہے امید کو پالے رکھنا


قید ہوتا نہیں اے شاہ کوئی نور افق 

کام ہے نور کا بس راہ نکالے رکھنا


شہاب الدین شاہ قنوجی



خالد ندیم شانی​

 یوم پیدائش 01 مئی 1975


خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے

غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے


ہم نہ مجنوں ہیں، نہ فرہاد کے کچھ لگتے ہیں

ہم کسی دشت تماشے میں نہیں آئیں گے


مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی

درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے


اُس کی کچھ خیر خبر ہو تو بتاؤ یارو

ہم کسی اور دلاسے میں نہیں آئیں گے


جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے

صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے


خالد ندیم شانی​



 یوم پیدائش 28 اپریل 1968


چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا 

اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا 


کھاتے رہے ہیں زیست میں کیا کیا مغالطے 

قامت کو اس حسیں کی قیامت سمجھ لیا 


کردار کیا رہا ہے کبھی یہ بھی سوچتے 

سجدے کیے تو ان کو عبادت سمجھ لیا 


ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا 

اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا 


اب ہے کوئی حسین نہ لشکر حسین کا 

سر کٹ گئے تو ہم نے شہادت سمجھ لیا 


اس طرح عمر چین سے کاٹی شکیلؔ نے 

دکھ اس سے جو ملا اسے راحت سمجھ لیا


اطہر شکیل 



اشرف گل

 یوم پیدائش 30 اپریل 1940


میں با وفا ہی رہا رہ کے بے وفاؤں میں 

گل بہار کی صورت کھلا خزاؤں میں

 

بھری بہار میں دیکھے جو پھول جلتے ہوئے 

رکے نہ اشکوں کے دریا مری گھٹاؤں میں 


ہمارے ہاتھوں سے جب وقت کی گرہ نہ کھلی 

تو لوگ سمجھے کہ ہم خوش ہیں ابتلاؤں میں

 

ترے حضور رہی قہقہوں پہ پابندی 

رہا ہے خوف بھی رقصاں مری صداؤں میں

 

کرو نہ ساری مکدر فضا جہاں والو 

مرے بھی حصے کی سانسیں ہیں ان ہواؤں میں 


خلوص کی نہ چلی ایک بھی یہاں اشرفؔ 

گنوایا وقت عبث ہم نے التجاؤں میں


اشرف گل



نظرعلی

 یوم پیدائش 30 اپریل 1962


جدھر دیکھو ادھر دہشت کھڑی ہے

 خدارا خير ہو مشکل بڑی ہے

 

خموشی اس قدر چھائی ہے ہر سو

نگر کی ہر گلی سونی پڑی ہے


پرندے ناتواں ہیں آشیاں میں

نگاه باز ہر جاں پر  گڑی ہے 


 جہاں پر بھائی چارے کی ضیا تھی

 وہاں اب تیرگی پھیلی پڑی ہے

 

محبت آئے تو آئے کدھر سے

عداوت راستہ روکے کھڑی ہے


بنایا کارواں کا جن کو رہبر

شرارت ان کے تاجوں میں جڑی ہے


حکومت ہے جہاں میں نفرتوں کی

نظر یہ بھی سیاست کی کڑی ہے


نظرعلی



اسلم انصاری

 یوم پیدائش 30 اپریل 1939


ہر شخص اس ہجوم میں تنہا دکھائی دے

دنیا بھی اک عجیب تماشا دکھائی دے


اک عمر قطع وادیٔ شب میں گزر گئی

اب تو کہیں سحر کا اجالا دکھائی دے


اے موجۂ سراب تمنا ستم نہ کر

صحرا ہی سامنے ہے تو صحرا دکھائی دے


میں بھی چلا تو پیاس بجھانے کو تھا مگر

ساحل کو دیکھتا ہوں کہ پیاسا دکھائی دے


الفاظ ختم ہوں تو ملے رشتۂ خیال

یہ گرد بیٹھ جائے تو رستہ دکھائی دے


کون اپنا عکس دیکھ کے حیراں پلٹ گیا

چہرہ یہ موج موج میں کس کا دکھائی دے


تو منکر وفا ہے تجھے کیا دکھاؤں دل

غم شعلہ نہاں ہے بھلا کیا دکھائی دے


ہر شب در خیال پہ ٹھہرے وہ ایک چاپ

ہر شب فصیل دل پہ وہ چہرہ دکھائی دے


لب‌ بستگی سے اور کھلے غنچۂ صدا

وہ چپ رہے تو اور بھی گویا دکھائی دے


اسلمؔ غریب‌ شہر سخن ہے کبھی ملیں

کہتے ہیں آدمی تو بھلا سا دکھائی دے


اسلم انصاری


کامران حامد

 یوم پیدائش 30 اپریل 1996


دل کے نئے مکاں میں ہر چیز اب نئی ہے

تصویر اک پرانی بس آپ کی رکھی ہے


کیسے صدائے فرحت آؤں میں تیری جانب

کمبخت یہ اداسی در پر کھڑی ہوئی ہے


بدلا ہے گھر کا نقشہ بدلا ہے رنگ و روغن

لیکن مکیں وہی ہے دیوار و در وہی ہے


میں کب سے منتظر ہوں ، کچھ تو کہے گی مجھ سے

یہ چاندنی جو میری چھت پر ٹہل رہی ہے


کتنا عجیب ہوں میں رہتا ہوں خوش ہمیشہ

اور یاد بھی نہیں ہے، کس بات کی خوشی ہے


تم بھی محبتوں سے اب پیش آ رہے ہو

کیا ہوگیا ہے تم کو، کیا بات ہو گئی ہے؟


اک شخص تھا جو بیٹھا ساحل پہ ہنس رہا تھا

اک چیخ تھی جو شاید دریا میں جا گری ہے


وہ بات جس کا کوئی سر ہے نہ پیر حامد

 وہ بات جانے کیسے دل پر مرے لگی ہے


کامران حامد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...