Urdu Deccan

Sunday, May 15, 2022

شھباز انصاری

یوم پیدائش 13 مئی 1961

ناطے کا سمے بندھن تُو چاوے جِدھر ھووے
تُو چاوے تو شام آوے تُو چاوے سحر ھووے

بے کار سے جیون کی بے رنگ سی گھڑیاں بھی
سٙت رنگی سی ھو جاویں جب تیری نظر ھووے

سرگم کی رِدھم تُجھ سے راگی کی کلا تُجھ سے
جو تان بھی تُو چھیڑے وہ تان مٙدُھر ھووے

تُو زُلف کو لہراوے رِم جِھم چھما چھم بٙرسے
گھنگھور گھٹاووں پر کچھ ایسا اثر ھووے

جس کھولی میں رِہوت ھو اُس کھولی کے بازُو میں
اے کاش کبھی ساجن میرا بھی تو گھر ھووے

اِک روگ مِلے تیرا دُوجا تُو مِلے مجھ کو
سنسار کے بیچ ایسا کوئی تو نگر ھووے

میں تیرا دِوانہ ھوں سُدھ بُدھ سے بِگانہ ھوں  
صد حیف اگر تجھ کو میری نہ خبر ھووے

بٙن باس کی بِپتا کو ویدوں میں پٙرونے کو
شھباز بتاوو کیوں ہیرے سا جِگر ھووے

شھباز انصاری



مستحسن جامی

یوم پیدائش 12 مئی 1994

دریاؤں کو حال سنا کر رقص کیا
صحراؤں کی خاک اڑا کر رقص کیا

قیس مجھے اس بات پہ حیرت ہوتی ہے
تو نے کیسے دشت میں جا کر رقص کیا

ان لوگوں کی حالت دیکھنے والی تھی
جن لوگوں نے وجد میں آ کر رقص کیا

جب میری آواز نہ پہنچی کانوں تک
پھر میں نے تحریر میں آ کر رقص کیا

طوق گلے میں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں
گھنگرو پہنے ہوش گنوا کر رقص کیا

دولت والے مست ہوئے ایوانوں میں
درویشوں نے اشک بہا کر رقص کیا

بھید کُھلا جس شخص پہ تیرے ہونے کا
اس نے تیرے قرب کو پا کر رقص کیا

مستحسن میں جامی ہوں منصور نہیں
دلبر کو اشعار سنا کر رقص کیا

مستحسن جامی


 

آس فاطمی

یوم پیدائش 12 مئی 1987

میں ہوں حیراں یہ سلسلہ کیا ہے 
آئنہ مجھ میں ڈھونڈھتا کیا ہے 

خود سے بیتاب ہوں نکلنے کو 
کوئی بتلائے راستہ کیا ہے 

میں حبابوں کو دیکھ کر سمجھا 
ابتدا کیا ہے انتہا کیا ہے 

میں ہوں یکجا تو پھر مرے اندر 
ایک مدت سے ٹوٹتا کیا ہے
 
خود ہی تنہائیوں میں چلاؤں 
خود ہی سوچوں یہ شور سا کیا ہے
 
جانے کب کیا جنوں میں کر جاؤں 
میں تو دیوانہ ہوں مرا کیا ہے 

آس فاطمی


 

جلیل عالی

یوم پیدائش 12 مئی 1945

کسی سے بوجھ ہٹایا کسی پہ ڈالا گیا
اِسی طرح سےکڑے موسموں کو ٹالا گیا

کسی نے ہاتھ اٹھایا بوجہِ سیریِ جاں
کسی کے ہاتھ سے سوکھا ہوا نوالہ گیا

طرح طرح کے اندھیروں گزار کر ہم کو
تمام اپنا درون و بروں اجالا گیا
 
خجل خیال خرابوں بھٹک رہے ہوتے
حجاب و ہَول حوالوں ہمیں سنبھالا گیا
 
ہماری خاک جدا پانیوں سے گوندھی گئی
الگ شباہت و سیرت میں ہم کو ڈھالا گیا

تہی نہ جائے گی کاوش کبھی زمانے کی
ہماری راکھ کو جس عہد بھی کھنگالا گیا

گھٹا تو سکتے ہیں وہ لَو بجھا نہیں سکتے
چراغ اپنا سرِ وقت یوں مثالا گیا

مسلسل اُس کی صدا گونجتی ہے گلیوں میں
 اگرچہ کب کا وہ بستی بسانے والا گیا

ہوا پڑا تھا سوادِ وجود زیر و زبر
وہ اک نگاہ اٹھی اور سب بحالا گیا

جلیل عالی



ایم رفیق عیش

یوم پیدائش 11 مئی 1982

بابِ کرم ہوئے ہیں کشادہ حضور ﷺ کے 
احسان ہم پہ کتنے زیادہ حضور ﷺ کے 

ہر شے پہ کائنات کی قبضہ ہے آپؐ کا 
صحرا مرے حضورؐ کے دریا حضور ﷺ کے 

میدان دے رہا ہے گواہی یہ بدر کا 
پہنچے کمالِ اوج پہ شیدا حضور ﷺ کے 

مٹ کر رہے گی آج تو باطل کی تیرگی 
لڑنے لگے ہیں تین سو تیرہ حضور ﷺ کے 

جذبہ ہوا نہ پست ہزاروں کے سامنے 
پیکر یقین کا تھے صحابہ حضور ﷺ کے 

اپنی رضا کی ان کو بشارت خدا نے دی 
فردوس کے مکین ہیں شہدا حضور ﷺ کے 

تجھ سے مری بس ایک خدایا ہے التجا 
نوکر ہمیں بھی جان لے ادنی' حضور ﷺ کے 

ایم رفیق عیش


 

عنایت علی خان

یوم پیدائش 10 مئی 1935

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا 
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر 

عنایت علی خان



نیاز احمد عاطر

یوم پیدائش 10 مئی 1984

ایک سے ایک زمانے کے حسیں روتے ہوئے
آپﷺ کے در پہ ملے تخت نشیں روتے ہوئے

آپﷺ کے ہجر میں طیبہ کے گلی کوچوں میں
دیکھے ہیں دشت محبت کے مکیں روتے ہوئے

میری اوقات کہاں نعت نبیﷺ کی لکھوں
بس جھکا لی ہے ندامت سے جبیں روتے ہوئے

میرے آقاﷺ مجھے اک روز بلائیں گے پاس
بڑھتا جاتا ہے مرا اور یقیں روتے ہوئے

آگیاصبر ورضا کا یہ سلیقہ مجھ کو 
ہوگیا نرم مرا قلب حزیں روتے ہوئے

 کبھی میرے بھی مقدر کا ستارہ چمکے
میں بھی دیکھوں یہ مدینے کی زمیں روتے ہوئے

دیکھتے ہی وہ مدینے کا نظارہ عاطر
جسم سے روح نکل جائے وہیں روتے ہوئے 

نیاز احمد عاطر



قمر جمیل

یوم پیدائش 10 مئی 1927

ایک پتھر کہ دست یار میں ہے 
پھول بننے کے انتظار میں ہے 

اپنی ناکامیوں پہ آخر کار 
مسکرانا تو اختیار میں ہے 

ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے 
دن قیامت کے انتظار میں ہے 

اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں 
اور آئینہ انتظار میں ہے 

کچھ ستارے ہیں اور ہم ہیں جمیلؔ 
روشنی جن سے رہ گزار میں ہے

قمر جمیل



منظور عادل

یوم پیدائش 10 مئی 1950

جان و دل جس پر لٹاتے تھے کرم فرما گیا
موت سے پہلے منوں مٹی میں وہ دفنا گیا

جس کو اپنی عمر کی ساری کمائی سونپ دی
وہ صفِ اول میں دشمن کے مرے پایا گیا

ہورہی تھی جب سرِ محفل پذیرائی مری
پھول سا چہرہ کسی کا دفعتاً مرجھا گیا

اتنی مدت بعد بھی یہ سلسلہ ہے آج تک
اک ستم کرتا گیا اور دوسرا سہتا گیا

جیسے جیسے لوگ اپنی دل بری کھوتے گئے
دھیرے دھیرے شہر بھی جنگل نما ہوتا گیا

کِشتِ دل سوکھے پڑے ، فصلِ وفا مُرجھا گئی
دل کی وادی میں اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا

غیر کو دنیا میں کُل آسائشیں حاصل رہیں
اور اپنوں کو فقط وعدوں سے بہلایا گیا

منظور عادل



زاہد خرازی

یوم پیدائش 10 مئی 1979

یہ جو ہم شام سے بیٹھے ہوے ہیں
بہت آرام سے بیٹھے ہوے ہیں

کبھی تھے خاص لوگوں میںِ یہ شامل
یہاں جو عام سے بیٹھے ہوے ہیں

انہیں پھر دام میں آنا پڑے گا
جو باہر دام سے بیٹھے ہوے ہیں

تھی ان کی نیک نامی بھی مثالی
جو اب بد نام سے بیٹھے ہوے ہیں

بدل جائیں گے دن ان کے بھی آخر
جو خوں آشام سے بیٹھے ہوے ہیں

ہمیں دفتر سے ہے کیا لینا دینا
تمھارے کام سے بیٹھے ہوے ییں

بڑے ہیں کار آمد ہم خرازی
مگر نا کام سے بیٹھے ہوے ہیں

زاہد خرازی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...