Urdu Deccan

Wednesday, May 25, 2022

شمیم انجم وراثی

یوم پیدائش 20 مئی 1966

احباب ملے ابنِ شریف ابنِ شریف
فطرت سے مگر ابنِ حریف ابنِ حریف
چہرے پہ نظر آئے نمائش کے خلوص
دل ان کا مگر بغض و ریا سے ہے کثیف

شمیم انجم وراثی


 

زاہد وارثی

یوم پیدائش 20 مئی 1965

قیادت کے لئے خنجر بکف ہے
یہ ظالم قوم کتنی ناخلف ہے

چرا کر لے گیا وہ گوہرِ غم
مرا سینہ ہے یا خالی صدف ہے

مجھے لہجے پرکھنے کی ہے عادت
اسے چہرے بدلنے کا شغف ہے

وبا کے خوف سے سہمے ہوئے گھر
تماشہ موت کا چاروں طرف ہے

سخن کے عرش کا روشن ستارہ
کہاں میں ہوں شکیل ابنِ شرف ہے

 وہی محفل، وہی آداب زاہد
مگر اس بار بھی مجھ پر ہدف ہے

زاہد وارثی 


 

صابر چودھری

یوم پیدائش 20 مئی 1982

ترے خلاف ہو جو بھی وہ کامیاب نہ ہو
خدا کرے تجھے الفت میں اضطراب نہ ہو

مرے ادھار سے خائف ہے، تُو بھی پینے لگے
جہاں جہاں بھی تُو ڈھونڈے وہاں شراب نہ ہو

مرے خدا ترے بندے نے کچھ نہیں پایا
جو اب دکھایا ہے تُو نے وہ صرف خواب نہ ہو 

خدا کرے کہ نئی نسل شعر کہنے لگے
خدا کرے کہ نئی نسل یہ خراب نہ ہو 

میں تھک گیا ہوں کمینوں کی خیر خواہی میں
میں ایسے کام کروں گا کہ اب ثواب نہ ہو

میں رات خواب میں کچھ ڈھونڈتا رہا صابر
 سبھی ہوں پھول میسر مگر گلاب نہ ہو

صابر چودھری


 

مینا نقوی

یوم پیدائش 20 نومبر 1955

خودی کو آ گئی ہنسی امید کے سوال پر 
اندھیرے تلملا اٹھے چراغ کی مجال پر 

یہ چاہتوں کا درد ہے یہ قربتوں کا حشر ہے 
جو دھوپ چھپ کے روئی آفتاب کے زوال پر 

یہ جان کر کہ چاند میرے گھر میں جگمگائے گا 
ستارے آج شام سے ہی آ گئے کمال پر 

نظر میں زندگی کی پھول معتبر نہ ہو سکے 
خزاں کو اعتراض تھا بہار سے وصال پر 

خبر یہ دیر سے اڑی کہ موت سے مفر نہیں 
پرند جب اتر چکے شکاریوں کے جال پر 

زمانہ جس کی زندگی میں قدر کچھ نہ کر سکا 
اب آسمان رو رہا ہے اس کے انتقال پر 

کہاں وہ میناؔ چاہتوں کی شدتوں کا سلسلہ 
کہاں یہ بے نیازیاں ہمارے عرض حال پر

مینا نقوی


 

نعیم الدین فضا

یوم پیدائش 19 مئی 1940

ہم نہ کہتے تھے کہ عہدِ زر کا یہ قحطِ نظر
امتیازِ منظرِ شام و سحر لے جائے گا

نعیم الدین فضا



تبسم اخلاق

یوم پیدائش 19 مئی 1964

گومگو میں، اگر مگر میں ہیں
ہم ابھی دست کوزہ گر میں ہیں
 
کوچ کر جائیں یا ٹھہر جائیں
ہم گرفتار دل اثر میں ہیں
 
معتبر ہیں. نظر. میں . دنیا کی
جب تلک ہم تیری نظر میں ہیں
 
اور لوگوں میں کیا بیان کریں
مسئلے جو ہمارے گھر میں ہیں
 
اس سے کہہ دو کہ انتظار کرے
ہم ابھی حالت سفر میں ہیں

تبسم اخلاق


 #

شارق ریاض

یوم پیدائش 19 مئی 1989

سب کی نظروں میں مجھے تو معتبر اس نے کیا
ذکر میرا ہر غزل میں جان کر اس نے کیا

مدتوں وہ مجھکو اپنا ہم سفر کہتا رہا
چلتے چلتے راہ میں پھر در بدر اس نے کیا

وہ تو سازش رچ رہا تھا اور میں تھا بے خبر
پھر بھی میرے ساتھ میں پورا سفر اس نے کیا

رہ گزار عشق میں جب جب ہوئی رسوائیاں
مجھ سے الفت کا فسانہ مختصر اس نے کیا

آنکھ سے آنسُو ٹپک کر گر پڑے رخسار پر
 شام کو پھر یاد جاناں میں سحر اس نے کیا

پھول خوشبو چاند تارے استعارے ہیں مگر
ان سبھی لفظوں کو میرے نام پر اس نے کیا

دل کی جب سونی حویلی میں صدا گونجی کہیں
ذکر تنہائی میں ان کا رات بھر اس نے کیا

ایک دن شارق تری منزل قریب آ جائے گی
تجھکو بھی کرنا پڑے گا جو سفر اس نے کیا

شارق ریاض



ساجدہ زیدی

یوم پیدائش 18مئی 1927

صبا میں مست خرامی گلوں میں بو نہ رہے
ترا خیال اگر دل کے روبرو نہ رہے
 
ترے بغیر ہر اک آرزو ادھوری ہے 
جو تو ملے تو مجھے کوئی آرزو نہ رہے 

ہے جستجو میں تری اک جہاں کا درد و نشاط 
تو کیا عجب کہ کوئی اور جستجو نہ رہے  

تو ذوق کم طلبی ہے تو آرزو کا شباب 
ہے یوں کہ تو رہے اور کوئی جستجو نہ رہے 

کتاب عمر کا ہر باب بے مزہ ہو جائے 
جو درد میں نہ رہوں اور داغ تو نہ رہے 

خدا کرے نہ وہ افتاد آ پڑے ہم پر 
کہ جان و دل رہیں اور تیری آرزو نہ رہے 

ترے خیال کی مے دل میں یوں اتاری ہے 
کبھی شراب سے خالی مرا سبو نہ رہے 

وہ دشت درد سہی تم سے واسطہ تو رہے 
رہے یہ سایۂ گیسوئے مشک بو نہ رہے 

کرو ہمارے ہی داغوں سے روشنی تم بھی 
بڑا ہے درد کا رشتہ دوئی کی بو نہ رہے 

نہیں قرار کی لذت سے آشنا یہ وجود 
وہ خاک میری نہیں ہے جو کو بہ کو نہ رہے 

اس التہاب میں کیسے غزل سرا ہو کوئی 
کہ ساز دل نہ رہے خوئے نغمہ جو نہ رہے 

سفر طویل ہے اس عمر شعلہ ساماں کا
وہ کیا کرے جسے جینے کی آرزو نہ رہے

ساجدہ زیدی


 

عمر خیام

یوم پیدائش 18 مئی 1048

عمر خیام کی ایک مشہور و معروف رباعی کا منظوم اردو ترجمہ حسب فرمائش فضل احمد ناظم اردو دکن مترجم ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

از منزل کفر تا بہ دین یک نفس است
وز عالم شک تا بہ یقین یک نفس است
این یک نفس عزیز را خوش می دار
کز حاصل عمر ما ہمین یک نفس است

 عمر خیام


کفر کی منزل سے دیں تک بس یہی ہے ایک سانس
عالم شک سے یقیں تک بس یہی ہے ایک سانس
کر بسر تو شاد و خرم رہ کے اپنی زندگی
عمر کا حاصل یہیں تک بس یہی ہے ایک سانس

مترجم احمد علی برقی اعظمی

گنیش بہاری طرز لکھنوی

یوم پیدائش 18مئی 1929

ماحول سازگار کرو میں نشے میں ہوں 
ذکر نگاہ یار کرو میں نشے میں ہوں 

اے گردشو تمہیں ذرا تاخیر ہو گئی 
اب میرا انتظار کرو میں نشے میں ہوں 

میں تم کو چاہتا ہوں تمہیں پر نگاہ ہے 
ایسے میں اعتبار کرو میں نشے میں ہوں 

ایسا نہ ہو کہ سخت کا ہو سخت تر جواب 
یارو سنبھل کے وار کرو میں نشے میں ہوں 

اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا 
ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں 

خود طرزؔ جو حجاب میں ہو اس سے کیا حجاب 
مجھ سے نگاہیں چار کرو میں نشے میں ہوں

گنیش بہاری طرز لکھنوی 



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...