یوم پیدائش 18مئی 1927
صبا میں مست خرامی گلوں میں بو نہ رہے
ترا خیال اگر دل کے روبرو نہ رہے
ترے بغیر ہر اک آرزو ادھوری ہے
جو تو ملے تو مجھے کوئی آرزو نہ رہے
ہے جستجو میں تری اک جہاں کا درد و نشاط
تو کیا عجب کہ کوئی اور جستجو نہ رہے
تو ذوق کم طلبی ہے تو آرزو کا شباب
ہے یوں کہ تو رہے اور کوئی جستجو نہ رہے
کتاب عمر کا ہر باب بے مزہ ہو جائے
جو درد میں نہ رہوں اور داغ تو نہ رہے
خدا کرے نہ وہ افتاد آ پڑے ہم پر
کہ جان و دل رہیں اور تیری آرزو نہ رہے
ترے خیال کی مے دل میں یوں اتاری ہے
کبھی شراب سے خالی مرا سبو نہ رہے
وہ دشت درد سہی تم سے واسطہ تو رہے
رہے یہ سایۂ گیسوئے مشک بو نہ رہے
کرو ہمارے ہی داغوں سے روشنی تم بھی
بڑا ہے درد کا رشتہ دوئی کی بو نہ رہے
نہیں قرار کی لذت سے آشنا یہ وجود
وہ خاک میری نہیں ہے جو کو بہ کو نہ رہے
اس التہاب میں کیسے غزل سرا ہو کوئی
کہ ساز دل نہ رہے خوئے نغمہ جو نہ رہے
سفر طویل ہے اس عمر شعلہ ساماں کا
وہ کیا کرے جسے جینے کی آرزو نہ رہے