Urdu Deccan

Saturday, June 25, 2022

محبوب راہی

یوم پیدائش 20 جون 1939

اچھے نہیں ہیں وقت کے تیور مرے عزیز
رہنا ہے اپنی کھال کے اندر مرے عزیز

تیری منافقت پہ مجھے کوئی شک نہیں
میرے رفیق میرے برادر مرے عزیز

آ تیری تشنگی کا مداوا ہے میرے پاس
میرا لہو حلال ہے تجھ پر مرے عزیز

احساس جس کا نام ہے وہ چیز مستقل
چبھتی ہے میرے ذہن کے اندر مرے عزیز

اور اس میں تیر کر مجھے ہونا ہے سرخ رو
درپیش ہے لہو کا سمندر مرے عزیز

نادان واہموں کے تعاقب سے باز آ
کوئی نہیں کسی کا یقیں کر مرے عزیز

ممکن جو ہو تو اس سے رہائی دلا مجھے
مجھ پر ہے بار دوش مرا سر مرے عزیز

اظہار حق سے باز کب آتے ہیں ایسے لوگ
راہیؔ ہو یا ہوں شادؔ و مظفرؔ مرے عزیز

محبوب راہی


 

شمیم عباس

یوم پیدائش 19 جون 1948

بڑی سرد رات تھی کل مگر بڑی آنچ تھی بڑا تاؤ تھا
سبھی تاپتے رہے رات بھر ترا ذکر کیا تھا الاؤ تھا

وہ زباں پہ تالے پڑے ہوئے وہ سبھی کے دیدے پھٹے ہوئے
بہا لے گیا جو تمام کو مری گفتگو کا بہاؤ تھا

کبھی مے کدہ کبھی بت کدہ کبھی کعبہ تو کبھی خانقاہ
یہ تری طلب کا جنون تھا مجھے کب کسی سے لگاؤ تھا

چلو مانا سب کو تری طلب چلو مانا سارے ہیں جاں بلب
پہ ترے مرض میں یوں مبتلا کہیں ہم سا کوئی بتاؤ تھا

یہ مباحثے یہ مناظرے یہ فساد خلق یہ انتشار 
جسے دین کہتے ہیں دین دار مری روح پر وہی گھاؤ تھا

مجھے کیا جنون تھا کیا پتا جو جہاں کو روندتا یوں پھرا
کہیں ٹک کے میں نے جو دم لیا تری ذات ہی وہ پڑاؤ تھا

شمیم عباس 



مرزا راحل

یوم پیدائش 19 جون 

ڈھونڈ لیتا ہوں وجہ کوئی نبھانے کے لیے
ورنہ باتیں ہیں کئی چھوڑ کے جانے کے لیے

ہم تھے خود دار سو گمنام رہے ساری عمر 
لوگ کم ظرف بنے نام کمانے کے لیے 

تیرے میسج کو سنبھالا ہے بڑی مدت سے 
دل مچل جائے تو اوقات دکھانے کے لیے 

تو یہ سمجھیں کہ اثر دل پہ نہیں ہوتا ہے
جب کہ پھر موت تو عبرت ہے زمانے کے لیے 

وہ جو بے نام سا اک ربط تھا اب ختم کریں 
خط کے اوراق نکالے ہیں جلانے کے لیے

جب ترے شہر میں عشاق کا مجمع ہوگا
ہم بھی آئیں گے وہاں شعر سنانے کے لیے 

ٹھوکریں کھا کے جو سجدے میں گرا اتنا کہا 
معذرت میرے خدا دیر سے آنے کے لیے

 مرزا راحل
۔

 

آدتیہ پنت ناقد

یوم پیدائش 19 جون 1971

صداقت کی یہاں عزت نہیں ہے 
وفاداری کی کچھ قیمت نہیں ہے 

جہاں سے وہ گیا تھا میں وہیں ہوں 
مگر جینے میں وہ لذت نہیں ہے 

زباں پہ تلخیاں آنکھوں میں غصہ 
مگر کردار میں خست نہیں ہے 

وقار اپنا نہیں کوتاہ لیکن 
ترے رتبے سی بھی قامت نہیں ہے 

رہے مٹی کی خوشبو یاد ہر دم 
تو سانسیں روکتی غربت نہیں ہے 

جہالت میں پلی دنیا میں شاید 
تعقل سے بڑی نعمت نہیں ہے 

چلا چل سر اٹھا کر یار ناقدؔ 
لگی اب تک کوئی تہمت نہیں ہے

آدتیہ پنت ناقد



ابرار کرتپوری

یوم وفات 18جون 2022
نعت

ارتقا کا ،روشنی کا ،خواب کا، تعبیر کا
دینِ احمدؐ راستہ ہے سر بسر تعمیر کا 

روشنی کی منزلیں پنہاں علومِ نو میں ہیں
ہے حصول ِعلم و دانش راستہ تنویر کا

آئیے اب چاند تاروں پر کمندیں ڈال دیں
آیۂ قرآں میں ہم کو حکم ہے تسخیر کا

عظمت ِانساں بھی معراج کی بے مثل ِشب 
اور کمالِ ارتقا سائنس کی تدبیر کا

سب کتابوں سے بشارت جن کے آنے کی ملی
نامِ احمدؐ ہے ہمارے صاحب ِتطہیر کا 

آپؐ کے کردار کا سکہّ جما ہے ہر طرف
دو جہاں میں غلغلہ ہے خلق کی تاثیر کا

بھیجتا ہے خالقِ اکبر محمدؐ پر درود
ہے علَم اونچا مرے سرکار کی توقیر کا

ابرار کرتپوری


اظہر نواز

یوم پیدائش 18 جون 1995

ملتے جلتے ہیں یہاں لوگ ضرورت کے لئے 
ہم ترے شہر میں آئے ہیں محبت کے لئے 

وہ بھی آخر تری تعریف میں ہی خرچ ہوا 
میں نے جو وقت نکالا تھا شکایت کے لئے 

میں ستارہ ہوں مگر تیز نہیں چمکوں گا 
دیکھنے والے کی آنکھوں کی سہولت کے لئے 

تم کو بتلاؤں کہ دن بھر وہ مرے ساتھ رہا 
ہاں وہی شخص جو مشہور ہے عجلت کے لئے 

سر جھکائے ہوئے خاموش جو تم بیٹھے ہو 
اتنا کافی ہے مرے دوست ندامت کے لئے 

وہ بھی دن آئے کہ دہلیز پہ آ کر اظہرؔ 
پاؤں رکتے ہیں مرے تیری اجازت کے لئے

اظہر نواز



ادیب سہیل

یوم پیدائش 18 جون 1927

کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے 
گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے 

کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس 
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے 

اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا 
جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے 

صورت‌ گران عصر کا تھا انتظار کش 
تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے 

روز ازل سے کار گہہ ہست میں سہیلؔ 
دل ہی غم حیات کا محور ملا مجھے

ادیب سہیل



بشریٰ اعجاز

یوم پیدائش 18 جون 1959

محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا 
بھلایا تھا جسے وہ یاد آنا چاہئے تھا 

گری تھیں گھر کی دیواریں تو صحن دل میں ہم کو 
گھروندے کا کوئی نقشہ بنانا چاہئے تھا 

اٹھانا چاہئے تھی راکھ شہر آرزو کی
پھر اس کے بعد اک طوفان اٹھانا چاہئے تھا 

کوئی تو بات کرنا چاہئے تھی خود سے آخر
کہیں تو مجھ کو بھی یہ دل لگانا چاہئے تھا 

کبھی تو اہتمام آرزو بھی تھا ضروری 
کوئی تو زیست کرنے کا بہانا چاہئے تھا 

مری اپنی اور اس کی آرزو میں فرق یہ تھا 
مجھے بس وہ اسے سارا زمانہ چاہئے تھا

بشریٰ اعجاز


معین لہوری رمزی

یوم پیدائش 17 جون 1951

خاموش  نگاہوں میں بھی پیغام بہت ہیں
اور عشق و محبت  کے بھی اصنام  بہت ہیں

تم شہرِ وفا میں رہو نظریں بھی جھکائے
بک جائیں یہ دل شہر میں بے دام  بہت ہیں

ہم ہی نہیں اس شہر میں لاکھوں ہی پڑے ہیں
مردانِ وفا شہر میں گل فام بہت ہیں

ہم  عزت و ناموسِ  نساء رکھتے  ہیں دل میں
چلنا ہو اگر ساتھ تو دو گام بہت ہیں

الفت کی نظر متمعِ  عشاق بہت  ہے
اور عشق میں جو پھنس گئے بدنام بہت ہیں

دل جیت کے جو حد میں  رہے  مرد  وہی ہے
تو عزت و توقیر بھی انعام  بہت ہیں

مرزے کی کہانی میں ہوا جو بھی ہوا  تھا
صحباں کی محبت میں یہ دشنام بہت ہیں

ہو سچی محبت  تو ہیں دشمن بھی ہزاروں
رانجھے کے لئے کہدو کے اقدام  بہت ہیں

معین لہوری رمزی



علیم اللہ حالی

یوم پیدائش 17 جون 1940

اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا
درد بن کر مری رگ رگ میں اتر آئے گا

ریگزاروں سے پرے کھینچ رہا ہے کوئی
جانے کس دشت میں دریا مجھے بھٹکائے گا

بھول جاؤں گا میں جب اپنی نواؤں کی کسک
اس کی آنکھوں میں لہو میرا اتر آئے گا

کوئی پتھر کا نشاں رکھ کے جدا ہوں ہم تم
جانے یہ پیڑ کس آندھی میں اکھڑ جائے گا

ساتھ ہو جا کہ امنڈتی ہوئی لہریں ہیں قریب
جب اتر جائے گا دریا تجھے تڑپائے گا

میں اسی موڑ پہ مل جاؤں گا حالی تجھ سے
تو جہاں بھیڑ میں گم ہو کے بچھڑ جائے گا

علیم اللہ حالی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...