Urdu Deccan

Thursday, July 14, 2022

افراسیاب کامل

یوم پیدائش 01 جولائی 1961

بد قسمتی اٹل ہے جو نسلِ غلام کی
سو ہم نے ہر نظام کی حجت تمام کی
  
تقریبِ مسخراں میں ہیں اب صدرِ محترم
ترتیب میں روش ہی نہیں أحترام کی

پتلا کھڑا کیا تو ہے سانچے میں ریت کا
صورت بنی ہوٸی ہے نہ پختہ نہ خام کی

تھوڑا سا اختلاف تو پتھر ہوں ہاتھ میں
نامعتبر ہے قدر شناسی عوام کی

جو شام مل گئی ہے تو موقع ہے جانیے
اُس دل میں مستقل نہیں صورت قیام کی

دیکھو جسے وہی ہے ہوا کا سوار اب 
طرفہ روش چلی ہے مرے تیز گام کی

مذہب کو کس طرح سے نکالو گے ذہن سے
ملحوظ ہے اسی سے بشارت دوام کی

پیشہ ہے شاعری کا مگر اس کے بین بین 
تنخواہ نام کی ہے نہ تنخواہ کام کی

افراسیاب کامل



کنور بے چین

یوم پیدائش 01 جولائی 1942

دل پہ مشکل ہے بہت دل کی کہانی لکھنا 
جیسے بہتے ہوئے پانی پہ ہو پانی لکھنا 

کوئی الجھن ہی رہی ہوگی جو وہ بھول گیا 
میرے حصے میں کوئی شام سہانی لکھنا 

آتے جاتے ہوئے موسم سے الگ رہ کے ذرا 
اب کے خط میں تو کوئی بات پرانی لکھنا 

کچھ بھی لکھنے کا ہنر تجھ کو اگر مل جائے 
عشق کو اشکوں کے دریا کی روانی لکھنا 

اس اشارے کو وہ سمجھا تو مگر مدت بعد 
اپنے ہر خط میں اسے رات کی رانی لکھنا

کنور بے چین



آصف ثاقب

یوم پیدائش 01 جولائی 1939

نمو کی خاک سے اٹھے گا پھر لہو میرا 
عقب سے وار کرے چاہے جنگ جو میرا 

لکیر کھینچ کے مجھ پہ وہ پھر مجھے دیکھے 
نگار و نقش میں چہرہ ہے ہو بہ ہو میرا 

رقیب تشنہ تو جی بھر کے خاک چاٹے گا 
چٹخ کے ٹوٹ گیا ہاتھ میں سبو میرا 

میں اپنی روح کی تاریکیوں میں جھانک چکا 
نکل سکا نہ کمیں گاہ سے عدو میرا 

یہ روپ اپنے مسیحا کا دیکھ کر ثاقبؔ 
اٹک کے رہ ہی گیا سانس در گلو میرا

آصف ثاقب


l

خلیفہ عبد الحکیم

یوم پیدائش 01 جولائی 1893

آنکھ جس سمت اٹھائی تراکعبہ دیکھا
ذرّے ذرّے کو یہاں ناصیہ فرسا دیکھا

ہے تری راہ میں ہر ایک قدم چشمہ نُور
ہم نے ہر نقشِ قدم کو یدِ بیضا دیکھا

ہم نے ہر ذرّے کو اِک دیدۂ مجنوں پایا
ہرنظر گاہ کو اِک محملِ لیلیٰ دیکھا 

جس کو دعویٰ ہے کہ ہوں خلوتِ جاں میں مستور
شوقِ جلوت میں اُسے انجمن آرا دیکھا

 پھول کا رنگ ہو یا طائرِ گلشن کی ترنگ
 ہم نے ہر رنگ میں اظہارِ تمنا دیکھا

ہے فنا اور بقا زیر و بمِ موج وجود
جس کا ساحل ہی نہیں ہم نے وہ دریا دیکھا

خلیفہ عبد الحکیم 


 

خواجہ شوق

یوم پیدائش 01 جولائی 1925

ایک بے حاصل طلب بے نام اک منزل بنا
ٹوٹنے کے بعد ہی دل در حقیقت دل بنا

منزلیں ہی کیا نیا ہر جادۂ منزل بنا
لیکن اپنے آپ کو پہلے کسی قابل بنا

ہم فریب رنگ و بو کھا کر بھی آگے بڑھ گئے
کم نگاہوں کے لیے ہر مرحلہ مشکل بنا

کس قدر عہد آفریں عالم ہے تیری ذات کا
جو تری محفل میں آیا وہ خود اک محفل بنا

غم سے نا مانوس رہنے تک تھیں ساری تلخیاں
رفتہ رفتہ غم ہی اپنی عمر کا حاصل بنا

پی گئے کتنے ہی آنسو ہم بہ نام زندگی
ایک مدت میں کہیں دل درد کے قابل بنا

جذبۂ منزل سلامت راستوں کی کیا کمی
ہم جدھر نکلے نیا اک جادۂ منزل بنا

ہر مقام زندگی پر تھا مرا عالم جدا
میں کہیں طوفاں کہیں کشتی کہیں ساحل بنا

تبصرے کرنے لگے ہیں لوگ حسب حوصلہ
شوقؔ آسانی سے میں کچھ اور بھی مشکل بنا

خواجہ شوق



بیدل عظیم آبادی

,یوم پیدائش 01 جولائی 1907

خود محبت درد ہے اور درد کا درماں بھی ہے 
ہے یہ وہ مشکل کہ مشکل بھی ہے اور آساں بھی ہے 

عاشق ابروئے جاناں عاشق مژگاں بھی ہے 
دل میں شوق تیغ ہے ذوق لب پیکاں بھی ہے 

میرے گھر آئیں گے وہ لایا ہے مژدہ نامہ بر 
یہ پیام زیست بھی ہے موت کا ساماں بھی ہے 

سچ بتا پروانہ کس کی آتش الفت ہے تیز 
کون سوزندہ بھی ہے اور کون خود سوزاں بھی ہے 

ابتدا موہوم اس کی انتہا معدوم ہے 
یہ کتاب عمر کا مضموں بھی ہے عنواں بھی ہے 

کیا بتائیں تم کو ہم نرخ متاع زندگی 
یہ کبھی بے حد گراں ہے اور کبھی ارزاں بھی ہے 

خوگر جور مسلسل ہو گئے قلب و جگر 
مجھ پر ان کا بھی کرم ہے غیر کا احساں بھی ہے 

چشم جاناں جان لیوا بھی ہے اور جاں بخش بھی 
موت کا باعث بھی ہے اور چشمۂ حیواں بھی ہے 

قطرۂ خوں جو طراز نوک مژگاں تھا کبھی 
اب وہی رنگین گوہر زینت داماں بھی ہے 

رتبۂ عالی ہمارے داغ دل کا دیکھیے 
روکش خورشید بھی رشک مہ تاباں بھی ہے 

کھینچتا ہے کیوں مرے پہلو سے تیر دل نواز 
دل کے بہلانے کا ہمدم اور کچھ ساماں بھی ہے 

یہ کشش کس کی ہے کس کا لطف ہے کس کا کرم 
آج محفل میں کسی کی بیدلؔ خوش خواں بھی ہے

بیدل عظیم آبادی



تبسم فاطمہ

یوم پیدائش 01 جولائی 1972
 نظم ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے

ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے 
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے 
خوشی کے لئے گھر ہی کافی نہیں ہے 
کہ گھر سے الگ کی بھی چاہت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
میں ویرانیوں کی اداسی کی تنہائیوں کی پسند ہوں 
جزیرے بناتی ہوں پھر توڑتی ہوں 
میں خوابوں کو آباد کرتی بھی ہوں راکھ کرتی بھی ہوں 
میں آزاد اڑتا پرندہ ہوں جس کے لئے 
آسماں کی اڑانیں بھی کم پڑ گئی ہیں 
زمیں تھم گئی ہے 
چراغوں کو جلنے کی عادت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
میں نادیدہ خوابوں کا احساس ہوں 
فلک تک جو گونجے وہ آواز ہوں 
دلوں تک جو پہنچے میں وہ ساز ہوں 
گھٹن قید بندش کے احساس سے کورے جذبات سے دور ہوں مطمئن 
میں سمندر ہوں بہتی ہوا اور گرجتی ہوئی موج ہوں 
میں سکندر کولمبس ہوں آزاد ہوں 
کہکشاں سے الگ کہکشاں اور بھی ہیں 
جہانوں میں کیوں خود کو میں قید رکھوں جہاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں 
میری فطرت میں میری طاقت رہی ہے 
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے 
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے

تبسم فاطمہ


 

احمد ہمدانی

یوم پیدائش 01 جولائی 1927

کچھ اس کو یاد کروں اس کا انتظار کروں
بہت سکوت ہے میں خود کو بے قرار کروں

بھروں میں رنگ نئے مضمحل تمنا میں
اداس رات کو آسودۂ بہار کروں

کچھ اور چاہ بڑھاؤں کچھ اور درد سہوں
جو مجھ سے دور ہے یوں اس کو ہم کنار کروں

وفا کے نام پہ کیا کیا جفائیں ہوتی رہیں
میں ہر لباس جفا آج تار تار کروں

وہ میری راہ میں کانٹے بچھائے میں لیکن
اسی کو پیار کروں اس پہ اعتبار کروں

یہ میرے خواب مری زندگی کا سرمایہ
نہ کیوں یہ خواب بھی میں آج نذر یار کروں

احمد ہمدانی



تلوک چند محروم

یوم پیدائش 01 جولائی 1887

دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی
حسن ازل کی جلوہ نمائی نہ ہو سکی

رنگ بہار دے نہ سکے خارزار کو
دست جنوں میں آبلہ سائی نہ ہو سکی

اے دل تجھے اجازت فریاد ہے مگر
رسوائی ہے اگر شنوائی نہ ہو سکی

مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاک
مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی

فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں
ان مشکلوں سے عہد برآئی نہ ہو سکی

غافل نہ تجھ سے اے غم عقبیٰ تھے ہم مگر
دام غم جہاں سے رہائی نہ ہو سکی

منکر ہزار بار خدا سے ہوا بشر
اک بار بھی بشر سے خدائی نہ ہو سکی

خود زندگی برائی نہیں ہے تو اور کیا
محرومؔ جب کسی سے بھلائی نہ ہو سکی

تلوک چند محروم


مناظر عاشق ہرگانوی


یوم پیدائش 01 جولائی 1948

اس کا انداز بھی چہرہ بھی غزل جیسا ہے 
وہ پڑوسی مرا لگتا بھی غزل جیسا ہے 

دیکھنے والو اسے میری نظر سے دیکھو 
یہ مرا چاند سا منا بھی غزل جیسا ہے 

دھرم کے نام پہ یہ قتل کی سازش کچھ سوچ 
تیرے ہمسائے کا بچہ بھی غزل جیسا ہے 

حسن ایسا ہے کہ دیکھو تو لگے تاج محل 
اس پہ وہ شخص سنورتا بھی غزل جیسا ہے 

پت جھڑوں سے بھی ابھرتی ہیں بہاریں عاشقؔ 
رنگ موسم کا بدلتا بھی غزل جیسا ہے

مناظر عاشق ہرگانوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...