بد قسمتی اٹل ہے جو نسلِ غلام کی
سو ہم نے ہر نظام کی حجت تمام کی
تقریبِ مسخراں میں ہیں اب صدرِ محترم
ترتیب میں روش ہی نہیں أحترام کی
پتلا کھڑا کیا تو ہے سانچے میں ریت کا
صورت بنی ہوٸی ہے نہ پختہ نہ خام کی
تھوڑا سا اختلاف تو پتھر ہوں ہاتھ میں
نامعتبر ہے قدر شناسی عوام کی
جو شام مل گئی ہے تو موقع ہے جانیے
اُس دل میں مستقل نہیں صورت قیام کی
دیکھو جسے وہی ہے ہوا کا سوار اب
طرفہ روش چلی ہے مرے تیز گام کی
مذہب کو کس طرح سے نکالو گے ذہن سے
ملحوظ ہے اسی سے بشارت دوام کی
پیشہ ہے شاعری کا مگر اس کے بین بین
تنخواہ نام کی ہے نہ تنخواہ کام کی