Urdu Deccan

Sunday, July 17, 2022

بلال اسود

یوم پیدائش 06 جولائی 1985

جبراً پیاس پہ پہرا ہوتے دیکھا ہے 
میں نے دریا صحرا ہوتے دیکھا ہے
 
آنکھ میں موت کے کالے کالے آنسو ہیں 
خواب میں نیند کو گہرا ہوتے دیکھا ہے 

آنکھیں مونالیزا جیسی ہیں اس کی 
خاموشی کو چہرہ ہوتے دیکھا ہے 

دوڑا آتا ہے اب ہر آوازے پر 
آفیسر کو بہرا ہوتے دیکھا ہے 

جھیل کنارے بیٹھے بیٹھے کیا تم نے 
شام کا رنگ دوپہرا ہوتے دیکھا ہے 

پیڑ کی گردن پر اب آرا رکھ بھی دو 
کس نے کاٹھ کٹہرا ہوتے دیکھا ہے 

بلال اسود


 

عدیل زیدی

یوم پیدائش 06 جولائی 1958

یہ اعجازِ دیر و حرم دیکھتے ہیں
جو دیکھا نہ جائے وہ ہم دیکھتے ہیں

دکھاؤ ہمیں کوئی پُرامن بستی
یہ سب کچھ توہم دم بہ دم دیکھتے ہیں

سنا ہے کہ محشر بپا وہ کرے گا
چلو چل کے اس کے کرم دیکھتے ہیں

محبت سے شاید پکارے کوئی پھر
پلٹ کر بہت گھر کو ہم دیکھتے ہیں

تھا دشوار نظروں کا ہٹنا جدھر سے
ہم اب اس طرف کم سے کم دیکھتے ہیں

دیے جارہے ہیں ثبوتِ وفا وہ
تو لہجے کا ہم زیرِ و بم دیکھتے ہیں

بظاہر عدیل اس سے رشتے بہت ہیں
رکھے گا وہ کتنا بھرم دیکھتے ہیں

عدیل زیدی



حسان عارفی

یوم پیدائش 06 جولائی 1985

اہل دولت بھی کچھ لوگ کیا ہو گئے 
مال و زر ان کے جیسے خدا ہو گئے 

حال مت پوچھئے مجھ سے اس دور کا 
لوگ یوں غرق موج بلا ہو گئے 

کارواں کیسے محفوظ رہ پائے گا 
جو تھے رہزن وہی رہنما ہو گئے 

جن کی ہر شام رندوں میں گزری کبھی 
وہ بھی کچھ روز سے پارسا ہو گئے 

واعظ محترم کو سر میکدہ 
دیکھ کر لوگ حیرت زدہ ہو گئے 

اپنا ہم راز سمجھا ہمیشہ جنہیں 
وہ بھی اب مجھ سے نا آشنا ہو گئے 

دادا عارفؔ کی شفقت کا یہ فیض ہے 
تم جو حسانؔ نغمہ سرا ہو گئے

حسان عارفی



عاطف رئیس صدیقی

یوم پیدائش 06 جولائی 

اُس شخص ہی سے عشق دوبارہ کرو گے تم
تنکے کو یعنی پھر سے سہارا کرو گے تم

سوچو تو کیسے گزرے گی اب زندگی تمام 
کیسے ہمارے بعد گزارا کرو گے تم

سگریٹ, اداسی, اشک, دکھن, ہجر اور غم
اِس سب کے ساتھ جینا گوارا کرو گے تم؟

دنیا سے کٹ کے جھیل پہ بیٹھو گے سارا دن
کنکر ہی پانیوں میں یوں مارا کرو گے تم

آسان بھی نہیں ہے مجھے بھول جانا یار
ان کوششوں میں روز ہی ہارا کرو گے تم

نقصان جو دلوں کا ہوا, اُس کی خیر ہے
لیکن جو زندگی کا خسارا کرو گے تم؟

رکّھے ہوئے ہیں لوگ یہاں جاں ہتھیلی پر
ہلکا سا صرف ایک اشارہ کرو گے تُم

ہر ایک چیز ہو گی وہاں آنسوؤں سے تر
جِن وادیوں میں ذکر ہمارا کرو گے تم

میں جانتا ہوں یاد تمھیں میری آئے گی
جب ٹہنیوں سے پھول اتارا کرو گے تُم

عاطف رئیس صدیقی



احمد علی برقی اعظمی

یاد رفتگاں : شیراز ہند جونپور کے ہردلعزیز اور جوانسال سخنور  عزیزی وقار احمد ابن محسن رضا جونپوری کے سانحہ ارتحال پر مںظوم تاثرات و آظہار تعزیت

تاریخ وفات  : 5 جولائی 2022

ہو گئے رخصت جہاں آب و گل سے وہ وقار
گلشن محسن رضا میں تھے جو مثل نوبہار
چھوٹے بھائی کی ہے رحلت حادثہ اک دلفگار
غمزدہ ہیں فرط غم سے سرفراز و افتخار
صدمہ جانکاہ ہے سب کے لئے ان کی وفات
آتے آتے آئے گا اس بیقراری کو قرار
جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند
برگذیدہ لوگوں میں ان کا ویاں پر ہو شمار
ان کے نیک اعمال کا ان کو ملے اجر عظیم
ان پہ نازل ہو ہمیشہ رحمت پروردگار
ان کے غم میں مضمحل ہیں جملہ اہل جونپور
محفل شعر و ادب میں آج ہیں سب سوگوار
معترف ان کے محاسن کا ہے برقی اعظمی
ان کے گلہائے سخن سے ہیں فضائیں مشکبار

احمد علی برقی اعظمی



Friday, July 15, 2022

وقار احمد وقار جونپوری

یوم وفات 05 جولائی 2022
انا الیہ وانا الیہ راجعون 

ایسا ہو کاش ، کاش ایسا ہو
 سامنے تو ہمارے بیٹھا ہو
 
جاگتی آنکھوں سے تجھے دیکھوں
وہ عجوبہ ہو ، وہ کرشمہ ہو

میں ترے تو مرے لئے بیتاب
دل سے دل کا کچھ ایسا رشتہ ہو 

کر لیا کر کبھی تو یاد مجھے
جب اکیلا ہو جب بھی تنہا ہو

 یہ ضروری نہیں کہ مل جائے
 چاہتا ہو جو ، وہ ہی پورا ہو
 
تب ہی آگے قدم بڑھائیں وقار
 پکا جب عزم اور ارادہ ہو
 
وقار احمد وقار جونپوری 

کتنا اچھا ہو جو بھائی کی طرح بھائی ہو 
 ہندو ہو سِکھ ہو مسلمان ہو عیسائی ہو

ایک ہی خالق و مالک نے بنایا سب کو 
سوچ کر دیکھیں اگر آپ میں دانائی ہو 

نفرت و بغض و عداوت میں مگن ہیں ہم سب 
چاہے جتنی یہاں بدحالی ہو مہنگائی ہو 

ہوتی گر کچھ تو نظر لوگوں کو آہی جاتی
کوئی خوبی ہو تری کوئی تو اچھائی ہو 

حق و انصاف کی نظروں میں برابر ہوں سب 
چاہے پربت ہو کوئی چاہے کوئی رائی ہو

وقار احمد وقار جونپوری 

 

علیم اطہر

یوم پیدائش 05 جولائی 1971

مری جبیں پہ شکن دیکھ ، اضطراب بھی دیکھ
جو مجھ میں آگ سا بھڑکے وہ انقلاب بھی دیکھ

یہ رخ کا چاند، بدن کے ستارے، دیکھتا کیا ؟
کبھی تو روح میں آ کر، تو آفتاب بھی دیکھ

یہ ملگجے سے ، بدن پر لباس ، لفاظی 
مہکتی روح کے اندر ،حسیں گلاب بھی دیکھ

 الجھ نہ ،تن کے نشیب و فراز میں ناداں
لبوں سے سرخ، چھلکتی ہوئی، شراب بھی دیکھ

دماغ، دل سے مخاطب ہوا ، یہ کہتے ہوئے
سوال کر ہی چکا ہے، تو پھر جواب بھی دیکھ

تمام دنیا کی بیباکیوں کے شیدائی
تمام دنیا پہ نازل ہوا عتاب بھی دیکھ

علیم اطہر۔



نقی احمد ارشاد

یوم پیدائش 05 جولائی 1920

یہ موت عالم برزخ ہے عارضی پر دہ
حیات وہ موت کی حد میں نہیں ہے تو محدود

جو ہست و نیست میں محدود ہے وجود ترا
تو پھر حیات کا تیری جہاں میں کیا مقصود

ترا وجود نہیں اس جہاں میں بے مقصد
یہ سیرگاہِ تجلّی تیری نہیں مسدود

یقین نہ آئے تو آنکھوں سے کائنات کو دیکھو
کہ اس کا بھی تو تیرے وجود سے ہی وجود

یہ آگ رہتی ہے بجھ کر بھی مثلِ خاکستر
حیات کیا ہے شرارِ حیات کی ہے نمود

اگر ہے ذوق تجسس تو دیکھ آنکھوں سے
ہر ایک ذرہ میں خود آفتاب کا ہے وجود

جو بے کنار ہے بے شک وہ تو سمندر ہے 
نہ تو حباب نہ تو ایک قطرۂ بے بود

وہ ارتقاء کے نظریہ کے کیوں نہ قائل ہوں
وہ جن کی آنکھ فقط اب وہ گل میں ہو محدود

نہ یہ رہے گا سماں اور نہ خاکدانِ وجود
بروز حشر مگر حی کے ہوگا تو موجود

بہت عمیق ہے گو سجر زندگی تیرا
تلاش کر اسی دریا میں گوہر مقصود

نقی احمد ارشاد


 

سیف عرفان

یوم پیدائش 04 جولائی 1992

کوشش تو بارہا تھی مری پر نہ بن سکا
خوابوں کا اک مکاں تو بنا گھر نہ بن سکا

بنتا رہا بگڑتا رہا عمر بھر یہ دل
لیکن تمام عمر یہ پتھر نہ بن سکا

مسند کے آگے اتنا جھکایا ہے اپنا سر
بچوں کا میرے دھڑ تو بنا سر نہ بن سکا

میں مبتلا تو رہ گیا تیرے حصار میں
افسوس یہ کہ میں ترا محور نہ بن سکا

اس کی گلی بلا کی کشادہ گلی تھی سیف
میرے لیے وہاں بھی مگر در نہ بن سکا

سیف عرفان


 

وقاص امیر

یوم پیدائش 04 جولائی 1999

کب لوگوں کے ایسے چہرے ہوتے تھے
پہلے تو بس پتے پیلے ہوتے تھے

دینےوالا تب بھی روزی دیتا تھا 
جب اک گھر میں دس دس بچے ہوتے تھے

اک میں مال مویشی اک میں گھر کے لوگ
گھر میں دو ہی کچے کوٹھے ہوتے تھے

اب تو سب کی اپنی اپنی مسجد ہے
پہلے سب کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے تھے

روکھی سوکھی مل کے کھائی جاتی تھی
اک روٹی کے کتنے ٹکڑے ہوتے تھے

وقاص امیر۔



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...