Urdu Deccan

Saturday, July 30, 2022

امام اعظم

یوم پیدائش 20 جولائی 1960

جو مزے آج ترے غم کے عذابوں میں ملے 
ایسی لذت کہاں ساقی کی شرابوں میں ملے 

ساری دنیا سے نہیں ان کو ہے پردہ لیکن 
وہ ملے جب بھی ملے مجھ کو نقابوں میں ملے 

تیری خوشبو سے معطر ہے زمانہ سارا 
کیسے ممکن ہے وہ خوشبو بھی گلابوں میں ملے 

زندگانی میں نصیحت نہیں کام آتی ہے 
درس اخلاق فقط مجھ کو کتابوں میں ملے 

میں نے پھولوں سے بھی نازک سے سوالات کیے 
مجھ کو پتھر سے ہی الفاظ جوابوں میں ملے 

پیار کے باب میں اب نام کہاں ہے تیرا 
کوئی تحریر وفا کیسے نصابوں میں ملے 

کیا پتہ کل جو بڑی شان میں گم تھا اعظمؔ 
اب وہی شخص تجھے خانہ خرابوں میں ملے

امام اعظم



خاموش غازی پوری

یوم پیدائش 20 جولائی 1932

عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں 
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں 

چشم ساقی سے پیو یا لب ساغر سے پیو 
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں 

نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ہے 
ان کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں 

شیخ کرتا تو ہے مسجد میں خدا کو سجدے 
اس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں 

سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر 
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں 

مے کشی کے لیے خاموش بھری محفل میں 
صرف خیام کا گھر ہو یہ ضروری تو نہیں

خاموش غازی پوری



اعزاز افضل

یوم پیدائش 20 جولائی 1936

یہ شہر یہ خوابوں کا سمندر نہ بچے گا 
جب آگ لگے گی تو کوئی گھر نہ بچے گا 

یا نقش ابھارو کوئی یا عکس کو پوجو 
شیشے کو بچاؤ گے تو پتھر نہ بچے گا 

احساس رقابت سے جبینوں کو بچاؤ 
ٹکرائیں گے سجدے تو کوئی در نہ بچے گا 

اے نیند چھپے رہنے دے دو چار نظارے 
جب آنکھ کھلے گی کوئی منظر نہ بچے گا 

مقتل کی سیاست نہ ہماری نہ تمہاری 
تفریق کرو گے تو کوئی سر نہ بچے گا 

اعزاز افضل



ساغر صدیقی

یوم وفات 19 جولائی 1974

 کوئی تتلی ہے نہ جگنو آہ شامِ بیکسی
 آج دل میں نسترن کی شاخ پھر چبھنے لگی

تونے کیا توڑا گلستاں سے وفا کا ایک پھول
 ہر کلی ہے غیر محرم ہر شگوفہ اجنبی

بے ارادہ چل رہا ہوں زندگی کی راہ پر
میرے مسلک میں نہیں ہے کاروبارِ رہبری

جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے
 وہ شریعت معبدوں کے زیرِ سایہ سوگئی

آگئیں بازار میں بکنے خدا کی عظمتیں
جی اٹھی ہیں خواہشیں اور مرگیا ہے آدمی

میں شعاعوں میں پگھل جاؤں مری فطرت نہیں
 وہ ستارہ ہوں کہ جس کو ڈھونڈتی ہے روشنی
 
 اور کتنی دور ہیں ساغر عدم کی منزلیں
 زندگی سے پوچھ لوں گا راستے میں گر ملی 
 
ساغر صدیقی 



ضیاء الرحمن اعظمی

شکستہ پائیاں ہیں جان و دل بھی چور ہیں ساقی
حمیت کے کلیجے میں بڑے ناسور ہیں ساقی

ادھر غیرت کی خشکی ہے نہ گولر ہے نہ بیری ہے
مگر جس سمت چمچے ہیں ادھر انگور ہیں ساقی

تقرب ہائے افسر ہے نہ عیش مرغ و ماہی ہے
ابھی دفتر کے آنے پر بھی ہم مجبور ہیں ساقی

سبھی معصوم و صادق لائق تعزیر ہو بیٹھے
تری سرکار کے کیسے عجب دستور ہیں ساقی

خودی کی پاسداری میں سکون جاں گنوا بیٹھے
بیاباں میں بھٹکتے ہیں چمن سے دور ہیں ساقی

سیہ حلقے ہیں آنکھوں میں سیاہی رخ پہ بکھری ہے
وفور درد سے گھر میں سبھی لنگور ہیں ساقی

ضیاء الرحمن اعظمی



سعید خان

یوم پیدائش 19 جولائی 1966

کس قدر تجھ کو تری ذات سے ہٹ کر سوچا
حد تو یہ تجھے اوروں سے لپٹ کر سوچا

محو ہو کر تری خوشبو کے گماں میں اکثر
ہم نے صدیوں کو بھی لمحوں میں سمٹ کر سوچا

عشق بنیاد میں شامل تھا سدا سے اپنی
دل کے محور سے نہ ہم نے کبھی ہٹ کر سوچا

فکر کب شور کے پہلو میں نمو پاتی ہے
سوچنے والوں نے آشوب سے کٹ کر سوچا

ہر تعلق میں ترا نقش ابھر آتا ہے
ہم نے جب بھی کسی مورت سے لپٹ کر سوچا

بارہا کر دیا حالات نے مسمار سعیدؔ
اپنی قامت سے نہ ہم نے کبھی گھٹ کر سوچا

سعید خان



سائل نظامی

یوم پیدائش 17 جولائی 1991

اہلِ منصب ہوں، سبک ساری نہیں کر سکتا
شعر سن لیجے، اداکاری نہیں کر سکتا

کچھ بھی کر سکتا ہوں، لیکن مَیں بہ نامِ جدّت
میر و اقبال سے غداری نہیں کر سکتا

اُسے نقّاد سمجھتے ہیں مِرے شہر کے لوگ
ایک بھی بات جو معیاری نہیں کر سکتا

شاعری کارِ مشقّت ہے، سو اِس سے انصاف
دال اور دلیے کا بیوپاری نہیں کر سکتا

جس طرح بولتا ہے تیرا دِوانہ سرِ بزم
بات یُوں کوئی بھی درباری نہیں کر سکتا

تیرے سائل کے سوا دشتِ سخن میں کوئی
ہرے لفظوں کی شجرکاری نہیں کر سکتا

سائل نظامی



بدر جمالی

یوم پیدائش 17 جولائی 1926

ہم نے آپ کے غم کو ہم سفر بنایا ہے
یعنی زندگانی کو معتبر بنایا ہے

ہر غم زمانہ کو دل میں دی جگہ ہم نے
خوب جو ملا اس کو خوب تر بنایا ہے

اینٹ اور پتھر کا گھر نہیں ملا تو کیا
دشمنوں کے دل میں بھی ہم نے گھر بنایا ہے

احتیاط سیکھی ہے بے اصول لوگوں سے
ہم کو چند اندھوں نے دیدہ ور بنایا ہے

زیست کے گھروندے کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے
عمر بھر بگاڑا ہے عمر بھر بنایا ہے

بدر جمالی



Sunday, July 17, 2022

غزالہ بٹ

یوم پیدائش 16 جولائی 1970

غم کی صورت بدل گئی ہوگی
زندگی چال چل گئی ہوگی

ورنہ وعدے سے کیوں مکرتا وہ
اس کی نیت بدل گئی ہوگی

ہم نے چاہا بہت چھپانے کو
بات آخر نکل گئی ہوگی

دیکھ کر شدتِ غمِ دوراں
موت بھی آ کے ٹل گئی ہوگی

دیکھ کر اس کے خد و خال حسیں
چاندنی خود ہی ڈھل گئی ہوگی

یاد کر کے غزالہ وہ صورت
کچھ طبیعت بہل گئی ہوگی

غزالہ بٹ



اختر مچھلی شہری

یوم پیدائش 16 جولائی 1991

ہے کیا نبی کی شریعت نہیں سمجھتے کیا 
بڑے بزرگوں کی عظمت نہیں سمجھتے کیا 

یہ اندھ بھکت بھی کیا جانیں ایشور اللّه 
ستم گروں کی شرارت نہیں سمجھتے کیا 

کبھی نماز و اذاں اور کبھی طلاق و حجاب 
یہ روز روز کی نفرت نہیں سمجھتے کیا 

مجھے مٹانے سے پہلے ذرا پڑھو تاریخ 
کہاں ٹلے گی قیامت نہیں سمجھتے کیا 

جسے بھی چاہا اسے رسوا کردیا اختر 
کسی غریب کی عزت نہیں سمجھتے کیا 

اختر مچھلی شہری


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...