Urdu Deccan

Thursday, August 18, 2022

سدرہ سحر عمران

یوم پیدائش 08 اگست 1986

تو حرف آخری مرا قصہ تمام ہے 
تیرے بغیر زندگی کرنا حرام ہے 

کرنے ہیں تیرے جسم پہ اک بار دستخط 
تاکہ خدا سے کہہ سکوں تو میرے نام ہے 

ہوتا ہے گفتگو میں بہت بار تذکرہ 
یعنی ہوا چراغ کا تکیہ کلام ہے 

پہلے پہل ملی تھی ہمیں شدتوں کی دھوپ 
اب یوں ہے رابطے کی سرائے میں شام ہے 

آخر میں بس نشاں ہیں سحرؔ کچھ سوالیہ 
پھر اس کے بعد داستاں کا اختتام ہے 

سدرہ سحر عمران



فوزیہ اختر ردا

یوم پیدائش 08 اگست 

مرے کمرے میں واحد شے نظر بھر کا اثاثہ تھی
تری تصویر دھندلی سی فقط زر کا اثاثہ تھی

سمٹ کے رہ گئی مجھ میں تخیل کی فراوانی
تمھاری یاد ہی گویا مرے گھر کا اثاثہ تھی

وہ مجھ سے دور جا کر بھی مرے ہی پاس لوٹا تھا
ملن کی چاہ اے فوزی مرے سر کا اثاثہ تھی

مرے اس من کے درپن میں دریچے سوچ کے وا تھے
مری اس روح کی پرواز ہی پر کا اثاثہ تھی

تمھیں بھی ڈھونڈ لائے گا تمھارا یہ دوانہ پن
محبت آخری میری اسی در کا اثاثہ تھی

نہ تھا منظور قسمت کو وگر نہ خیر ہونا تھا
جدائی تجھ سے اے ظالم کسی شر کا اثاثہ تھی

اسی احساس سے دل کو ردا اک خوف لاحق تھا
بچھڑنے کی سزا ہی تو مرے ڈر کا اثاثہ تھی

فوزیہ اختر ردا



اختر شمار

یوم وفات 08 اگست 2022


اس کے نزدیک غم ترک وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

چار دن رہ گئے میلے میں مگر اب کے بھی
اس نے آنے کے لیے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغاز محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلا کچھ بھی نہیں

اے شمارؔ آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتا کچھ بھی نہیں

اختر شمار

محبوب انور

یوم پیدائش 08 اگست 1936

بلندیوں سے نہ ڈالو حقارتوں کی نظر
یہ میرا جسم نہیں آسماں کی مٹی ہے

محبوب انور



شگفتہ شفیق

یوم پیدائش 08 اگست

دل سے پیغام الفت مٹانے کے بعد
کھو دیا پھر تجھے ہم نے پانے کے بعد

وہ سلگتے رہے دل جلانے کے بعد
ہم تو پھر ہنس پڑے ٹوٹ جانے کے بعد

اب تو رستے بھی اپنے جدا ہو گئے
بات بنتی نہیں چوٹ کھانے کے بعد

جائیں جائیں ہمیں کچھ نہیں واسطہ
دل لگی نہ کریں دل جلانے کے بعد

ہم کو اس سے کہاں کوئی انکار ہے
گھر بنا ہے مکاں تیرے جانے کے بعد

جانتی ہوں کہ اس کا ہے شیوہ یہی
وہ رلائے گا ہم کو ہنسانے کے بعد

شادماں وہ نظر آ رہے تھے بہت
کیفیت اپنی غم کی چھپا نے کے بعد

سوچتی ہوں شگفتہؔ عجب بات ہے
ہم نے پایا ہے اس کو گنوانے کے بعد

شگفتہ شفیق



اکبر معصوم

یوم پیدائش 08 اگست 1960

نہ اپنا نام نہ چہرہ بدل کے آیا ہوں
کہ اب کی بار میں رستہ بدل کے آیا ہوں

وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں
میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں

ذرا بھی فرق نہ پڑتا مکاں بدلنے سے
وہ بام و در وہ دریچہ بدل کے آیا ہوں

مجھے خبر ہے کہ دنیا بدل نہیں سکتی
اسی لیے تو میں چشمہ بدل کے آیا ہوں

وہی سلوک وہی بھیک چاہتا ہوں میں
وہی فقیر ہوں کاسہ بدل کے آیا ہوں

مجھے بتاؤ کوئی کام پھر سے کرنے کا
میں اپنا خون پسینہ بدل کے آیا ہوں

میں ہو گیا ہوں کسی نیند کا شراکت دار
میں اک حسین کا تکیہ بدل کے آیا ہوں

سنو کہ جونک لگائی ہے میں نے پتھر میں
میں اک نگاہ کا شیشہ بدل کے آیا ہوں

مرا طریقہ مرا کھیل ہی نرالا ہے
نہ میں زبان نہ لہجہ بدل کے آیا ہوں

وہی اسیر ہوں اور ہے مری وہی اوقات
میں اس جہان میں پنجرہ بدل کے آیا ہوں

اکبر معصوم



حذیفہ ادیب


یوم پیدائش 07 اگست

ندیم! ایسا بھی یارانہ استوار نہیں 
کہ جس میں سلسلہءِ جرم و اعتذار نہیں 

بس ایک لفظ وفا پر کھرے اتر جاؤ
محبتوں کے تقاضے تو بے شمار نہیں

 ہمارے شہر کا دستور ہی الگ ٹھہرا
یہاں کسی کو کسی پر بھی اعتبار نہیں

ابھی پرندوں کو پنجرے میں بند رہنے دو
۔ابھی حیات کا ماحول خوشگوار نہیں۔

میں بدنصیب کہ تنہا ہی اس کا مالک ہوں
متاعِ غم کا مرے کوئی حصہ دار نہیں

 یہی مآل ہے یک طرفہ عشق کا یارو! 
میں بیقرار ہوں لیکن وہ بیقرار نہیں

تمہیں نظر نہیں آتی ہیں خامیاں خود کی
تمہارے شہر کا آئینہ عکسدار نہیں؟

خدا کے رحم و کرم پر ادیب! زندہ ہوں
مجھے کسی کی عنایت کا انتظار نہیں

حذیفہ ادیب


ذوالفقار علی ذُلفی

تجھ سے بچھڑ کے وقت مِرا کٹ نہیں رہا
میرے دِل و دِماغ سے تُو ہٹ نہیں رہا

سورج مِری حیات کا بھی ڈوبنے کو ہے
آنکھوں سے تیرا عکس مگر چھٹ نہیں رہا

رہنے لگی ہے فکر تری اِس قدر مجھے
اوروں میں اب خیال مِرا بٹ نہیں رہا

جِس کے لیے بِگاڑ دی سارے جہان سے
وہ شخص اپنی بات پہ اب ڈٹ نہیں رہا

شاید مِرے نصیب میں ہوں گے مزید غم
یہ دِل اِسی لیے تو ابھی پھٹ نہیں رہا

ذُلفی مِلا ہے تیری عنایت سے جو مجھے
وہ درد مُدتوں سے مِرا گھٹ نہیں رہا

ذوالفقار علی ذُلفی


شکیل ارمان

یوم پیدائش 07 اگست 1972

اف ! پریشاں ہوں اور سوال نہیں
کیا مرے ضبط کا کمال نہیں

زندگی تو بھی ہے زوال پزیر
اک ترا درد لا زوال نہیں

چاند سے کیوں کسی کو دوں تشبیہ
ہر کوئی صاحب جمال نہیں

دور رہنا کمال ہوتا ہے
ساتھ رہنا کوئی کمال نہیں

جینا مرنا تری خوشی کے لیے
زندگی ! کار بے مثال نہیں

ہم نکل آئے اتنی دور کہ اب
لوٹنے کا کوئی سوال نہیں

تجھ سے مل کر بھی میں کہاں خوش تھا
اب بچھڑ کر بھی کچھ ملال نہیں

اک تمھارے سوا شکیل ارماں
کوئی اپنا شریک حال نہیں

شکیل ارمان



رابعہ پنہاں

یوم پیدائش 07 آگست 1906

سینہ ہے ایک یاس کا صحرا لیے ہوئے 
دل رنگ گلستان تمنا لئے ہوئے 

ہے آہ درد و سوز کی دنیا لیے ہوئے 
طوفان اشک خون ہے گریہ لئے ہوئے 

اک کشتۂ فراق کی تربت پہ نوحہ گر 
داغ جگر میں شمع تمنا لئے ہوئے 

میں اک طرف ہوں شکل خزاں پائمال یاس 
اک سمت وہ بہار کا جلوہ لئے ہوئے 

جانا سنبھل کے اے دل بیتاب بزم میں 
ہے چشم ناز محشر غم زا لئے ہوئے 

سوزاں نہ یہ چمن ہو مرے نور آہ سے 
او گلشن جمال کا جلوہ لئے ہوئے 

مجنوں سے تو حقیقت صحرائے نجد پوچھ 
ہے ذرہ ذرہ جلوۂ لیلیٰ لئے ہوئے 

عشق جنوں نواز رہا بزم ناز میں 
اک اضطراب و شوق کی دنیا لئے ہوئے 

میری تو ہر نگاہ ہے وقف عبودیت 
وہ ہر ادا میں حسن کلیسا لئے ہوئے 

مرہم سے بے نیاز ہے پنہاںؔ یہ زخم دل 
کیا کیا فسوں ہے چشم دل آرا لئے ہوئے 

رابعہ پنہاں



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...