یوم پیدائش 08 اگست 1960
نہ اپنا نام نہ چہرہ بدل کے آیا ہوں
کہ اب کی بار میں رستہ بدل کے آیا ہوں
وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں
میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں
ذرا بھی فرق نہ پڑتا مکاں بدلنے سے
وہ بام و در وہ دریچہ بدل کے آیا ہوں
مجھے خبر ہے کہ دنیا بدل نہیں سکتی
اسی لیے تو میں چشمہ بدل کے آیا ہوں
وہی سلوک وہی بھیک چاہتا ہوں میں
وہی فقیر ہوں کاسہ بدل کے آیا ہوں
مجھے بتاؤ کوئی کام پھر سے کرنے کا
میں اپنا خون پسینہ بدل کے آیا ہوں
میں ہو گیا ہوں کسی نیند کا شراکت دار
میں اک حسین کا تکیہ بدل کے آیا ہوں
سنو کہ جونک لگائی ہے میں نے پتھر میں
میں اک نگاہ کا شیشہ بدل کے آیا ہوں
مرا طریقہ مرا کھیل ہی نرالا ہے
نہ میں زبان نہ لہجہ بدل کے آیا ہوں
وہی اسیر ہوں اور ہے مری وہی اوقات
میں اس جہان میں پنجرہ بدل کے آیا ہوں