یوم پیدائش 03 سپتمبر 1939
تُو ہی جانے ، کوئی نہ جانے ، خوشبو ہے کہ جوہر ہے
لیکن عقل سے باہر ہے تُو ، وہم و گُماں سے اُوپر ہے
تجھ سے رنگ ہے پھولوں میں بھی تجھ سے باغ معطر ہے
تجھ سے چاند ستارے روشن تجھ سے آنکھ منّور ہے
سارا جگ تو بُت خانہ ہے ، میں ہوں بُت ، تُو آزر ہے
میں ہوں تیرا بے بس بندہ ، مالک ہے تو ، داور ہے
جانِ چمن ہے ، روح بدن ہے ، نکہت و نور کا مصدر ہے
سارے جہاں کی ایک اک شے میں تیراحسن ہی مضمر ہے
تو ہی میرے دل کی دھڑکن ، تو ہی میرے لب پر ہے
تو ہی میرے سانسوں کی رَو ، تو ہی روح کے اندر ہے
فلسفیوں میں، عقدہ وروں میں، ایٹم ہے تو جوہر ہے
اہل عرفاں، اہل دیں میں ، نور کا تو اک مصدر ہے
ساری دنیا بُت خانہ ہے ، ہر بت کا تُو آزر ہے
تیرے بتوں کی شان نرالی ہر بُت تیرا مہظر ہے
صحرا گلشن، دریا موتی ، چاند ستارے تیرے ہیں
تو ہی سب کا خالق بھی ہے تو ہی سب کا داورہے
کس کس شے کو نام ترا دوں ، تیرے نام بہت سے ہیں
سورج ، پربت ، دھرتی ، بادل ، ہیرا ، سیپی ، گوہر ہے
تو ہے دریا ہم ہیں قطرے تو صحرا سب ذرے ہیں
سب هیں تیری پِیت کے پیاسے سب بادل تو ساگر ہے
تجھ سے جو بھی بے بہرہ ہے صحرا ہے وہ ساگر میں
تیری ذات کے عرفاں ہی سے پتھر بھی اک گوہر ہے
تُوہی بادل تُو ہی سمندر تُو ہی سفینہ تُو ہی بھنور
تُو ہی کھیو نہار بھی میرا ، تو ہی خالقِ اکبر ہے
تیری عطا سے ذہن رسا ہے میرا عرش معلّی تک
تیرے کرم سے سوچ کا سُوتا ، لفظ و بیاں کا ساگر ہے
سارے جھرنے، سارے دریا ، تجھ میں آ کر گرتے ہیں
سارا جگ ہے ساگر جیسا ، تیری ذات سمندر ہے
تو ہی نظر بھی منظر بھی ہے ، ناظر بھی منظور بھی تُو
تُوہی عَرضَ کا خالق بھی ہے تو ہی عَرضَ کا جوہر ہے
تُو ہی پالنہار ہے سب کا ، تو ہی رحمت تو ہی شفیق
تو ہی مرکز ، تو ہی منبع ، تو ہی سب کا محور ہے
ایک اک لفظ ستائش تیری ، ایک اک حرف قصیدہ بھی
ایک اک دائرہ ایک اک نقطہ حمد وثنا کامظہر ہے
اول بھی تُو، آخر بھی تُو، پوشیدہ بھی ،ظاہر بھی
غافِر بھی تو، ساتِر بھی تو ، تو ہی سب کا مقدر ہے
قادر مطلق صرف تو ہی ہے ، تو ہی قضائے مبرم بھی
تیرا حکم نہیں ہے ٹلتا، تو ہی سب سے بہتر ہے
توہی ایک محرک ہے بس عالم ظاہر و باطن کا
محسن اعظم کیسے سمجھے ، تُو تو عقل سے باہر ہے
محسن اعظم ملیح ابادی