Urdu Deccan

Wednesday, September 21, 2022

ہمدم نعمانی

یوم پیدائش 04 سپتمبر 1965

شریر موجوں کا مانا کہ بول بالا ہے
چڑھا ہوا ہے جو دریا اترنےوالا ہے

نہ جانے کتنے غریبوں کا خون ہے اس میں
امیرِ شہر کے منہ میں جو تر نوالا ہے

دیا بجھانے میں سانسیں ہوا کی پھول گئیں
یہ کس کے ہاتھوں کے فانوس نے سنبھالا ہے

بنا کے جہدِ مسلسل کو عزم کی تلوار
بھنور سے میں نے سفینے کو یوں سنبھالا ہے۔

بوقتِ شام موبائل پہ یہ کہا اس نے
سحر تلک یہاں طوفان آنے والا ہے

ادب کے قصر کا روشن چراغ ہے ہمدمؔ
بڑے سلیقے سے قیصر نے جس کو ڈھالا ہے


ہمدم نعمانی

تنویر پھول

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1948

عارض پہ ان کے پھول کھلائیں گے آج ہم
جشنِ بہار مل کے منائیں گے آج ہم

ہم چودھویں کا چاند انھیں یوں دکھائیں گے
آئینہ ان کے سامنے لائیں گے آج ہم

تاریک شب میں جیسے ستارے ہوں ضو فشاں
تاروں سے ان کی مانگ سجائیں گے آج ہم

ان کی حنائی انگلی ہے مضرابِ سازِ دل
الفت کا نغمہ دشت میں گائیں گے آج ہم

گہرائیاں ہیں کتنی نہاں؟ جان جائیں گے
آنکھوں میں ان کی ڈوب ہی جائیں گے آج ہم

کر کے گریز ، ان کو دِوانہ بنائیں گے
دنیا کو اک تماشا دکھائیں گے آج ہم

تنویر پھول


 

جنوں اشرفی

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1942

ماضی کے دریچے سے جب یاد تری آئی
کچھ دل کو ملی راحت کچھ غم کی گھٹا چھائی

یکجا نہ کہیں تجھکو میں نے تو کبھی دیکھا
کیسی ہے تری فطرت کیسی ہے تو ہر جائی

کیا رنج ہو کیا راحت ،ہے دخل مشیت کو
پرنم ہوئی آنکھیں بھی جب لب پہ ہنسی آئی

جنوں اشرفی


 

شمس زبیری


یوم وفات 03 سپتمبر 1999

کچھ اس طرح وہ نگاہیں چرائے جاتے ہیں 
کہ اور بھی مرے نزدیک آئے جاتے ہیں 

اس التفات گریزاں کو نام کیا دیجے 
جواب دیتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں 

نگاہ لطف سے دیکھو نہ اہل دل کی طرف 
دلوں کے راز زبانوں پہ آئے جاتے ہیں 

وہ جن سے ترک تعلق کو اک زمانہ ہوا 
نہ جانے آج وہ کیوں یاد آئے جاتے ہیں 

تمہاری بزم کی کچھ اور بات ہے ورنہ 
ہم ایسے لوگ کہیں بن بلائے جاتے ہیں 

یہ دل کے زخم بھی کتنے عجیب ہیں اے شمسؔ 
بہار ہو کہ خزاں مسکرائے جاتے ہیں

شمس زبیری


حسین مجروح

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1951

مر مٹے جب سے ہم اس دشمن دیں پر صاحب 
پاؤں ٹکتے ہی نہیں اپنے زمیں پر صاحب 

خوش گمانی کا یہ عالم ہے کہ ہر بات کے بیچ 
ہاں کا دھوکہ ہو ہمیں اس کی نہیں پر صاحب 

تخت یاروں کو ہے غم شاہ کی معزولی کا 
اور فدا بھی ہیں نئے تخت نشیں پر صاحب 

ہم تو اک سانولی صورت ہے جسے چاہتے ہیں 
آپ مر جائیں کسی ماہ جبیں پر صاحب 

حسن رنگوں کے تصادم سے جلا پاتا ہے 
جیسے اک خال کسی روئے حسیں پر صاحب 

ہم وہ مجروح زیارت کہ سر محفل بھی 
آنکھ رکھتے ہیں اسی پردہ نشیں پر صاحب

حسین مجروح



محسن اعظم ملیح ابادی

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1939

تُو ہی جانے ، کوئی نہ جانے ، خوشبو ہے کہ جوہر ہے
لیکن عقل سے باہر ہے تُو ، وہم و گُماں سے اُوپر ہے

تجھ سے رنگ ہے پھولوں میں بھی تجھ سے باغ معطر ہے
تجھ سے چاند ستارے روشن تجھ سے آنکھ منّور ہے

سارا جگ تو بُت خانہ ہے ، میں ہوں بُت ، تُو آزر ہے
میں ہوں تیرا بے بس بندہ ، مالک ہے تو ، داور ہے

جانِ چمن ہے ، روح بدن ہے ، نکہت و نور کا مصدر ہے
سارے جہاں کی ایک اک شے میں تیراحسن ہی مضمر ہے

تو ہی میرے دل کی دھڑکن ، تو ہی میرے لب پر ہے
تو ہی میرے سانسوں کی رَو ، تو ہی روح کے اندر ہے

فلسفیوں میں، عقدہ وروں میں، ایٹم ہے تو جوہر ہے
اہل عرفاں، اہل دیں میں ، نور کا تو اک مصدر ہے

ساری دنیا بُت خانہ ہے ، ہر بت کا تُو آزر ہے
تیرے بتوں کی شان نرالی ہر بُت تیرا مہظر ہے

صحرا گلشن، دریا موتی ، چاند ستارے تیرے ہیں
تو ہی سب کا خالق بھی ہے تو ہی سب کا داورہے

کس کس شے کو نام ترا دوں ، تیرے نام بہت سے ہیں
سورج ، پربت ، دھرتی ، بادل ، ہیرا ، سیپی ، گوہر ہے

تو ہے دریا ہم ہیں قطرے تو صحرا سب ذرے ہیں
سب هیں تیری پِیت کے پیاسے سب بادل تو ساگر ہے

تجھ سے جو بھی بے بہرہ ہے صحرا ہے وہ ساگر میں
تیری ذات کے عرفاں ہی سے پتھر بھی اک گوہر ہے

تُوہی بادل تُو ہی سمندر تُو ہی سفینہ تُو ہی بھنور
تُو ہی کھیو نہار بھی میرا ، تو ہی خالقِ اکبر ہے

تیری عطا سے ذہن رسا ہے میرا عرش معلّی تک
 تیرے کرم سے سوچ کا سُوتا ، لفظ و بیاں کا ساگر ہے
 
سارے جھرنے، سارے دریا ، تجھ میں آ کر گرتے ہیں
سارا جگ ہے ساگر جیسا ، تیری ذات سمندر ہے

تو ہی نظر بھی منظر بھی ہے ، ناظر بھی منظور بھی تُو
تُوہی عَرضَ کا خالق بھی ہے تو ہی عَرضَ کا جوہر ہے

تُو ہی پالنہار ہے سب کا ، تو ہی رحمت تو ہی شفیق
تو ہی مرکز ، تو ہی منبع ، تو ہی سب کا محور ہے

ایک اک لفظ ستائش تیری ، ایک اک حرف قصیدہ بھی
ایک اک دائرہ ایک اک نقطہ حمد وثنا کامظہر ہے

اول بھی تُو، آخر بھی تُو، پوشیدہ بھی ،ظاہر بھی
غافِر بھی تو، ساتِر بھی تو ، تو ہی سب کا مقدر ہے

قادر مطلق صرف تو ہی ہے ، تو ہی قضائے مبرم بھی
تیرا حکم نہیں ہے ٹلتا، تو ہی سب سے بہتر ہے

توہی ایک محرک ہے بس عالم ظاہر و باطن کا
محسن اعظم کیسے سمجھے ، تُو تو عقل سے باہر ہے

محسن اعظم ملیح ابادی



معظم علی خاں

یوم پیدائش 03 سپتمبر 1943

سپرد آہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے
یہ دل تباہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

غموں سے شغل رفاقت تو خیر مشکل تھا
مگر نباہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

طلسم جنت آدم تھا رات کا منظر
جو ہم گناہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

ہم اپنے قلب منور کو اے شب احساس
چراغ راہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

مآل حسن نظر پر نظر نہ تھی جن کی
گلوں کی چاہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

شب فراق میں ہم قسمت غزل تیرا
ورق سیاہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

شریک بزم معظمؔ تھے ہم نوا تیرے
جو واہ واہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

معظم علی خاں



ڈاکٹر ہلال فرید

یوم پیدائش 02 سپتمبر 1959

یہ وصال و ہجر کا مسئلہ تو مری سمجھ میں نہ آ سکا 
کبھی کوئی مجھ کو نہ پا سکا کبھی میں کسی کو نہ پا سکا 

کئی بستیوں کو الٹ چکا کوئی تاب اس کی نہ لا سکا 
مگر آندھیوں کا یہ سلسلہ ترا نقش پا نہ مٹا سکا 

مری داستاں بھی عجیب ہے وہ قدم قدم مرے ساتھ تھا 
جسے راز دل نہ بتا سکا جسے داغ دل نہ دکھا سکا 

نہ ہی بجلیاں نہ ہی بارشیں نہ ہی دشمنوں کی وہ سازشیں 
بھلا کیا سبب ہے بتا ذرا جو تو آج بھی نہیں آ سکا 

کبھی روشنی کی طلب رہی کبھی حوصلوں کی کمی رہی 
میں چراغ کو ترے نام کے نہ جلا سکا نہ بجھا سکا 

وہ جو عکس رنگ ہلالؔ تھی وہ جو آپ اپنی مثال تھی 
مجھے آج تک ہے خلش یہی تجھے وہ غزل نہ سنا سکا

ڈاکٹر ہلال فرید



Sunday, September 18, 2022

عمیر نجمی

یوم پیدائش 02 سپتمبر 1986

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے 
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے 

یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گے 
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے 

نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک 
مجھے سخن بیچنا ہے خرچہ نکالنا ہے 

نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ 
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے 

یہ تیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے 
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے 

خیال ہے خاندان کو اطلاع دے دوں 
جو کٹ گیا اس شجر کا شجرہ نکالنا ہے 

میں ایک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلم کار 
مجھے کہانی میں ڈال غصہ نکالنا ہے

عمیر نجمی



آفرین خیر آبادی

یوم پیدائش 02 سپتمبر 1977

ان کے سینوں میں جو ڈر رب کا سمایا ہوتا
بدعت و شرک سے دامن کو بچایا ہوتا

مل ہی جاتا مجھے کچھ لطف و سکوں اے دنیا
تیرے قدموں میں اگر سر نہ جھکایا ہوتا

پھر اترتی ہی نہیں سر سے ردائیں ان کی
شرم کا چہرے پہ غازہ جو لگایا ہوتا

اے خدا میں ہوں طلب گار تری رحمت کی
میں نے ایمان بھی اسلاف سا پایا ہوتا

آفریں بٹتے نہ فرقوں میں کبھی بھی ہم لوگ
ہم نے قرآں کو جو سینے سے لگایا ہوتا

آفرین خیر آبادی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...