Urdu Deccan

Wednesday, September 21, 2022

ارشد جمال حشمی

یوم پیدائش05 سپتمبر 1965

خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 
اک نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

اس نے کیا کیا ستم نہ توڑے ہیں 
دل مرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

ٹوٹتا جا رہا ہے اک اک خواب 
سلسلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

رشتے ناطے تمام ٹوٹ گئے 
سر پھرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

پو پھٹی انگ انگ ٹوٹتا ہے
اور نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

لہریں آ آ کے ٹوٹ جاتی ہیں 
اک گھڑا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

دل کے دریا میں کیسا سنگ گرا 
دائرہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

ناؤ ٹوٹی دو نیم ہے پتوار 
حوصلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

دھاگا کچا سہی مگر ارشدؔ 
یوں بندھا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

ارشد جمال حشمی


 

اختر آزاد

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1946

اب حسن و عشق کے بھی قصے بدل گئے ہیں 
منزل تھی ایک لیکن رستے بدل گئے ہیں

کس پر یقین کیجے یہ دور مطلبی ہے 
لگتا ہے خون کے بھی رشتے بدل گئے ہیں 

آنکھیں بتا رہی ہیں ظاہر ہے حال دل کا 
وہ بے وفا نہیں تھے کتنے بدل گئے ہیں 

ہم جانتے ہیں پھر بھی پہچاننا ہے مشکل 
کچھ دوستوں کے اتنے چہرے بدل گئے ہیں 

ان کو پتہ تھا شاید اک دن لگے گی ٹھوکر 
اچھا ہے وقت سے وہ پہلے بدل گئے ہیں 

جب سے ملی ہے دولت آداب بھول بیٹھے 
اب بات چیت کے بھی لہجے بدل گئے ہیں 

ہے وقت کا تقاضہ چپ چاپ گھر میں رہئے 
چاہت وفا محبت جذبے بدل گئے ہیں 

معصومیت کہیں پر گم ہو گئی ہے اخترؔ 
لگتا ہے شہر جا کر بچے بدل گئے ہیں

اختر آزاد


 

نصیر کوٹی

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1936

اگر خود اپنے مراتب سے آشنا ہو جائے 
ذرا سی دیر میں انسان کیا سے کیا ہو جائے 

نہ جانے کتنے دلوں سے امنڈ پڑے آنسو 
خدا کرے یہ مرا ساز بے صدا ہو جائے 

کسی کتاب کسی رہنما کی حاجت کیا 
ہر ایک نقص اگر شعر میں روا ہو جائے 

عجیب رسم زمانہ ہے اس کو کیا کہئے 
جو دوسروں کو ملائے وہی برا ہو جائے 

دل و نگاہ مکدر ہوں جن کے چہرے سے 
ہمارا ان کا کہیں پھر نہ سامنا ہو جائے 

ہمارے گھر کی جو دشمن بنی ہوئی ہے ابھی 
چلے ہوا تو پریشاں یہی گھٹا ہو جائے

یقین لطف و کرم آپ اگر دلائیں اسے 
نصیرؔ حلقۂ‌‌ اوہام سے رہا ہو جائے

نصیر کوٹی


 

سید جاوید


یوم پیدائش 05 سپتمبر 1976

ہمارے پاس کئی اور زاویے بھی ہیں 
ہم اپنی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے بھی ہیں 

چلو کہ فیصلہ کر لیں ہم آج آپس میں 
یہاں پہ سنگ بھی موجود آئنے بھی ہیں 

ابھی سے خواب کشش بھر رہے ہیں آنکھوں میں 
ابھی تو عشق میں ہم تم نئے نئے بھی ہیں 

اندھیرا دیکھ کے گھبرا نہ جائیے حضرت 
ہم اپنے گھر کو کسی دن چراغتے بھی ہیں 

ہم اہل دل بھی ہیں اور اہل فن بھی ہیں جاویدؔ 
سخن کشید بھی کرتے تراشتے بھی ہیں

سید جاوید

 

رشمی بھاردواج

یوم پیدائش 04 سپتمبر 1983

زندگی

اے زندگی 
تجھے یوں گزرتے دیکھا 
کبھی گرتے 
تو کبھی سنبھلتے دیکھا 
جب دل چاہا 
تجھے بھر لیں ان بانہوں میں 
ہاتھ سے ریت سا 
پھسلتے دیکھا 
رکھا جو آئنہ 
تیری نگاہوں پر 
تجھ میں خود کو 
سنورتے دیکھا 
کھلی جو آنکھ 
ٹوٹا وہ خواب 
خود میں تجھ کو 
بکھرتے دیکھا 
کچھ جاگی کچھ سوئی 
یوں خود میں ہی کھوئی 
کبھی جلی کبھی بجھی 
سات رنگوں سے سجی 
وقت کی پلکوں پر 
یوں نکھرتے دیکھا 

رشمی بھاردواج


 

فاروق راہب

یوم پیدائش 04 سپتمبر 1945

پھول خوشبو سبز منظر بولتے ہیں 
ہو اگر احساس پتھر بولتے ہیں 

ریت سیپوں سے سمندر بولتے ہیں 
یہ صداؤں کے شناور بولتے ہیں 

خاک میں ہیں شان و شوکت کے امیں اب 
اجڑے محلوں کے کبوتر بولتے ہیں 

بے حسی دنیا میں اتنی بڑھ گئی ہے 
درمیاں اپنوں کے خنجر بولتے ہیں 

فاروق راہب


 

رضوان اللہ علمی

یوم پیدائش 04 سپتمبر 1929

بات کرنے کو جی ترستا ہے
خاک تم سے گلہ کرے کوئی

رضوان اللہ علمی


 

نعیم ثاقب

یوم پیدائش 04 سپتمبر 1958

ہم نے کسی سراب کو جادہ نہیں کیا
اب فیصلہ کیا ہے ارادہ نہیں کیا

خود کو لئے دیئے رکھا شام فراق میں
ہم نے ملال حد سے زیادہ نہیں کیا

 بس صبر اختیار کیا اس کو دیکھ کر
اس بار بازوؤں کو کشادہ نہیں کیا

 ثاقب جو ہم سے بن پڑا ہم نے کیا تو ہے
لیکن یہ دیکھ وعدے پہ وعدہ نہیں کیا 

  نعیم ثاقب



عطا ابن فطرت عطا

یوم پیدائش 04 سپتمبر 1972

ترے خیال کو لفظ و بیاں بناتے ہوئے
اٹھے سحاب ہوا پر دھواں بناتے ہوئے

ہر ایک غنچۂ پژمردہ کھل اٹھا دل کا
بہار آئی چمن کو جواں بناتے ہوئے

سبھی ہیں لوٹ چکے اپنے آشیانوں کو
سروں پہ شام ہوئی آشیاں بناتے ہوئے

اٹھی ہے موج حوادث مرے گلستاں میں
چلی ہوائیں نشاں پر نشاں بناتے ہوئے

سمندروں کا بھی یہ سینہ چیر دیتی ہے
خیال آیا مجھے کشتیاں بناتے ہوئے

عطا انہی کو ملی بحر و بر میں فتح مبیں
جو پانیوں میں چلے بادباں بناتے ہوئے

عطا ابن فطرت عطا


 

عبد الحلیم شرر

یوم پیدائش 04 سپتمبر 1860

معجزہ وہ جو مسیحا کا دکھاتے جاتے
کہہ کے قم قبر سے مردے کو جلاتے جاتے

مرتے دم باغ مدینہ کا نظارا کرتے
دیکھ لیتے چمن خلد کو جاتے جاتے

دیکھ کر نور تجلی کو ترے دیوانے
دھجیاں دامن محشر کی اڑاتے جاتے

بن کے پروانہ مری روح نکلتی تن سے
لو جو اس شمع تجلی سے لگاتے جاتے

اک نظر دیکھتے ہی روئے محمد کی ضیا
غش پہ غش حضرت یوسف کو ہیں آتے جاتے

ہے وہ صحرائے جنوں آپ کے دیوانوں کا
حضرت خضر جہاں ٹھوکریں کھاتے جاتے

ایسا محبوب ہوا کون کہ امت کے لئے
روٹھتے آپ تو اللہ مناتے جاتے

طور پہ حضرت موسیٰ نہ کبھی جل بجھتے
آپ آنکھوں میں جو سرمہ نہ لگاتے جاتے

صف محشر میں الٰہی بہ حضور سرور
نعت پڑھ پڑھ کے یہ شہرت کی مناتے جاتے

عبد الحلیم شرر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...