Urdu Deccan

Wednesday, September 21, 2022

شمس الحق شمس

یوم پیدائش 06 سپتمبر 1941

منزل سے دور ہو گئے منزل کو چھوڑ کر
آؤ نکالیں راہ کوئی دل کو جوڑ کر

ویرانیوں میں شہر بسانے چلے ہو تم
آبادیوں کے منبر و محراب توڑ کر

اپنے لہو سے ہم تو بجھاتے رہے ہیں پیاس
جب سے یزید لے گیا دریا نچوڑ کر

ملاح دے رہا ہے صدا بارہا ہمیں 
خدشہ ہے لے نہ جائے وہ کشتی کو موڑ کر

کمزور مت سمجھ کبھی گر بے نوا ہیں ہم
ایواں ترا ہلائیں گے اک دن جھنجھوڑ کر

 پھولوں کا رنگ اڑ گیا مرجھا گئے شجر
بیٹھے ہوۓ ہیں پنچھی پروں کو سکوڑ کر

ملنے لگا ہے حوصلہ مظلومیت کو شمس
رکھ دیں گے اقتدار کی گردن مروڑ کر

شمس الحق شمس


ساحر لکھنوی

یوم پیدائش 06 سپتمبر 1931

فصل ایسی ہے الفت کے دامن تلے 
ہم جلیں تم جلو ساری دنیا جلے 

تپ کے کندن کی مانند نکھرا جنوں 
جس قدر غم بڑھا بڑھ گئے حوصلے 

دل میں پھیلی ہے یوں روشنی یاد کی 
جیسے ویران مندر میں دیپک جلے 

جشن سے میری بربادیوں کا چلو 
دوستو آؤ شیشے میں شعلہ ڈھلے 

ہر نفس جیسے جینے کی تعزیر ہے 
کتنے دشوار ہیں عمر کے مرحلے 

ہم الجھتے رہے فلسفی کی طرح 
اور بڑھتے گئے وقت کے مسئلے 

موڑ سکتے ہیں دنیا کا رخ آج ہی 
آپ سے کچھ حسیں ہم سے کچھ منچلے 

وقت مجھ سے مرا حافظہ چھین لے 
آگ میں کوئی یادوں کی کب تک چلے 

خندۂ گل سے ساحرؔ نہ بہلیں گے ہم 
تازہ دم میں جنوں کے ابھی ولولے

ساحر لکھنوی


 

محمد بلال

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1979

زمیں نئی تھی عناصر کی خو بدلتی تھی 
ہوا سے پہلے جزیرے پہ دھوپ چلتی تھی 

نگہ بہلنے لگی تھی حسیں مناظر سے 
بس ایک رنج کی حالت نہیں بہلتی تھی 

اس اک چراغ سے چہرے کی دید مشکل تھی 
نظر کی لو کبھی گرتی کبھی سنبھلتی تھی 

ہمارے دشت کو وحشت نہیں ملی تھی ابھی 
سو اس کے دل میں کوئی آب جو مچلتی تھی 

سڑک کا سرمئی دل بچھ رہا تھا پیروں میں 
وہ گل نژاد کہیں سیر کو نکلتی تھی 

ہماری خاک تبرک سمجھ کے لے جاؤ 
ہماری جان محبت کی لو میں جلتی تھی 

محمد بلال


 

محمد زاہد

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1972

یہاں زندگی کے سہارے بہت ہیں 
جو ہے اک بھنور تو کنارے بہت ہیں 

یہ مانا کہ تم ہو سکے نہ کسی کے 
مگر اس جہاں میں تمہارے بہت ہیں 

تری چاہتوں کے طفیل اے خدایا 
جہاں میں ترے غم کے مارے بہت ہیں 

کبھی ایسا لگتا ہے کوئی نہیں ہے 
کبھی یوں ہوا کہ ہمارے بہت ہیں 

غریبی جہالت تشدد ترقی 
سیاست کی دنیا میں نعرے بہت ہیں 

ہمارے خیالوں میں شبنم کے موتی 
حقیقت میں زاہدؔ شرارے بہت ہیں

محمد زاہد


 

ارشد کامل

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1971
نظم چراغ
نہ دوستی نہ دشمنی 
میرا کام تو ہے روشنی 
میں راستے کا چراغ ہوں 
کہو سرپھری ہواؤں سے 
نہ چلیں ٹھمک‌ اداؤں سے 
کبھی پھر کروں گا محبتیں 
ابھی سامنے ہیں ظلمتیں 
یہ اندھیرا پہلے نوچ لوں 
کوئی چال اگلی سوچ لوں 
میں گم ہوں اپنے خیال میں 
یہ جان لو کہ اس لمحے 
میں دل نہیں دماغ ہوں 
میں راستے کا چراغ ہوں 
میرا کام تو ہے روشنی 
نہ دوستی نہ دشمنی 

ارشد کامل



 

شکیل حنیف

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1979

انجان راستوں پہ بھی چلنا پڑا مجھے
نا چاہتے ہوئے بھی بدلنا پڑا مجھے

دل تو نہیں تھا پھر بھی نزاکت تھی وقت کی
موجِ بلا کے ساتھ اچھلنا پڑا مجھے

ہاں خون کھولتا تھا مگر پھر بھی چپ رہا 
اپنے لہو کی آگ میں جلنا پڑا مجھے

باہر رواں ہے موت کا سیلاب تھا پتہ
بچوں کی بھوک دیکھ نکلنا پڑا مجھے

کچھ اس طرح سے اس نے محبت سے بات کی
انکار کرتے کرتے پگھلنا پڑا مجھے

جو دل میں تھا شکیل وہ لب پر بھی آگیا
رازِ وصالِ یار اگلنا پڑا مجھے

شکیل حنیف


 

شگفتہ یاسمین

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1970

مضطرب ہیں سبھی تقدیر بدلنے کے لیے 
کوئی آمادہ ہو شعلوں پہ بھی چلنے کے لیے 

آج کے دور میں جینا کوئی آسان نہیں 
وقت ملتا ہے کہاں گر کے سنبھلنے کے لیے 

زندگی ہم کو قضا سے تو ڈراتی کیوں ہے 
ہم تو ہر وقت ہی تیار ہیں چلنے کے لیے 

راز کیوں سارے زمانے پہ عیاں کرتے ہو 
آنسوؤ ضد نہ کرو گھر سے نکلنے کے لیے

اب کے روٹھے تو صنم تم کو منائیں گے نہیں 
ہم بھی تیار ہیں اب خود کو بدلنے کے لیے

شگفتہ یاسمین



سیف مٹیا برجی

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1950

کس شمع رو نے دیکھو لگائی چمن میں آگ
نسریں میں ، نسترن میں ، گلِ یاسمن میں آگ

سیف مٹیا برجی



شباہت مراد آبادی

یوم پیدائش 05 سپتمبر 1928

راس آئے گی نہ الفت مجھے معلوم نہ تھا
ان سے ہو جائے گے فرقت مجھے معلوم نہ تھا

ان کو مجھ سے ہوئی نفرت مجھے معلوم نہ تھا
اتنی بدلی ہے طبیعت مجھے معلوم نہ تھا

ایک انکار میں یہ رشتۂ دل ٹوٹ گیا
اتنی نازک تھی یہ نسبت مجھے معلوم نہ تھا

چین آتا نہیں آ جاتا ہے جب ان کا خیال
فکر کھو دیتی ہے راحت مجھے معلوم نہ تھا

زندگی کھونا ہے دنیا سے یہ سودا کرنا
مرنا جینے کی ہے قیمت مجھے معلوم نہ تھا

نرم و نازک میں سمجھتا تھا انہیں گل کی طرح
خار بھی ہوتی ہے عورت مجھے معلوم نہ تھا

بزم ہستی سے مرے اٹھنے سے پہلے روحیؔ
تم ہی ہو جاؤ گی رخصت مجھے معلوم نہ تھا

تھے ہمیت کے لیے شکوہ غم ننگ حیات
مجھ کو مارے گی شرافت مجھے معلوم نہ تھا

بات جو میں نے بنائی وہ بگڑتی ہی گئی
ہے خراب اپنی یہ قسمت مجھے معلوم نہ تھا

ورنہ تکمیل تمنا کی نہ خواہش کرتا
زندگی کم ہے شباہتؔ مجھے معلوم نہ تھا

شباہت مراد آبادی



ارشد جمال حشمی

یوم پیدائش05 سپتمبر 1965

خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 
اک نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

اس نے کیا کیا ستم نہ توڑے ہیں 
دل مرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

ٹوٹتا جا رہا ہے اک اک خواب 
سلسلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

رشتے ناطے تمام ٹوٹ گئے 
سر پھرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

پو پھٹی انگ انگ ٹوٹتا ہے
اور نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

لہریں آ آ کے ٹوٹ جاتی ہیں 
اک گھڑا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

دل کے دریا میں کیسا سنگ گرا 
دائرہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

ناؤ ٹوٹی دو نیم ہے پتوار 
حوصلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں 

دھاگا کچا سہی مگر ارشدؔ 
یوں بندھا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

ارشد جمال حشمی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...