منزل سے دور ہو گئے منزل کو چھوڑ کر
آؤ نکالیں راہ کوئی دل کو جوڑ کر
ویرانیوں میں شہر بسانے چلے ہو تم
آبادیوں کے منبر و محراب توڑ کر
اپنے لہو سے ہم تو بجھاتے رہے ہیں پیاس
جب سے یزید لے گیا دریا نچوڑ کر
ملاح دے رہا ہے صدا بارہا ہمیں
خدشہ ہے لے نہ جائے وہ کشتی کو موڑ کر
کمزور مت سمجھ کبھی گر بے نوا ہیں ہم
ایواں ترا ہلائیں گے اک دن جھنجھوڑ کر
پھولوں کا رنگ اڑ گیا مرجھا گئے شجر
بیٹھے ہوۓ ہیں پنچھی پروں کو سکوڑ کر
ملنے لگا ہے حوصلہ مظلومیت کو شمس
رکھ دیں گے اقتدار کی گردن مروڑ کر
شمس الحق شمس