Urdu Deccan

Monday, September 26, 2022

شکیل احمد شکیل

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1954

ہے دل میں نور وفا کے چراغ کے جیسا
چلے بھی آؤ بیاباں ہے باغ کے جیسا

قدم قدم پہ نگاہوں کی جستجو ہے وہی
کسی کا نام ملا ہے سراغ کے جیسا

شراب لطف و کرم اس کی آنکھ سے چھلکی
سرور پھر نے نہ ملا اس ایاغ کے جیسا

شکیل صبر سے لے کام عجلتیں کیسی
وہ محو گشت چمن ہے فراغ کے جیسا

شکیل احمد شکیل



عمر قریشی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1924

یہ مرے جذب محبت کی پذیرائی ہے
وہ بھی کہنے لگے دیوانہ ہے سودائی ہے

ہر طرف تو ہے تری یاد ہے آہٹ تیری
تیری محفل سے تو اچھی مری تنہائی ہے

اس سے بہتر ہے کہ تجدید محبت کر لے
بے وفا بن کے بھی رہنا تری رسوائی ہے

شیشہ‌ٔ جسم ہوا جاتا ہے ٹکڑے ٹکڑے
یہ قیامت ہے کہ ظالم تری انگڑائی ہے

ایسا بدلا ہے زمانہ کہ الٰہی توبہ
جو تماشا تھا وہی آج تماشائی ہے

مطمئن ہوں میں عمرؔ شیشے کے گھر میں رہ کر
پتھروں سے مری صدیوں کی شناسائی ہے

عمر قریشی


محمد اجمل نیازی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1946

بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈھتی ہے 
تھکی ہاری زمیں اپنا زمانہ ڈھونڈھتی ہے 

شجر کٹتے چلے جاتے ہیں دل کی بستیوں میں 
تری یادوں کی چڑیا آشیانہ ڈھونڈھتی ہے 

یقیں کی سر زمیں ظاہر ہوئی اجڑے لہو میں 
یہ ارض بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈھتی ہے 

بھٹکتی ہے تجھے ملنے کی خواہش محفلوں میں 
یہ خواہش خواہشوں میں آستانہ ڈھونڈھتی ہے 

ترے غم کا خمار اترا ادھوری کیفیت میں 
یہ کیفیت کوئی موسم پرانا ڈھونڈھتی ہے 

بکھرتا ہوں جدائی کی اکیلی وسعتوں میں 
یہ ویرانی مرے گھر میں ٹھکانہ ڈھونڈھتی ہے 

مری مٹی سجائی جا رہی ہے آنگنوں میں 
یہ رستوں پر تڑپنے کا بہانہ ڈھونڈھتی ہے 

محمد اجمل نیازی



سحر عشق آبادی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1903

تکمیل عشق جب ہو کہ صحرا بھی چھوڑ دے
مجنوں خیال محمل لیلا بھی چھوڑ دے

کچھ اقتضائے دل سے نہیں عقل بے نیاز
تنہا یہ رہ سکے تو وہ تنہا بھی چھوڑ دے

یا دیکھ زاہد اس کو پس پردۂ مجاز
یا اعتبار دیدۂ بینا بھی چھوڑ دے

کچھ لطف دیکھنا ہے تو سودائے عشق میں
اے سرفروش سر کی تمنا بھی چھوڑ دے

وہ درد ہے کہ درد سراپا بنا دیا
میں وہ مریض ہوں جسے عیسیٰ بھی چھوڑ دے

آنکھیں نہیں جو قابل نظارۂ جمال
طالب سے کہہ دو ذوق تماشا بھی چھوڑ دے

ہے برق پاشیوں کا گلہ سحرؔ کو عبث
کیا اس کے واسطے کوئی ہنسنا بھی چھوڑ دے

سحر عشق آبادی



عرفان حیدر

یوم پیدائش 15 سپتمبر 

ذکرِ حسن ؓ حسین ؓسخن در سخن رہے
زندہ غمِ حسین ؓ کی یہ انجمن رہے

 یارب مری زبان کو میثم شناس کر
سولی پہ چڑھ کے ذکرِ علی ؓ میں مگن رہے

الحاد، شر، نفاق، ولایت کی دشمنی 
پاکیزہ ہر مرض سے ہمارا وطن رہے

جاری فراتِ چشم ہو پیاسوں کی یاد میں 
اک بے نوا کی یاد میں زخمی بدن رہے 

کرتے نہیں شکست کے ماروں کا تذکرہ 
جاری لبوں پہ قصۂِ فتحِ حسن ؓ رہے 

مجھ کو علی ؓ کے عشق میں دیوانہ کہتے ہیں 
میں چاہتا ہوں یہ میرا دیوانہ پن رہے

حبدار کو نہ غم ہو سوائے غمِ حسین ؓ 
یارب ہرا بھرا یہ عزائی چمن رہے

عرفان یہ دعا ہے خدا وند سے مری
میرے لہو میں عشقِ علی ؓ کی لگن رہے

عرفان حیدر



محبوب اکبر

یوم پیدائش 15 سپتمبر 1969

فرش پر جیسے شکستہ بتِ پندار گرے
اس طرح رات کو سورج کے پرستار گرے

جس کو کشکولِ تمنا میں سجا رکھا تھا
وہ نگینے مری پلکوں سے کئی بار گرے

ایک کہرام سا مچ جاتا ہے گھر کے اندر
روح کے سامنے جب جسم کی دیوا رگرے

خود نمائی سے بچو یہ ہے خودی کی دشمن
جس کی تقلید سے انسان کا کردار گرے

باغباں ہی نہیں پنچھی کو بھی ہوتا ہے ملال
پیڑ جب کوئی گلستاں کا ثمردار گرے

بخش دیتا ہے گناہوں کو یقیناً اس کے
ہو کے شرمندہ جو سجدے میں گنہہ گار گرے

دیکھ کر میرے تخیل کی بلندی اکثر
کچھ کبوتر گرے ، شاہیں گرے ، تغدار گرے

اس طرح سے گرے محبوب مرے دل کا مکاں
جیسے آندھی میں کوئی رات کی دیوار گرے

محبوب اکبر



حسن اثر

یوم پیدائش 15 سپتمبر 1942

ہنسنے لگی ہے رات ، چمکنے لگا ہے شہر
بڑھنے لگی ہیں اپنے بھی گھر کی اداسیاں

حسن اثر


 

خمار بارہ بنکوی

یوم پیدائش 15 سپتمبر 1919

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے

کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے

وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائی دائمی ہے

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے

ارے او جفاؤں پہ چپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے

مرے راہبر مجھ کو گمراہ کر دے
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

خمارؔ بلا نوش تو اور توبہ
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے

خمار بارہ بنکوی



Friday, September 23, 2022

عرفان الحق صائم

یوم پیدائش 14 سپتمبر 1951

دیوار میں امکان کا اک در کوئی کھولے
اوجھل ہے جو آنکھوں سے وہ منظر کوئی کھولے

اب شہر کے اندر بھی تو ہر روز ہے ہجرت
کیا ایسے میں باندھا ہوا بستر کوئی کھولے

رقصاں ہو تو پھر نیند سے اٹھنے نہیں دیتی
اس بادِ صبا کی ذرا جھانجھر کوئی کھولے

جب ان سنی ہر بات کے ہونے کا یقیں ہو
کیوں اپنی شکایات کا دفتر کوئی کھولے

آسیب کے آجانے سے کچھ پہلے عزیزو
ممکن ہو تو اس دل کا ہر اک گھر کوئی کھولے

اب شہر کے ہر شخص کی خواہش ہے یہ صائمؔ
جو باندھ کے رکھا ہے سمندر کوئی کھولے

عرفان الحق صائم


 

شوکت پردیسی

یوم وفات 14 سپتمبر 1995

میرے محبوب مرے دل کو جلایا نہ کرو 
ساز چھیڑا نہ کرو گیت سنایا نہ کرو 

جاؤ آباد کرو اپنی تمناؤں کو 
مجھ کو محفل کا تماشائی بنایا نہ کرو 

میری راہوں میں جو کانٹے ہیں تو کیوں پھول ملیں 
میرے دامن کو الجھنے دو چھڑایا نہ کرو 

تم نے اچھا ہی کیا ساتھ ہمارا نہ دیا 
بجھ چکے ہیں جو دیے ان کو جلایا نہ کرو 

میرے جیسا کوئی پاگل نہ کہیں مل جائے 
تم کسی موڑ پہ تنہا کبھی جایا نہ کرو 

یہ تو دنیا ہے سبھی قسم کے ہیں لوگ یہاں 
ہر کسی کے لیے تم آنکھ بچھایا نہ کرو 

زہر غم پی کے بھی کچھ لوگ جیا کرتے ہیں 
ان کو چھیڑا نہ کرو ان کو ستایا نہ کرو

شوکت پردیسی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...