یوم پیدائش 17 سپتمبر 1951
تمام رنگ جہاں التجا کے رکھے تھے
لہو لہو وہیں منظر انا کے رکھے تھے
کرم کے ساتھ ستم بھی بلا کے رکھے تھے
ہر ایک پھول نے کانٹے چھپا کے رکھے تھے
سکون چہرے پہ ہر خوش ادا کے رکھے تھے
سمندروں نے بھی تیور چھپا کے رکھے تھے
مری امید کا سورج کہ تیری آس کا چاند
دیے تمام ہی رخ پر ہوا کے رکھے تھے
وہ جس کی پاک اڑانوں کے معترف تھے سب
جلے ہوئے وہی شہپر حیا کے رکھے تھے
بنا یزید زمانہ جو میں حسین بنا
کہ ظلم باقی ابھی کربلا کے رکھے تھے
انہیں کو توڑ گیا ہے خلوص کا چہرہ
جو چند آئنے ہم نے بچا کے رکھے تھے
یوں ہی کسی کی کوئی بندگی نہیں کرتا
بتوں کے چہروں پہ تیور خدا کے رکھے تھے
گئے ہیں باب رسا تک وہ دستکیں بن کر
ظفرؔ جو ہاتھ پہ آنسو دعا کے رکھے تھے