Urdu Deccan

Monday, September 26, 2022

شوکت عظیم

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

ہماری روح وہ صندل کا پیڑ ہے جس میں
لپٹ گئی ہے تری یاد ناگنوں کی طرح

شوکت عظیم


 

ذیشان نیازی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1974

کہاں دریا کی طغیانی سے نکلا 
تعلق ریت کا پانی سے نکلا 

کسی کی یاد کا کانٹا تھا دل میں 
بہت مشکل تھا آسانی سے نکلا 

گریباں چاک آوارہ پریشاں 
جنوں صحرا کی ویرانی سے نکلا 

چمکتے چاند کا رشتہ بھی یارو 
رخ جاناں کی تابانی سے نکلا 

جو منظر مصرع اولیٰ میں گم تھا 
وہ منظر مصرع ثانی سے نکلا 

علاج درد دل ذیشانؔ دیکھا 
جنوں کی چاک دامانی سے نکلا 

ذیشان نیازی 



تحسین فراقی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1950

مجھ سا انجان کسی موڑ پہ کھو سکتا ہے 
حادثہ کوئی بھی اس شہر میں ہو سکتا ہے 

سطح دریا کا یہ سفاک سکوں ہے دھوکا 
یہ تری ناؤ کسی وقت ڈبو سکتا ہے 

خود کنواں چل کے کرے تشنہ دہانوں کو غریق 
ایسا ممکن ہے مری جان یہ ہو سکتا ہے 

بے طرح گونجتا ہے روح کے سناٹے میں 
ایسے صحرا میں مسافر کہاں سو سکتا ہے 

قتل سے ہاتھ اٹھاتا نہیں قاتل نہ سہی 
خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ تو دھو سکتا ہے 

جھوم کر اٹھتا نہیں کھل کے برسنا کیسا 
کیسا بادل ہے کہ ہنستا ہے نہ رو سکتا ہے 

جز مرے رشتۂ انفاس گرہ گیر میں کون 
گہر اشک شرر بار پرو سکتا ہے

تحسین فراقی



ظفر مرادآبادی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1951

تمام رنگ جہاں التجا کے رکھے تھے 
لہو لہو وہیں منظر انا کے رکھے تھے 

کرم کے ساتھ ستم بھی بلا کے رکھے تھے 
ہر ایک پھول نے کانٹے چھپا کے رکھے تھے 

سکون چہرے پہ ہر خوش ادا کے رکھے تھے 
سمندروں نے بھی تیور چھپا کے رکھے تھے 

مری امید کا سورج کہ تیری آس کا چاند 
دیے تمام ہی رخ پر ہوا کے رکھے تھے 

وہ جس کی پاک اڑانوں کے معترف تھے سب 
جلے ہوئے وہی شہپر حیا کے رکھے تھے 

بنا یزید زمانہ جو میں حسین بنا 
کہ ظلم باقی ابھی کربلا کے رکھے تھے 

انہیں کو توڑ گیا ہے خلوص کا چہرہ 
جو چند آئنے ہم نے بچا کے رکھے تھے 

یوں ہی کسی کی کوئی بندگی نہیں کرتا 
بتوں کے چہروں پہ تیور خدا کے رکھے تھے 

گئے ہیں باب رسا تک وہ دستکیں بن کر 
ظفرؔ جو ہاتھ پہ آنسو دعا کے رکھے تھے

ظفر مرادآبادی



محمد جلال الدین انصاری

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1932

دریا ہی دکھاتا ہے اکڑ اپنی ہمیشہ
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا

 محمد جلال الدین انصاری


 

راشد ذولفقار

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

بندشیں سخت نہ ہو جائیں مسیحاؤں کی
قید میں اپنی معیشت ہے کلیساؤں کی

قرض میں جکڑی ہوئی قوم کے بے حس حاکم
بود و باش ان کی ہمیشہ سے ہے راجاؤں کی

بے ہنر ہاتھوں میں شمشیر تھمانے کے لئے
پرچیاں کام دکھاتی ہیں شنا ساؤں کی

یوسف وقت سے پوچھو تو ذرا اے لوگو
زد پہ دامن ہے ترا کتنی زلیخاؤں کی

آخری بار ہے ساحل کا نظارا راشد
کشتیاں ڈوب چلیں میری تمناؤں کی

راشد ذولفقار



شکیل احمد شکیل

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1954

ہے دل میں نور وفا کے چراغ کے جیسا
چلے بھی آؤ بیاباں ہے باغ کے جیسا

قدم قدم پہ نگاہوں کی جستجو ہے وہی
کسی کا نام ملا ہے سراغ کے جیسا

شراب لطف و کرم اس کی آنکھ سے چھلکی
سرور پھر نے نہ ملا اس ایاغ کے جیسا

شکیل صبر سے لے کام عجلتیں کیسی
وہ محو گشت چمن ہے فراغ کے جیسا

شکیل احمد شکیل



عمر قریشی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1924

یہ مرے جذب محبت کی پذیرائی ہے
وہ بھی کہنے لگے دیوانہ ہے سودائی ہے

ہر طرف تو ہے تری یاد ہے آہٹ تیری
تیری محفل سے تو اچھی مری تنہائی ہے

اس سے بہتر ہے کہ تجدید محبت کر لے
بے وفا بن کے بھی رہنا تری رسوائی ہے

شیشہ‌ٔ جسم ہوا جاتا ہے ٹکڑے ٹکڑے
یہ قیامت ہے کہ ظالم تری انگڑائی ہے

ایسا بدلا ہے زمانہ کہ الٰہی توبہ
جو تماشا تھا وہی آج تماشائی ہے

مطمئن ہوں میں عمرؔ شیشے کے گھر میں رہ کر
پتھروں سے مری صدیوں کی شناسائی ہے

عمر قریشی


محمد اجمل نیازی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1946

بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈھتی ہے 
تھکی ہاری زمیں اپنا زمانہ ڈھونڈھتی ہے 

شجر کٹتے چلے جاتے ہیں دل کی بستیوں میں 
تری یادوں کی چڑیا آشیانہ ڈھونڈھتی ہے 

یقیں کی سر زمیں ظاہر ہوئی اجڑے لہو میں 
یہ ارض بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈھتی ہے 

بھٹکتی ہے تجھے ملنے کی خواہش محفلوں میں 
یہ خواہش خواہشوں میں آستانہ ڈھونڈھتی ہے 

ترے غم کا خمار اترا ادھوری کیفیت میں 
یہ کیفیت کوئی موسم پرانا ڈھونڈھتی ہے 

بکھرتا ہوں جدائی کی اکیلی وسعتوں میں 
یہ ویرانی مرے گھر میں ٹھکانہ ڈھونڈھتی ہے 

مری مٹی سجائی جا رہی ہے آنگنوں میں 
یہ رستوں پر تڑپنے کا بہانہ ڈھونڈھتی ہے 

محمد اجمل نیازی



سحر عشق آبادی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1903

تکمیل عشق جب ہو کہ صحرا بھی چھوڑ دے
مجنوں خیال محمل لیلا بھی چھوڑ دے

کچھ اقتضائے دل سے نہیں عقل بے نیاز
تنہا یہ رہ سکے تو وہ تنہا بھی چھوڑ دے

یا دیکھ زاہد اس کو پس پردۂ مجاز
یا اعتبار دیدۂ بینا بھی چھوڑ دے

کچھ لطف دیکھنا ہے تو سودائے عشق میں
اے سرفروش سر کی تمنا بھی چھوڑ دے

وہ درد ہے کہ درد سراپا بنا دیا
میں وہ مریض ہوں جسے عیسیٰ بھی چھوڑ دے

آنکھیں نہیں جو قابل نظارۂ جمال
طالب سے کہہ دو ذوق تماشا بھی چھوڑ دے

ہے برق پاشیوں کا گلہ سحرؔ کو عبث
کیا اس کے واسطے کوئی ہنسنا بھی چھوڑ دے

سحر عشق آبادی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...