Urdu Deccan

Thursday, September 29, 2022

کرامت علی کرامت

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1936

وہ سچ کے چہرے پہ ایسا نقاب چھوڑ گیا 
رخ حیات پہ جیسے عذاب چھوڑ گیا 

نتیجہ کوشش پیہم کا یوں ہوا الٹا 
میں آسمان پہ موج سراب چھوڑ گیا 

وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے 
حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا 

بہار بن کے وہ آیا گیا بھی شان کے ساتھ 
کہ زرد پتوں پہ رنگ گلاب چھوڑ گیا 

مرے لہو میں جو آیا تھا میہماں بن کر 
مری رگوں میں وہ اک آفتاب چھوڑ گیا 

گیا تو ساتھ وہ لیتا گیا ہر اک نغمہ 
خلا کی گود میں ٹوٹا رباب چھوڑ گیا 

ملا نہ جذبۂ تشکیک کو لباس کوئی 
وہ ہر سوال کا ایسا جواب چھوڑ گیا 

بکھیرتا ہے کرامتؔ جو درد کی کرنیں
وہ خواب ذہن میں اک ماہتاب چھوڑ گیا

کرامت علی کرامت


آفتاب عالم افتاب

یوم وفات 21 سپتمبر 2021

منہگائی اب سکون کے لمحوں کو کھاگئی
فکرِ معاش پھول سے بچوں کو کھاگئی
حصے لگے تو بھائی ہوئے بھائی کے حریف
گز بھر زمین خون کے رشتوں کو کھاگئی

آفتاب عالم افتاب

 

 

عادل اسیر دہلوی

یوم پیدائش 21 سپتمبر 1959

دیکھو غریب کتنی زحمت اٹھا رہا ہے 
گلیوں میں بھیڑ والی رکشا چلا رہا ہے 

محروم ہے اگرچہ دنیا کی نعمتوں سے 
ہر بوجھ زندگی کا ہنس کر اٹھا رہا ہے
 
برسات میں بھی دیکھو پھرتا ہوا سڑک پر 
رکشا بھی بھیگتا ہے خود بھی نہا رہا ہے
 
گرمی کی دھوپ میں بھی رکتا نہیں ہے گھر میں 
پر پیچ راستوں کے پھیرے لگا رہا ہے 

سردی سے کانپتا ہے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں 
ٹھنڈی ہوا سے خود کو کیسے بچا رہا ہے 

مستی میں دوڑتا ہے رکشا لیے سڑک پر 
نغمہ کوئی سریلا اب گنگنا رہا ہے 

رکشے کے پیڈلوں پر رکھے ہیں پاؤں دونوں 
آنکھیں ہیں راستے پر گھنٹی بجا رہا ہے
 
ماں باپ منتظر ہیں گھر پر سبھی کے عادلؔ 
بچوں کو اب وہ لینے اسکول جا رہا ہے

عادل اسیر دہلوی


 

منیب احمد

یوم پیدائش 20 سپتمبر 

چراغِ زیست ہوں لو اور دھواں بناتا ہوں
ہوا کے ہاتھ پہ اپنا نشاں بناتا ہوں

میں باندھتا ہوں بکھرتے دلوں کا شیرازہ
جہانِ خام سے تازہ جہاں بناتا ہوں

مری شکستہ جبیں سے ستارے پھوٹتے ہیں
میں خاکزاد ہوں اور کہکشاں بناتا ہوں

اسے تسلی سمجھتا ہوں داد جو مل جائے
میں جب بھی شعر کو حرفِ فغاں بناتا ہوں

کئی نقوش مرے تن پہ یوں تو بنتے ہیں
بس اک وہیں نہیں بنتا جہاں بناتا ہوں

بچھڑنے والے بچھڑتے ہیں کب سہولت سے
سو رفتہ رفتہ اُنہیں رفتگاں بناتا ہوں

منیب، بے گھری حیرت سے دیکھتی ہے مجھے
زمیں کے سر پہ میں جب آسماں بناتا ہوں

منیب احمد


 

Monday, September 26, 2022

سعدالحسن

یوم پیدائش 20 سپتمبر 1989

لفظوں کے جال میں الجھاتے ہو کچھ شرم کرو
رات کو تیرگی بتلاتے ہو، کچھ شرم کرو

جھوٹ کہتے ہوئے کچھ آتی نہیں شرم تمہیں
سچ بتاتے ہوئے شرماتے ہو، کچھ شرم کرو

بات جتنی ہو بیاں اتنی ہی کی جاتی ہے
آدھے ایمان پہ اتراتے ہو؟ کچھ شرم کرو

اس کی مرضی وہ ملاقات کرے یا نہ کرے
سرکشی پر اُسے اکساتے ہو؟ کچھ شرم کرو

نہ کوئی آنے کا سندیس نہ جانے کی خبر
پل بھر آتے ہو، چلے جاتے ہو، کچھ شرم کرو

سعدالحسن


 

موہن سنگھ

یوم پیدائش 20 سپتمبر 1905

تعلقات کی دنیا کا حال کیا کہئے 
کہ مرنا سہل ہے جینا محال کیا کہئے 

انہیں جو رازق کل کو بھلا کے کرتے ہیں 
گداگران زماں سے سوال کیا کہئے 

ادب کی محفلوں اور دین کی مجالس میں 
نہ کیف حال نہ لطف مقال کیا کہئے 

حسین آج اتر آئے حسن بازی پر 
یہ جوش و طرز نمود جمال کیا کہئے 

حرام ہو گئی انگور و جو کی سادہ کشید 
لہو غریب کا ٹھہرا حلال کیا کہئے 

فسانہ ساز‌و حق آموز و جابر و رحمان 
ہے پر تضاد بشر کا کمال کیا کہئے 

بس ایک نقش ہے چربے اسی کے اٹھتے ہیں 
فسانہ ہائے عروج و زوال کیا کہئے 

تمام چیزیں ہڑپنے کے بعد بھی بھوکی 
سیاست ایسی ہے لعنت مآل کیا کہئے 

مزاج دہر ہے گویا مزاج عورت کا 
ابھی ہے امن بھی جنگ و جدال کیا کہئے 

تمام چیزیں فراواں بھی ہیں گراں بھی ہیں 
ہے ایک صدق و صداقت کا کال کیا کہئے 

ادیب و ناقد و نقاش و اہل رقص و غنا 
چلیں خوشی سے حکومت کی چال کیا کہئے

موہن سنگھ



نجم آفندی

یوم پیدائش 19 سپتمبر 1893

ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور 
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور 

اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر 
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور 

منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا 
تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور 

اللہ گلہ کر کے میں پچھتایا ہوں کیا کیا 
جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور 

کیا زیر لب دوست ہے اظہار جسارت
حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور 

دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم 
دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور 

یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو 
سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور 

نجم آفندی

علی منظور حیدرآبادی

یوم پیدائش 19 سپتمبر 1896

غم کا گماں یقین طرب سے بدل گیا
احساس عشق حسن کے سانچے میں ڈھل گیا

ساتھ ان کے لے رہا ہوں میں گل گشت کے مزے
یہ خواب ہی سہی مرا جی تو بہل گیا

مجبور عشق چشم فسوں ساز سے ہوں میں
جادو مجھی پہ دوست کا چلنا تھا چل گیا

میں انتظار عید میں تھا عید آ گئی
ارمان دید دامن عشرت میں پل گیا

ہے برق جلوہ یاد مگر یہ نہیں ہے یاد
خرمن مرے غرور کا کس وقت جل گیا

پیمان عشق و حسن کی تجدید کے سوا
جو بھی خیال ذہن میں آیا نکل گیا

بڑھتے چلے ہیں آئے دن اسباب اضطراب
یادش بخیر آج کا وعدہ بھی ٹل گیا

منظورؔ کس زباں سے بتوں کو برا کہیں
ایماں ہمارا کفر کے دامن میں پل گیا

علی منظور حیدرآبادی



اسماعیل ظفر

یوم پیدائش 18 سپتمبر 1949

نہ جانے کون ہے جس کا انتظار مجھے
کسی بھی پہلو نہ ملتا ہے اب قرار مجھے

اگر وہ دوست ہے میرا تو دوریاں کیسی
اگر عدو ہے تو کرنے دے بے قرار مجھے

اگر ہے چاہ کوئی جرم تو سزا دینا
دل و دماغ پہ دے پہلے اختیار مجھے

میں تیری مانگ کو اپنے لہو سے بھر دوں گا
مگر ہے شرط ، محبت سے تو پکار مجھے

زمانے بھر کی خدایا اسے خوشی دے دے
جو کر رہا ہے زمانے میں سوگوار مجھے

مری حیات ، مسلسل غموں کی یورش ہے
ترا کرم ہے ، کیا تو نے شاہ کار مجھے

ہے اعتراف کہ میں ہوں گناہ گار مگر
نہ کرنا روزِ قیامت تو شرم سار مجھے

اسماعیل ظفر


 

نم اعظمی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

کہیں پہ ریت ، کہیں پر ہوں آب جیسا میں
نظر سے حدِّ نظر تک سراب جیسا میں

مرے وجود سے لپٹی ہیں رفعتیں میری
تمھارے شہر میں خانہ خراب جیسا میں

شعاعیں ڈھونڈتی رہتی ہیں میری تعبیریں
اندھیری رات کی پلکوں پہ خواب جیسا میں

مری ہی آگ مجھے روز و شب جلاتی ہے
اسی لیے تو کھلا ہوں گلاب جیسا میں

ہوائے غم نے اڑایا ورق ورق مجھ کو
فضائے دل میں ہوں بکھری کتاب جیسا میں

نم اعظمی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...