Urdu Deccan

Saturday, October 1, 2022

افسر ناروی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1912

تجھ کو جوش جنوں ہوا کیا ہے 
الجھنوں کی مرے دوا کیا ہے 

کرب کیا چیز ہے بلا کیا ہے 
ہم سے پوچھو رہ وفا کیا ہے 

گرد آلود اپنا چہرہ دیکھ 
آئینہ کو تو دیکھتا کیا ہے 

سانس آئے نہ لوٹ کر آئے 
زندگی تیرا آسرا کیا ہے 

شمع تربت سے تو کوئی پوچھے 
تیز رو تند رو ہوا کیا ہے 

اپنے افسر سے بد ظنی کیسی 
محترم دوست یہ ادا کیا ہے

افسر ناروی



امتیاز احمد شہزاد

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1976

خود سے پردہ چاک اب ہونے کو ہے
درد کا ادراک اب ہونے کو ہے

ہو رہی گفتار ہے اذنِ عمل
دل گنہ سے پاک اب ہونے کو ہے

تاک پر یوں منتظر ٹھہری نظر
تکتے تکتے تاک اب ہونے کو ہے

امتیاز احمد شہزاد



عرشم خان نیازی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 

ہاتھ باندھے ہوئے سب رنگ کھڑے ہوتے ہیں
اس کی رنگین کلائی میں کڑے ہوتے ہیں

آدمی قد سے نہیں کام سے جانا جائے
چھوٹی قامت کے کئی لوگ بڑے ہوتے ہیں

کتنی اُلفت ہے انہیں مجھ سے جدھر جاتا ہوں
زخـم ہاتھـوں میں لیے پھول کھڑے ہوتے ہیں

توڑ دیتا میں غرور آپ کا دریا لیکن
اب کسی گاؤں میں سوہنی نہ گھڑے ہوتے ہیں

آج نزدیک سے دیکھی ہیں چمکتی آنکھیں
ایسے موتی کسی خنجر میں جَڑے ہوتے ہیں

ہر اُداسی کا سبب عشق ہو لازم تو نہیں 
اِمتحاں اور بھی دنیا میں کڑے ہوتے ہیں

لینے آتے ہیں سبھی پاؤں کا بوسہ عرشم
جتنے پتھر مِری راہوں میں پڑے ہوتے ہیں

عرشم خان نیازی

ممتاز صنم

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1962

جب مسیحا قاتلوں کے بھیس میں آیا نظر
ہم نے اپنے درد کو اپنا مداوا کرلیا

ممتاز صنم



علی شیداؔ

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1953

تجھ سے منسوب سو بہانے ہیں
لوگ کتنے ترے دوانے ہیں

فہم و ادراک کے دریچے کهول 
درد کے زاوئے سجانے ہیں 

وقت کے دائرے سے ہوں آزاد
قید مجه میں کئی زمانے ہیں 

فاصلے کم کرو دعاوں سے
ہاته ٹوٹے بهی ہو اٹهانے ہیں 

ٹوٹنے دے صدا صدا پایل 
رقص کے دائرے گهمانے ہیں

یوں اندهیروں سے لڑ نہ پاو گے
آو مل کر دئے جلانے ہیں

دیکه تشہیر حرف رسوائی 
خواب آنکهوں سے یا چرانے ہیں

تم حقیقت مرے جنوں کی ہو
رہ نوردی یہ سب بہانے ہیں 

ہجرتیں کب تلک یہ آوارہ
غم جو اتنے کہیں بسانے ہیں 

اب کے موج سخن پہ واہ شیداؔ 
میر کے درد کے زمانے ہیں

علی شیداؔ


 

اثر بہرائچی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1946

طلب کے ساتھ اگر بے خودی نہیں ہوتی
قسم خدا کی خدا آگہی نہیں ہوتی

جسے نصیب نہ ہو آنسوؤں کی تابانی
شب فراق وہ تاروں بھری نہیں ہوتی

ترا ستم بھی نوازش ہے میرے دل کے لئے
 تری خوشی سے مجھے کیا خوشی نہیں ہوتی
 
 رہ حیات کو روشن کرے ہزار خرد
 بغیر دل کے جلے روشنی نہیں ہوتی
 
کسی کے پیار کا نفرت سے دیجئے نہ جواب
مرے حضور! محبت بُری نہیں ہوتی

سنا تھا ہم نے مگر دل لگا کے دیکھ لیا
بتوں میں خوئے وفا واقعی نہیں ہوتی

سلگ رہے ہیں نشیمن مگر یہ کیا ہے اثر
چمن میں پھر بھی کہیں روشنی نہیں ہوتی

اثر بہرائچی


 

سید صادق حسین شاہ

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1898

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

کامیابی کی ہوا کرتی ہے ناکامی دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے

چرخ کج‌ رفتار ہے پھر مائل جور و ستم
بجلیاں شاہد ہیں خرمن کو جلانے کے لیے

نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کو بچانے کے لیے

چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر
مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے

دست و پا رکھتے ہیں اور بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت کو بنانے کے لیے

سید صادق حسین شاہ


جاوید نظامی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1946

چہرے سے عیاں ہوتا نہیں کوئی تردد
لب تک تو دم آنے میں ذرا دیر لگے گی

سینے میں جو پتھر نما شیطان بسا ہے
پتھر کو گرانے میں ذرا دیر لگے گی

قصہ یہ مری جان کا ، دو دن کا نہیں ہے
افسانہ سنانے میں ذرا دیر لگےگی

قد میرا ترے قد کے برابر تو نہیں ہے
یہ فرق مٹانے میں ذرا دیر لگےگی

خادم کو نہ سمجھو کہ تمھارا ہے وہ نوکر
لوگوں کو بتانے میں ذرا دیر لگےگی

آنے کے لئے وہ تو رضا مند ہوئے ہیں
گھر ان کو بلانے میں ذرا دیر لگےگی

جاوید نظامی



حسن بریلوی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1859

مل گیا دل نکل گیا مطلب 
آپ کو اب کسی سے کیا مطلب 

حسن کا رعب ضبط کی گرمی 
دل میں گھٹ گھٹ کے رہ گیا مطلب 

نہ سہی عشق دکھ سہی ناصح 
تجھ کو کیا کام تجھ کو کیا مطلب 

مژدہ اے دل کہ نیم جاں ہوں میں 
اب تو پورا ہوا ترا مطلب 

اپنے مطلب کے آشنا ہو تم 
سچ ہے تم کو کسی سے کیا مطلب 

آتش شوق اور بھڑکی ہے 
منہ چھپانے کا کھل گیا مطلب 

کچھ ہے مطلب تو دل سے مطلب ہے 
مطلب دل سے ان کو کیا مطلب 

ان کی باتیں ہیں کتنی پہلو دار 
سب سمجھ لیں جدا جدا مطلب 

اس کو گھر سے نکال کر خوش ہو 
کیا حسنؔ تھا رقیب کا مطلب

حسن بریلوی



قمر رضا شہزاد

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1958

کسی عشق و رزق کے جال میں نہیں آئے گا 
یہ فقیر اب تری چال میں نہیں آئے گا 

میں منا تو لوں گا اسے مگر وہ انا پرست 
مری سمت اب کسی حال میں نہیں آئے گا 

میں کہوں گا حرف طلب کچھ ایسے کمال سے 
مرا درد میرے سوال میں نہیں آئے گا 

کبھی اپنی ایک جھلک مجھے بھی نواز دے 
کوئی فرق تیرے جمال میں نہیں آئے گا 

یہی محنتوں کا صلہ رہا تو پھر اے خدا 
مجھے لطف رزق حلال نہیں آئے گا 

قمر رضا شہزاد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...