Urdu Deccan

Saturday, October 22, 2022

بشیر سیفی

یوم پیدائش 03 اکٹوبر 1948

اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں 
آواز کا خزینہ شاید تہوں میں پائیں 

گلیوں میں سڑ رہی ہیں بیتے دنوں کی لاشیں 
کمرے میں گونجتی ہیں بے نام سی صدائیں 

ماضی کی یہ عمارت مہماں ہے کوئی دم کی 
دیوار و در شکستہ اور تیز تر ہوائیں 

لیتے ہی ہاتھ میں کیوں اخبار پھاڑ ڈالا 
کیسی خبر چھپی تھی ہم کس کو کیا بتائیں 

شب کی سیہ ندی سے سیفیؔ ابھر کے سوچو 
سورج کی روشنی میں سائے کہاں چھپائیں

بشیر سیفی



Sunday, October 2, 2022

علی رضا نجمی

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1988

انا کی فصل پہ دُگنا لگان دیتے ہوئے 
کٹی ہے عمر یہی امتحان دیتے ہوئے 

نظر چرا کے وہ گزرا ہے آج رستے سے 
جسے خوشی تھی کبھی مجھ پہ جان دیتے ہوئے

محاذِ جنگ پہ سب جا چکے تو یاد آیا
وہ تیر بھول گیا تھا کمان دیتے ہوئے 

یہ سانحہ بھی فقط قابلِ مذمت ہے 
یہ حاکموں نے کہا ہے بیان دیتے ہوئے 

مجھے یقین ہے عہدِ وفا بھلا دے گا 
بدل رہا تھا وہ نظریں زبان دیتے ہوئے

خدا کی ساری رضائیں خرید لیں اُس نے
دہکتی ریت پہ کل خاندان دیتے ہوئے 

پرندے خوفزدہ ہیں علی رضا نجمیِ
امان ان سے نہ چھینو اڑان دیتے ہوئے 

علی رضا نجمی



زین العابدین راشد

یوم پیدائش 02 جون 1958

بغض و نفرت کے اندھیروں کو مٹایا جائے گا
'کب محبت کا دیا دل میں جلایا جائے گا

سر اٹھا کر جو چلیں گے کاذبوں کے شہر میں
ایسے ہی لوگوں کو سولی پر چڑھایا جائے گا

سوچتا ہوں میں یہی اس شہرِ شر میں کس گھڑی
رہبرِ ملت شریفوں کو بنایا جائے گا

ریگ زارِ زندگی میں کھل اٹھیں خوش رنگ پھول
کب مری آنکھوں کو وہ منظر دکھایا جائے گا

کب تک آخر زندگی کی راہ میں اے دوستو
مسئلوں کا بوجھ کاندھوں پر اٹھایا جائے گا

ایک دن آئے گا راشد قتل و خوں کے شہر میں
امن کا پیغام جب سب کو سنایا جائے گا

زین العابدین راشد



شرف موہانی

یوم پیدائش 02 اکتوبر 

زمیں اور بھی ہیں زماں اور بھی ہیں 
ابھی رازِ ہستی نہاں اور بھی ہیں 

فقط دشمنوں کے مقابل نہیں میں 
پسِ پشت خنجر رواں اور بھی ہیں 

رکھو دور اُلفت سے سود و زیاں کو 
یہاں کارِ سود و زیاں اور بھی ہیں 

بڑھاؤ قدم تم بھی اب میری جانب 
ابھی فاصلے درمیاں اور بھی ہیں 

تری بزم میں آ کے حیرت زدہ ہوں 
"یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں" 

تمہیں بس "شرف" یاں سخنور نہیں ہو 
زمانے میں اہلِ زباں اور بھی ہیں 

 شرف موہانی



سعید قدرت

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1947

مرے دل کا نگر بھی بس جاتا
اس طرف بھی کوئی ندی بہتی

سعید قدرت



وقار برکاتی طاہری

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1948

رکھا نہ راز راز کچھ پردۂ زرنگار نے
خود کو چھپایا تو بہت وقت کے تاجدار نے

قصہ نہیں کیا تمام تیغ ستیزہ کار نے
کاٹ کے رکھ دیا مجھے میری ہی تیز دھار نے

تند ہوا کے ہوش بھی اڑ گئے وہ تھا سانحہ
کلمہء حق کیا بلند گرتے ہوئے چنار نے

پیکر شب چراغ نے کر لیا مجھ کو بھی اسیر
یعنی شکار کر لیا خود بھی مرے شکار نے

رکھ تو سہی اے ریگ دل اسکے نشاں سنبھال کر
آتا ہے کون نصف شب مجھ کو یہاں پکارنے

شکوۂ حادثات کیا اپنے غموں کی بات کیا
آیا ہوں میں اے زندگی قرض ترا اتار نے

حکم شہنشہی ہو تو شکوہء ظلم بھی کروں
 ہاتھوں کو کر دیا قلم خود مرے شاہکار نے
 
دست طلب میں ایک روز آ تو گیا وہ اے وقار
مجھ کو بنا دیا فقیر گوہر شاہوار نے

وقار برکاتی طاہری



عظمی سلیم

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1967

لفظوں کو تصویر کیا جاسکتا ہے
ہر جذبہ تحریر کیا جاسکتا ہے

آج کی تاریکی ہی کل روشن ہوگی
خواب کو بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے

دل کی لگامیں تھام کے رکھنا پڑتی ہیں
خواہش کو زنجیر کیا جاسکتا ہے

دل میں جب بھی اپنے گھر کی خواہش ہو
ملبے کو تعمیر کیا جاسکتا ہے

ربط اگر اس قوم میں ہو باہم عظمیٰ
ہر دل کو دل گیر کیا جاسکتا ہے

عظمی سلیم



بدر جمیل

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1946

پہلے تو کبھی وقت یہ ہم پر نہیں آیا 
ہم چلتے رہے چلتے رہے گھر نہیں آیا 

سورج کی ہے بے خبری کہ موسم کی شرارت 
کیوں سایہ مرے قد کے برابر نہیں آیا

کیا لوگ تھے بستی میں کہ جلتی رہی بستی 
اور گھر سے نکل کر کوئی باہر نہیں آیا 

کیوں ولولے محدود ہوئے لفظ و بیاں تک 
کیوں دار تلک کوئی قد آور نہیں آیا 

اس بار بھی کیا یوں ہی گزر جائے گا ساون 
اس بار بھی تو پیڑ پہ پتھر نہیں آیا

بدر جمیل


 

Saturday, October 1, 2022

احمد رحمانی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1909

یہ عجب کرشمہ کار ہے ترا طرفہ نظم بہار ہے 
کہیں پھول ہے کہیں خار ہے کہیں نور ہے کہیں نار ہے 

کہیں کوئی لائق سرزنش ہے تو کوئی برسر دار ہے 
یہ وفا شعاروں کا کھیل ہے یہی عاشقوں کا شعار ہے 

یہ تیرے خیال کی رفعتیں یہ تری نگاہ کی وسعتیں 
یہ ترے شعور کی عظمتیں تیرا اوج عرش وقار ہے 

یہ لحد سے کس کی صدا اٹھی ہے مآل عشق بتاں یہی 
نہ سکون پا سکے جیتے جی نہ قرار زیر مزار ہے 

نہ کسی سے بات بری کہی نہ کسی کی بات بری سنی 
نہ کبھی کسی سے خلش رہی نہ کسی سے دل میں غبار ہے 

نہ کلی کھلی ہے نہ گل ہنسے نہ ہیں بلبلوں کے یہ چہچہے 
اسے فصل گل کوئی کیا کہے یہ بہار کوئی بہار ہے 

نہ جہاں میں جس کا وقار ہو جسے زیست تنگ ہو عار ہو 
جو مصیبتوں کا شکار ہو وہ غریب احمدؔ زار ہے 

احمد رحمانی



احمد رحمانی

کلمہ حق گفتار محمد 
جلوہ حق دیدار محمد 

طور کی شوکت کعبہ کی عظمت عرش کی رفعت خلد کی نزہت 
دربار دُربار محمد 

باخبرانِ رمزِ طریقت نکتہ رسانِ سّر حقیقت 
سرمست وسرشار محمد 

طلعت میں رشک ماہ تاباں غیرت صد خورشید درخشاں 
ذرّۂ رہ گذار محمد 

قبلہ اعظم کعبہ اعظم نور نگاہ عرش معظم 
روضہ پر انوار محمد 

دو گل ترحسنین ہیں جس کے حضرتِ زہرا جس کی کلی ہیں 
صل علی گلزارمحمد 

صدیق وفاروق وعثمان وحیدر یہ چاروں احمدؔ 
اصحاب وغم خوارمحمد

احمد رحمانی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...