اس سے پہلے کہ تعلق کو نبھانا پڑ جائے
درمیاں اپنے مری جان زمانہ پڑ جائے
دسترس ہوتی ہے پھولوں پہ ہمہ وقت مجھے
جانے کب روٹھے وہ کس وقت منانا پڑ جائے
رات کو سوتا ہوں سامانِ ملاقات کے ساتھ
کیا خبر مجھ کو ترے خواب میں آنا پڑ جائے
میں نے اس تتلی سے اک روز یونہی پوچھ لیا
موسمِ گُل میں اگر باغ سے جانا پڑ جائے
ختم ہو جائے انا زادی ترا حسن و جمال
اور پھر تیرے گلے آئنہ خانہ پڑ جائے