Urdu Deccan

Saturday, October 22, 2022

صدیق اکبر

یوم پیدائش 03 اکتوبر 1995

اس سے پہلے کہ تعلق کو نبھانا پڑ جائے
درمیاں اپنے مری جان زمانہ پڑ جائے

دسترس ہوتی ہے پھولوں پہ ہمہ وقت مجھے
جانے کب روٹھے وہ کس وقت منانا پڑ جائے

رات کو سوتا ہوں سامانِ ملاقات کے ساتھ
کیا خبر مجھ کو ترے خواب میں آنا پڑ جائے

میں نے اس تتلی سے اک روز یونہی پوچھ لیا
موسمِ گُل میں اگر باغ سے جانا پڑ جائے

ختم ہو جائے انا زادی ترا حسن و جمال
اور پھر تیرے گلے آئنہ خانہ پڑ جائے

صدیق اکبر



مصطفیٰ دلکش

یوم پیدائش 03 اکتوبر 1966

تو مسیحا ہے تری ایک ادا کافی ہے
جاں بہ لب کو ترے دامن کی ہوا کافی ہے

جب بھی یاد آؤں تصور میں تصور کرنا
مجھ سے ملنے کے لئے اتنا پتہ کافی ہے

میری نظروں کی خطا کم ہے ترے سر کی قسم
میرے دلبر ترے جلوؤں کی خطا کافی ہے

تیری فرقت نے جوانی کا مزہ چھین لیا
چاہنے والے کو بس اتنی سزا کافی ہے

کام آتے نہیں تا عمر یہ مٹی کے چراغ
آپ کی یاد کا بس ایک دیا کافی ہے

ساری دنیا کی دعائیں میں کہاں رکھوں گا
میری بخشش کے لئے ماں کی دعا کافی ہے

پھول کی طرح کھلے ہیں ترے زخموں کے گلاب
اور کیا چاہئے دلکشؔ یہ دوا کافی ہے

مصطفیٰ دلکش


 

کلیم اختر

یوم پیدائش 03 اکتوبر 1968

تیرے میرے گھر کی حالت باہر کچھ اور اندر کچھ 
جیسے ہو پھولوں کی رنگت باہر کچھ اور اندر کچھ 

باہر باہر خاموشی ہے اندر اندر ہنگامہ 
کیسی ہے یہ جسم کی حدت باہر کچھ اور اندر کچھ 

لفظ ہے کچھ اور معنی کچھ ہر مصرعے میں فن کار ہے غم 
ایسے ویسے شعر کی لذت باہر کچھ اور اندر کچھ 

کیوں نہ آنکھ میں آنسو آئے کیوں نہ دل کو چوٹ لگے 
اپنے اپنے دیس کی حالت باہر کچھ اور اندر کچھ 

کوئی نہ شاید جان سکے گا سورج کی متوالی چال 
شہر میں کیوں ہے دھوپ کی شدت باہر کچھ اور اندر کچھ 

گہری نظر والوں میں اخترؔ روشن ہے پہچان الگ 
پھر بھی کیوں ہے آپ کی عزت باہر کچھ اور اندر کچھ 

کلیم اختر



بشیر سیفی

یوم پیدائش 03 اکٹوبر 1948

اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں 
آواز کا خزینہ شاید تہوں میں پائیں 

گلیوں میں سڑ رہی ہیں بیتے دنوں کی لاشیں 
کمرے میں گونجتی ہیں بے نام سی صدائیں 

ماضی کی یہ عمارت مہماں ہے کوئی دم کی 
دیوار و در شکستہ اور تیز تر ہوائیں 

لیتے ہی ہاتھ میں کیوں اخبار پھاڑ ڈالا 
کیسی خبر چھپی تھی ہم کس کو کیا بتائیں 

شب کی سیہ ندی سے سیفیؔ ابھر کے سوچو 
سورج کی روشنی میں سائے کہاں چھپائیں

بشیر سیفی



Sunday, October 2, 2022

علی رضا نجمی

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1988

انا کی فصل پہ دُگنا لگان دیتے ہوئے 
کٹی ہے عمر یہی امتحان دیتے ہوئے 

نظر چرا کے وہ گزرا ہے آج رستے سے 
جسے خوشی تھی کبھی مجھ پہ جان دیتے ہوئے

محاذِ جنگ پہ سب جا چکے تو یاد آیا
وہ تیر بھول گیا تھا کمان دیتے ہوئے 

یہ سانحہ بھی فقط قابلِ مذمت ہے 
یہ حاکموں نے کہا ہے بیان دیتے ہوئے 

مجھے یقین ہے عہدِ وفا بھلا دے گا 
بدل رہا تھا وہ نظریں زبان دیتے ہوئے

خدا کی ساری رضائیں خرید لیں اُس نے
دہکتی ریت پہ کل خاندان دیتے ہوئے 

پرندے خوفزدہ ہیں علی رضا نجمیِ
امان ان سے نہ چھینو اڑان دیتے ہوئے 

علی رضا نجمی



زین العابدین راشد

یوم پیدائش 02 جون 1958

بغض و نفرت کے اندھیروں کو مٹایا جائے گا
'کب محبت کا دیا دل میں جلایا جائے گا

سر اٹھا کر جو چلیں گے کاذبوں کے شہر میں
ایسے ہی لوگوں کو سولی پر چڑھایا جائے گا

سوچتا ہوں میں یہی اس شہرِ شر میں کس گھڑی
رہبرِ ملت شریفوں کو بنایا جائے گا

ریگ زارِ زندگی میں کھل اٹھیں خوش رنگ پھول
کب مری آنکھوں کو وہ منظر دکھایا جائے گا

کب تک آخر زندگی کی راہ میں اے دوستو
مسئلوں کا بوجھ کاندھوں پر اٹھایا جائے گا

ایک دن آئے گا راشد قتل و خوں کے شہر میں
امن کا پیغام جب سب کو سنایا جائے گا

زین العابدین راشد



شرف موہانی

یوم پیدائش 02 اکتوبر 

زمیں اور بھی ہیں زماں اور بھی ہیں 
ابھی رازِ ہستی نہاں اور بھی ہیں 

فقط دشمنوں کے مقابل نہیں میں 
پسِ پشت خنجر رواں اور بھی ہیں 

رکھو دور اُلفت سے سود و زیاں کو 
یہاں کارِ سود و زیاں اور بھی ہیں 

بڑھاؤ قدم تم بھی اب میری جانب 
ابھی فاصلے درمیاں اور بھی ہیں 

تری بزم میں آ کے حیرت زدہ ہوں 
"یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں" 

تمہیں بس "شرف" یاں سخنور نہیں ہو 
زمانے میں اہلِ زباں اور بھی ہیں 

 شرف موہانی



سعید قدرت

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1947

مرے دل کا نگر بھی بس جاتا
اس طرف بھی کوئی ندی بہتی

سعید قدرت



وقار برکاتی طاہری

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1948

رکھا نہ راز راز کچھ پردۂ زرنگار نے
خود کو چھپایا تو بہت وقت کے تاجدار نے

قصہ نہیں کیا تمام تیغ ستیزہ کار نے
کاٹ کے رکھ دیا مجھے میری ہی تیز دھار نے

تند ہوا کے ہوش بھی اڑ گئے وہ تھا سانحہ
کلمہء حق کیا بلند گرتے ہوئے چنار نے

پیکر شب چراغ نے کر لیا مجھ کو بھی اسیر
یعنی شکار کر لیا خود بھی مرے شکار نے

رکھ تو سہی اے ریگ دل اسکے نشاں سنبھال کر
آتا ہے کون نصف شب مجھ کو یہاں پکارنے

شکوۂ حادثات کیا اپنے غموں کی بات کیا
آیا ہوں میں اے زندگی قرض ترا اتار نے

حکم شہنشہی ہو تو شکوہء ظلم بھی کروں
 ہاتھوں کو کر دیا قلم خود مرے شاہکار نے
 
دست طلب میں ایک روز آ تو گیا وہ اے وقار
مجھ کو بنا دیا فقیر گوہر شاہوار نے

وقار برکاتی طاہری



عظمی سلیم

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1967

لفظوں کو تصویر کیا جاسکتا ہے
ہر جذبہ تحریر کیا جاسکتا ہے

آج کی تاریکی ہی کل روشن ہوگی
خواب کو بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے

دل کی لگامیں تھام کے رکھنا پڑتی ہیں
خواہش کو زنجیر کیا جاسکتا ہے

دل میں جب بھی اپنے گھر کی خواہش ہو
ملبے کو تعمیر کیا جاسکتا ہے

ربط اگر اس قوم میں ہو باہم عظمیٰ
ہر دل کو دل گیر کیا جاسکتا ہے

عظمی سلیم



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...