Urdu Deccan

Saturday, October 22, 2022

محمد زمان طالب المولیٰ

یوم پیدائش 04 اکتوبر 1919

یارب! یہ آج دورِ مسلماں کو کیا ہوا
رسوائی بڑھ گئی ہے شبستاں کوکیا ہوا

چھائی ہے آج گلشن مسلم پہ کیوں خزاں
سرسبز وپربہار گلستاں کو کیا ہوا

وہ جوش، وہ امنگ نہیں آج قوم میں
غیرت گئی دلوں سے یہ ایماں کو کیا ہوا

طالب کے دل میں رہتا ہے ہروقت یہ ملال
بس آرزو ، اطاعت قرآن کو کیا ہوا

محمد زمان طالب المولیٰ



اقبال احمد قمر

یوم پیدائش 04 اکتوبر 1959

بات بن جانے کا امکان بھی ہو سکتا ہے 
مسئلہ کہنے سے آسان بھی ہو سکتا ہے 

آپ جس بات کو معمولی سمجھ بیٹھے ہیں 
کوئی اس بات پہ حیران بھی ہو سکتا ہے 

ایک سرگوشی تناور بھی تو ہو سکتی ہے 
تیری ہر بات کا اعلان بھی ہو سکتا ہے 

گمرہی میں جو مری راہبری کو آیا
خود وہ بھٹکا ہوا انسان بھی ہو سکتا ہے 

پیش بندی اسے تم کہتے ہو میری لیکن 
بخدا یہ مرا وجدان بھی ہو سکتا ہے 

تم نے لفظوں میں جو ٹانکا ہے نگینے کی طرح 
وہ کسی اور کا فرمان بھی ہو سکتا ہے 

میرے رستے ہی مری تجربہ گاہیں ہیں قمرؔ 
گرچہ ان راہوں میں نقصان بھی ہو سکتا ہے

اقبال احمد قمر



جمشید مسرور

یوم پیدائش 04 اکتوبر 1946

ہٹ کے اس رہ سے جو ہے وقف بس انکار کے نام 
آؤ پھر شعر کہیں گیسوئے دلدار کے نام 

زہر غم لے تو چلا جاں کو مگر تشنہ لبی 
جرعہ اک اور تمنائے لب یار کے نام 

رسم عشاق ہے یہ اس کو نبھائیں ہم بھی 
ورق جاں کو لکھیں شعلۂ رخسار کے نام 

وہ کرے قتل تو اندیشۂ دشنام نہیں 
ہر رگ جاں کو کریں دشنہ و تلوار کے نام 

شہر پابندیٔ آداب لگا حکم کوئی 
چاک دامن ہے مرا رونق بازار کے نام 

چوب بے برگ سہی دفتر شہہ میں لیکن 
پھول کھلتے ہی رہیں گے سبد دار کے نام 

خواب زاروں پہ رہے دھوپ کے منظر پیہم 
کوئی سورج نہ جلا قریۂ بیدار کے نام 

ہم نے جمشیدؔ لکھے عمر کے سارے موسم 
اس کے ہونٹوں پہ بھٹکتے ہوئے اقرار کے نام

جمشید مسرور

 

نصر غزالی

یوم پیدائش 04 اکتوبر 1938

تعبیر جانتی ہے سر دار کیوں ہوئے
ہم خواب دیکھنے کے گنہ گار کیوں ہوئے 

بازار طوطا چشم سے لوٹو تو پوچھنا
ہم بے مروتی کے خریدار کیوں ہوئے 

ہم پر عتاب دھوپ کا ہے تو سبب بھی ہے 
دشت الم میں سایۂ دیوار کیوں ہوئے 

احباب کی ہے بات کہیں تو کسے کہیں 
ہم سانپ پالنے کے گنہ گار کیوں ہوئے 

پل بھر ہمارے گھر میں بھی پھر ہم سے پوچھنا 
اس کاٹ کھاتی قبر سے بیزار کیوں ہوئے 

طرفہ نہ کیوں لہو کا ہو بے حد و بے حساب 
ہم شہر کاروبار میں فن کار کیوں ہوئے 

ہاں لائق سزا ہیں کہ بزم غزل میں بھی 
ہم لوگ مرثیہ کے طلب گار کیوں ہوئے

نصر غزالی



طحہ صدیقی

یوم پیدائش 03 اکتوبر 1970

ان سے پوچھو نہ بے رخی کیا ہے
دیکھو اخلاص میں کمی کیا ہے

جب منور ہو نور سے یہ دل
"چاند تاروں کی روشنی کیا ہے"

 بھید کھلتے ہیں موت کے جن پر
 ان کی نظروں میں زندگی کیا ہے
 
آشنا جو نہ ہو تلاطم سے
 پوچھو لہروں سے وہ ندی کیا ہے
 
  
جس میں ہوتی نہ حاضری دل کی
 تم بتاؤ وہ بندگی کیا ہے
 
رہ جو بھٹکائے ساتھ میں چل کر
ایسے رہبر کی رہبری کیا ہے

جب تعلق نہیں کوئی ہم سے
بات بے بات برہمی کیا ہے

جو نہ مشکل میں ساتھ ہو طحہ
وہ ہی بتلائے دوستی کیا ہے

طحہ صدیقی



بلال واصف

یوم پیدائش 03 اکتوبر 2001

میرے خوابوں کا کارواں اک شعر
میری ہستی کا رازداں اک شعر

ہـے یہ عادت مری میں کہتا ہوں
اپنی باتوں کے درمیاں اک شعر

ساری غزلوں میں اک غزل بہتر 
اور پوری غزل کی جاں اک شعر

ایسی محفل میں کیسے لطف آئے
کوئی کہتا نہیں جہاں اک شعر

شعر کہتا ہے جلتے جلتے دل
لکھ رہا ہے دھواں دھواں اک شعر

بخشتا ہے سکون واصف کو
روز ہوتا ہے مہرباں اک شعر 

بلال واصف



عامر آر زبیری

یوم پیدائش 03 اکتوبر 

شکستہ ناؤ میری ناخدا کے ہاتھوں میں
مرے خدا تو حفاظت سے پار اتار مجھے

عامر آر زبیری


 

صدیق اکبر

یوم پیدائش 03 اکتوبر 1995

اس سے پہلے کہ تعلق کو نبھانا پڑ جائے
درمیاں اپنے مری جان زمانہ پڑ جائے

دسترس ہوتی ہے پھولوں پہ ہمہ وقت مجھے
جانے کب روٹھے وہ کس وقت منانا پڑ جائے

رات کو سوتا ہوں سامانِ ملاقات کے ساتھ
کیا خبر مجھ کو ترے خواب میں آنا پڑ جائے

میں نے اس تتلی سے اک روز یونہی پوچھ لیا
موسمِ گُل میں اگر باغ سے جانا پڑ جائے

ختم ہو جائے انا زادی ترا حسن و جمال
اور پھر تیرے گلے آئنہ خانہ پڑ جائے

صدیق اکبر



مصطفیٰ دلکش

یوم پیدائش 03 اکتوبر 1966

تو مسیحا ہے تری ایک ادا کافی ہے
جاں بہ لب کو ترے دامن کی ہوا کافی ہے

جب بھی یاد آؤں تصور میں تصور کرنا
مجھ سے ملنے کے لئے اتنا پتہ کافی ہے

میری نظروں کی خطا کم ہے ترے سر کی قسم
میرے دلبر ترے جلوؤں کی خطا کافی ہے

تیری فرقت نے جوانی کا مزہ چھین لیا
چاہنے والے کو بس اتنی سزا کافی ہے

کام آتے نہیں تا عمر یہ مٹی کے چراغ
آپ کی یاد کا بس ایک دیا کافی ہے

ساری دنیا کی دعائیں میں کہاں رکھوں گا
میری بخشش کے لئے ماں کی دعا کافی ہے

پھول کی طرح کھلے ہیں ترے زخموں کے گلاب
اور کیا چاہئے دلکشؔ یہ دوا کافی ہے

مصطفیٰ دلکش


 

کلیم اختر

یوم پیدائش 03 اکتوبر 1968

تیرے میرے گھر کی حالت باہر کچھ اور اندر کچھ 
جیسے ہو پھولوں کی رنگت باہر کچھ اور اندر کچھ 

باہر باہر خاموشی ہے اندر اندر ہنگامہ 
کیسی ہے یہ جسم کی حدت باہر کچھ اور اندر کچھ 

لفظ ہے کچھ اور معنی کچھ ہر مصرعے میں فن کار ہے غم 
ایسے ویسے شعر کی لذت باہر کچھ اور اندر کچھ 

کیوں نہ آنکھ میں آنسو آئے کیوں نہ دل کو چوٹ لگے 
اپنے اپنے دیس کی حالت باہر کچھ اور اندر کچھ 

کوئی نہ شاید جان سکے گا سورج کی متوالی چال 
شہر میں کیوں ہے دھوپ کی شدت باہر کچھ اور اندر کچھ 

گہری نظر والوں میں اخترؔ روشن ہے پہچان الگ 
پھر بھی کیوں ہے آپ کی عزت باہر کچھ اور اندر کچھ 

کلیم اختر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...