جنابِ من امانِ جان چاہوں گا
متاعِ درد پر دربان چاہوں گا
ہوا ہے فیصلہ جو ملتوی کل تک
میں اُس کے ہونے کے امکان چاہوں گا
ضمیرِ آدمیت کی صدا ہوں مَیں
کسی کا کیوں بھلا نقصان چاہوں گا
پناہِ شب ضروری تو نہیں لیکن
ملا موقع تو میں خلجان چاہوں گا
مجھے خود ذات کے جنگل میں رہنے دو
یہی اک وادیِ ویران چاہوں گا
دعاؤں میں، مناجاتوں میں، سجدوں میں
فقط مَیں دولتِ ایمان چاہوں گا
شجرؔ ہوں ، میں تو ہر تخلیق میں اپنی
نئے مضموں نئے عنوان چاہوں گا