Urdu Deccan

Monday, October 24, 2022

ظفر صدیقی

یوم پیدائش 10 اکتوبر 

میرے دل میں اتر گیا کوئی
 اس قدر پیار کر گیا کوئی
 
رقص کرنے لگی جوانی بھی
 یوں نظر ڈال کر گیا کوئی

 عشق میں ڈوب کر ہی دیوانہ  
 حسن پر آج مر گیا کوئی

کیا بھرے گا اڑان اونچی وہ 
پر ہی اس کے کتر گیا کوئی

زندگی بے مزہ ہوئی اس دم
روٹھ کرجب ظفر گیا کوئی
   
ظفر صدیقی 



امیر انصاری

یوم پیدائش 10 اکتوبر 1960

بیٹھا ہے مسئلوں کے جو طوفاں کو ٹال کر
کاغذ کی ناؤ رکھے گا کب تک سنبھال کر

وہ جو سڑک کنارے کھڑا ہے لہولہان
پچھتا رہا ہے بھیڑ میں پتھر اچھال کر

مصروفیت میں گھر کی پتا ہی نہیں چلا
کب باپ بوڑھا ہوگیا بچوں کو پال کر

تھی اک لگن کہ خشک نہ ہوں غم کی کھیتیاں
لایا ہوں پتھروں سے میں دریا نکال کر

رشتوں کا کوڑھ ڈسنے لگا جب وجود کو
پینے لگا وہ نیم کے پتے ابال کر

بیٹھا ہوا نہ گھات میں ہو خونی حادثہ
کیجے سڑک کو پار مگر دیکھ بھال کر

اب تو امیرِ شہر بھی دیتا نہیں جواب
اے مفلسی دراز نہ دستِ سوال کر

امیر انصاری


 

احسان مخلص

یوم پیدائش 10 اکتوبر 1964

با ادب جن و بشر چاند ستارے ہوں گے
ہیں جہاں پر وہ ، حسیں چاند ستارے ہوں گے

تم کو دنیا کی نگاہوں میں ملے گی عزت
گیسوئے زیست اگر تم نے سنوارے ہوں گے

پھر نہ تنہائیاں تاکیں گی تمھاری جانب
اس کے ہو جاؤ اگر تم ، وہ تمھارے ہوں گے

دل کی دھڑکن تو کبھی روکے نہیں رک سکتی
جب تلک جاری نہیں ان کے اشارے ہوں گے

محوِ ماتم نظر آئیں گی یقیناً موجیں
حادثے جب بھی سمندر کے کنارے ہوں گے

نام ہے جن کا بسا دل میں ہمارے مخلصؔ
وقتِ مشکل میں وہی اپنے سہارے ہوں گے

احسان مخلص



عارف زماں

یوم پیدائش 10 اکتوبر 1965

راہ منزل کی مسافر کو سجھاتے ہیں چراغ 
روشنی کر کے اندھیروں کو مٹاتے ہیں چراغ 

جن کی آنکھیں نہیں ان کے لئے بے فیض مگر 
آنکھ والوں کے بہت کام بناتے ہیں چراغ 

دن نکلتا ہے تو ہو جاتے ہیں یہ بے وقعت 
ظلمت شب میں مگر رنگ جماتے ہیں چراغ 

یاد کرتا ہوں میں اس رشک قمر کو ایسے 
جس طرح لوگ اندھیرے میں جلاتے ہیں چراغ 

ڈر کے تاریکی سے جو ترک سفر کرتا ہے 
حوصلہ ایسے مسافر کا بڑھاتے ہیں چراغ 

چین سے بیٹھنا لوگوں کو کہاں آتا ہے 
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ 

درس دیتے ہیں محبت کا زماںؔ کو اکثر 
لوگ نادان ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ

عارف زماں



حسین سحر

یوم پیدائش 10 اکٹوبر 1942

کرن کرن کے درخشندہ باب میرے ہیں 
تمام روشنیوں کے نصاب میرے ہیں 

شبوں کے سبز جزیرے ہیں سب مری اقلیم 
تمام جاگتی آنکھوں کے خواب میرے ہیں 

میں ہوں تمام دھڑکتے دلوں کا شیدائی 
یہ آبگینے یہ نازک حباب میرے ہیں 

تمام عمر تخاطب مرا مجھی سے رہا 
سوال میں نے کئے ہیں جواب میرے ہیں 

خدائے دشت کی تقسیم پر میں راضی ہوں 
کہ آب پارے ترے ہیں سراب میرے ہیں 

نصیب آج ہیں کانٹے اگر تو کیا غم ہے 
نئی رتوں کے شگفتہ گلاب میرے ہیں 

میں آفتاب کے مانند ہوں نقیب سحرؔ 
سیاہیوں پہ سبھی احتساب میرے ہیں 

حسین سحر



عمرانہ مشتاق مانی

یوم پیدائش 10 اکتوبر 1963

آ گیا وقت اگر پیار میں رسوائی کا 
لوگ دیکھیں گے تماشا ترے سودائی کا 

روح سے جسم الگ کرنے کے پس منظر میں 
ہے کوئی ہاتھ یقیناً کسی ہرجائی کا 

جاں غم وصل کی اک شام منائیں آ جا 
شور سنتی ہوں سسکتی ہوئی شہنائی کا 

میں ترے پیار کو دنیا سے چھپاؤں کیسے 
رنگ آنکھوں سے برستا ہے شناسائی کا 

خیر ہو آج مرے دل کے بیابانوں کی 
مانیؔ کرنا نہیں ماتم شب تنہائی کا 

عمرانہ مشتاق مانی



Saturday, October 22, 2022

موسیٰ رضا

یوم پیدائش 10 اکتوبر 1976

تم میرے ساتھ بھی جدا بھی ہو 
تم مرا درد بھی دوا بھی ہو 

تم سفینہ بھی ناخدا بھی ہو 
تم تلاطم بھی آسرا بھی ہو 

ڈھونڈھتا ہوں کہاں کہاں تم کو 
راہزن تم ہو رہنما بھی ہو 

تم ہی ہو میری گرمئی آغوش 
میرے پہلو کا تم خلا بھی ہو 

دل کے رکنے کی ہو تم ہی آواز 
دل کی دھڑکن کی تم صدا بھی ہو 

پی کے سرشار بھی ہوں پیاسا بھی 
تشنگی بھی ہو تم نشہ بھی ہو 

موسیٰ رضا



عارف عسکری

یوم پیدائش 10 اکتوبر 1960

مشعل سا کوئی پھول کھلا خاک پر نہیں 
یہ اس لئے کہ روشنی اب چاک پر نہیں 

مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں صبر ہی کروں
میٹھا جو کوئی پھل ہو، ابھی تاک پر نہیں 

جلنے لگا ہوں جسم کے اندر سے میں کہیں 
ہجراں کی آگ اب مری پوشاک پر نہیں 

صحرا ، میاں تو خود کو گلے سے لگا کے دیکھ
حیرت جو میرے دیدہء نمناک پر نہیں 

دیکھو ، یہ آبشار ، پرندے ، حسین پیڑ
لگتا ہے جیسے کوہ و دمن خاک پر نہیں 

چلتا ہے کوئی زور دل_ناتواں پہ بس
کچھ بھی توانا ،سر کش و بے باک پر نہیں 

ان میں سے ایک پر کوئی وعدہ بھی تھا ترا
گذرا ہوا زمانہ جن اوراق پر نہیں

آنکھوں کے بھیگنے کی ستاروں کو کیا خبر 
بارش جو خاک پر ہے وہ افلاک پر نہیں

ملبہ اٹھا کے لے گئے وہ انہدام سے
مسمار ہو کے بھی کوئی اب خاک پر نہیں 

ہاں اس لحاظ سے مجھے مفلس خیال کر
دنیا مری نظر تری املاک پر نہیں 

ڈرتا ہوں خود ہدف نہ اسی تیر کا بنوں
فتراک میں جو بوجھ سا فتراک پر نہیں 

انجان سا جو خوف برابر میں آ بسا
پہلے سی وہ گرفت مری دھاک پر نہیں 

عارف میں جس کو چھونے لگا ہوں خیال میں 
شاید اسے یقیں مرے ادراک پر نہیں

عارف عسکری


 

شہود عالم آفاقی

یوم وفات 09 اکتوبر 2000

آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا 
شہرت ذرا ملی تو وہ مغرور ہو گیا 

اب رقص خاک و خوں پہ کوئی بولتا نہیں 
جیسے یہ میرے ملک کا دستور ہو گیا 

دشمن سے سرحدوں کو بچانا تھا جس کا کام 
اپنوں کو قتل کرنے پہ مامور ہو گیا 

گمنام تھا لباس شرافت کی وجہ سے 
دستار مکر باندھی تو مشہور ہو گیا 

سورج بھی اعتماد کے قابل نہیں رہا 
آیا جو وقت شام تو بے نور ہو گیا 

نالہ جو بہہ رہا تھا مرے گاؤں میں شہودؔ 
دریا سے مل گیا ہے تو مغرور ہو گیا

شہود عالم آفاقی



ناطق لکھنوی

یوم وفات 09 اکتوبر 1950

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح 
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح 

دل کے سوا کوئی نہ تھا سرمایہ اشک کا 
حیراں ہوں کام آنکھوں کا جاری ہے کس طرح 

عنصر ہے خیر و شر کا ہر اک شے میں یوں نہاں 
ہر شمع بزم نوری و ناری ہے جس طرح 

بس یوں سمجھ لو مجھ کو امید سحر نہ تھی 
کیا پوچھتے ہو رات گزاری ہے کس طرح 

اس نقش مستقل پہ ہے شرمندہ آئینہ 
تصویر ان کی دل پہ اتاری ہے اس طرح 

ناطقؔ جلال میں بھی اثر اس قدر نہیں 
رعب جمال قلب پہ طاری ہے جس طرح

ناطق لکھنوی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...