Urdu Deccan

Tuesday, November 22, 2022

فرزانہ فرح

یوم پیدائش 08 نومبر 1972

گزرے دنوں کی یاد عجب کام کرگئی
کاغذ پہ تیرا نام لکھا آنکھ بھر گئی

اس ذاتِ باصفات کا کیا تذکرہ کیا
 اک روشنی تھی پھیلی جہاں تک نظر گئی

اپنی دکان اہلِ تمدن بڑھا گئے
 تہذیب آج وحشت و ظلمت سے ڈر گئی

 کچھ شوق نے سکھادئے آدابِ بندگی
کچھ آنکھ اپنی آکے تمہی پر ٹھہر گئی

 نفرت کی سازشوں میں فقط میرا سر گیا
میرے سوا بلا یہ کبھی کس کے سر گئی

قدریں بدل گئیں کبھی شرطیں بدل گئیں
یوں خشت جسم و جان کبھی کی بکھر گئ

باہر کے یہ اجالے کسی کام کے نہیں
ظلمت اگر ہمارے ہی اندر اتر گئی

فرزانہ فرح



سمن نسیمی

یوم پیدائش 08 نومبر 1970

رات کی بات سی بھول جاؤگے تم
اور بولو قسم کتنی کھاؤگے تم

سخت جھوٹے ہو تم میں یہ کہتا نہیں
سچ کا دکھڑا کہاں تک سناؤگے تم

ہارنے کی اذیت اٹھاتا ہوں میں
ہارے لشکر سے کیا جیت پاؤگے تم

روز کہتا ہوں مہماں بناؤں گا میں
روز سنتا ہوں گھر آج آؤگے تم

میں بلا سے کسی کام کا ہی نہیں
تھام کے دل کہو بھول پاؤگے تم

اپنا کہنے نہ کہنے کی اس جنگ میں
جیت جاؤں گا میں ہار جاؤگے تم

سربلندی مرا ہے مقدر سنو
کاٹ بھی دوگے نیزے اٹھاؤگے تم

مہرباں ہو مری پاسداری کرو
گھاؤ اندر کا کس کو دکھاؤگے تم

محفلِ شہریاراں میں حالِ سمن
کوئی قصہ نہیں جو سناؤگے تم

سمن نسیمی



خدیجہ عرفان نینا

یوم اردو مبارک ہو 

ہمارے لہجے میں شائستگی ہے خوشبو ہے 
یہ کیوں نہ ہو کہ ہماری زبان اُردو ہے 

خدیجہ عرفان نینا

 


ریاض حسین چودھری

یوم پیدائش 08 نومبر 1941

ظہورِ اول، ظہورِ آخر، ظہورِ شمس و قمر سے پہلے
انہیﷺ کا چرچا تھا لامکاں میں ہجومِ شام و سحر سے پہلے

مرے نبیﷺ کو بنا کے رحمت، خدا نے بھیجا ہے کل جہاں میں
کرم کی کلیاں چٹک رہی ہیں، چمن میں شاخِ کرم سے پہلے

یہ کہکشاں تو غبارِ رہ ہے، حضورﷺ کی رفعتیں نہ پوچھو
نصیب چمکے تھے عرش والو، ورودِ خیرالبشرﷺ سے پہلے

انہیﷺ کے نقشِ قدم سے کیا کیا چراغ روشن ہیں شہرِ جاں میں
ذرا یہ پوچھو تو ہمنشینو! کسی کے قلب و جگر سے پہلے

وہﷺ جانتے ہیں تڑپ رہا ہے غریب شاعر پسِ حوادث
چراغِ رہ بھی ضرور دیں گے حضورﷺ اذنِ سفر سے پہلے

جہان والو! بغور سن لو! مرے بھی آقاﷺ ہیں شاہِ طیبہ
سنیں گے فریاد بے کسوں کی، فغانِ خونِ جگر سے پہلے

ہے سامنے روضۂ مبارک مگر نگاہیں جھکی ہوئی ہیں
نصابِ حُبِّ نبیﷺ تو پڑھ لے، کہو تم اپنی نظر سے پہلے

بڑے ادب سے درود پڑھ کر سلام کہنا، ضرور کہنا
دعاؤ آقاﷺ کے در پہ جانا، حدودِ بابِ اثر سے پہلے

صبا ابھی تک درِ نبیﷺ پر کھڑی ہے میری بیاض لے کر
کلام میرا پہنچ چکا ہے، ریاضؔ مجھ بے ہنر سے پہلے

مری متاعِ ہنر یہی ہے، ریاضؔ زادِ سفر یہی ہے
جو اشک جلتے ہیں میری آنکھوں کی چلمنوں میں سحر سے پہلے

ریاضؔ نامہ سیہ ہے اپنا مگر تمنا ہے عاصیوں کی
عقیدتوں کے ہوں پھول دامن میں میرے حکمِ سفر سے پہلے

ریاض حسین چودھری


 

عزیر ربانی

یوم پیدائش 07 نومبر 1936
نظم(سونے کی چڑیا)

مذہب کی آڑ لے کر فتنے جگانے والو
بنیاد بغض و کینہ پر گھر اٹھانے والو
مظلوم بے کسوں کو ناحق ستانے والو
جس کے لیے ہے دنیا اس کو مٹانے والو
تم کیسے فتنہ گر کی باتوں میں آگئے ہو
انسان ہو کے انساں پر ظلم ڈھا رہے ہو

مکر و فریب والے عادل بنے ہوئے ہیں
علم و ہنر کے مالک جاہل بننے ہوئے ہیں
یہ پاسبانِ گلشن کاہل بننے ہوئے ہیں
معصوم کے نگہباں قاتل بننے ہوئے ہیں
ہر شعبۂ حکومت کی بات ہے نرالی
الٹی کہیں ہے مینا خالی کہیں ہے پیالی

جمہوریت میں کیسی تقسیمِ زندگی ہے
محلوں کے زیرِ سایہ کیوں ٹوٹی جھونپڑی ہے
زردار کے گھروں میں دولت بھری پڑی ہے
اور دیس کی یہ جنتا سب بھوکوں مر رہی ہے
یہ رہنما ہمارے نستی لٹا رہے ہیں
روتی ادھر ہے جنتا ، وہ مسکرا رہے ہیں

سونے کی آج چڑیا بے پر کی ہوگئی ہے
دامِ قفس سے چھٹ کر بے درکی ہوگئی ہے
جو بولتی تھی پہلے پتھر کی ہوگئی ہے
اکیسویں صدی کے آذر کی ہوگئی ہے
ابراہمی جواں ہی اس کو زبان دے گا
اک فلسفی ہی ایسے پتھر میں جان دے گا

عزیر ربانی



زینت کوثر خانم

یوم پیدائش 07 نومبر 1965

(نظم)
اردو زبان کی زبوں حالی

پہلے کچھ اور تھی شوکتِ شانِ اردو
اور محفوظ تھا ہر دل میں نشانِ اردو
بے زبان کو بھی ملا حسنِ بیانِ اردو
تا بہ لب آ ہی گئی آج فغانِ اردو
قصہ دل دوز ہے یہ اشک فشانی سنیے
داستاں اردو کی اردو کی زبانی سنیے

رنگ گلزارِ فصاحت کا نکھارا میں نے
ہند کا گیسوئے تہذیب سنوارا میں نے
روہروِ شوق کو دے دے کے سہارا میں نے
ہر قدم پر رہِ ہستی میں ابھارا میں نے
راہِ آزادیِ کامل پہ لگا کر چھوڑا
شمعِ اخلاص کا پروانہ بنا کر چھوڑا

طرزِ گفتار کو بجلی کی روانی بخشی
انتہا یہ ہے کہ بوڑھوں کو جوانی بخشی

معجزہ حسنِ تدبر کا دکھایا میں نے
ہند کے ڈھانچے کا ہر جوڑ ملایا میں نے

زینت کوثر خانم

 

رہبر حمیدی

یوم پیدائش 07 نومبر 1938

نہیں ہے کچھ بھی سوا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
بگو بنامِ خدا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
غفور تو ہے گنہگار رہبر تنہا
نگاہِ عفو ذرا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

رہبر حمیدی


 

محمد نعیم جاوید نعیم

یوم پیدائش 07 نومبر 1954

محبت کے مراحل ہوں یا میدان عداوت ہو 
کبھی جذبات میں بہنا مجھے اچھا نہیں لگتا 

وہ اتنا خوب صورت ہے کہ اس کے جسم پر سج کر 
کوئی زیور کوئی گہنا مجھے اچھا نہیں لگتا 

سنو منظور ہیں اب تو مجھے نا حق سزائیں بھی 
سدا ملزم بنے رہنا مجھے اچھا نہیں لگتا 

رفاقت کے معانی جس نے سمجھائے مجھے برسوں 
اب اس کو بے وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا 

مرا تو سلسلہ ہے خرقہ پوشوں کے قبیلے سے 
مجھے مت خلعتیں پہنا مجھے اچھا نہیں لگتا 

کناروں کی الگ ہی بات ہوتی ہے نعیمؔ اپنی 
جزیروں پر سدا رہنا مجھے اچھا نہیں لگتا 

محمد نعیم جاوید نعیم



اسد اقبال

یوم پیدائش 06 نومبر 1985

غور سے سُن مری یہ بات سمجھ
عشق کر اور کائنات سمجھ

مر کے جی، جی کے مر، فنا سے گُزر
اِس طرح مقصدِ حیات سمجھ

جاگ پہلو سے اِس کے راز کشید
کیوں بنائی گئی ہے رات سمجھ

یہ زمیں آسمان سات ہیں سب
خاص ہے یار حرف ِ سات سمجھ

دیکھ لہجے کی چاشنی پہ نہ جا
اِس میں پنہاں تاَثُّرات سمجھ 

دوستا اُس کے بعد دل کو لگا
پیشتر آدمی کی ذات سمجھ

مشورہ مان صورتوں کو نہ دیکھ
اِن حسینوں کی نفسیات سمجھ

یاد کر عرصہ ء شباب اسد
اور پِسَر کی سفارشات سمجھ 

اسد اقبال



فیصل عظیم

یوم پیدائش 06 نومبر 1974

نہ چہرے سے نہ آنکھوں سے عیاں عشق 
ابھی دل پر ترے اترا کہاں عشق 

ابھی تک صرف آوازیں سنی ہیں 
ابھی تک لکھ رہی ہیں انگلیاں عشق 

زباں پر اس قدر گردان کیوں ہے 
تو کیسے ہوش میں کہتا ہے ہاں عشق 

زمیں سے آسماں تک گل کھلے ہیں 
تڑپ کر ہو رہے ہیں جسم و جاں عشق 

یہی تو اعتبار شب کدہ ہے 
مرا حاصل ہے یہ کار زیاں عشق

فیصل عظیم



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...