گزرے دنوں کی یاد عجب کام کرگئی
کاغذ پہ تیرا نام لکھا آنکھ بھر گئی
اس ذاتِ باصفات کا کیا تذکرہ کیا
اک روشنی تھی پھیلی جہاں تک نظر گئی
اپنی دکان اہلِ تمدن بڑھا گئے
تہذیب آج وحشت و ظلمت سے ڈر گئی
کچھ شوق نے سکھادئے آدابِ بندگی
کچھ آنکھ اپنی آکے تمہی پر ٹھہر گئی
نفرت کی سازشوں میں فقط میرا سر گیا
میرے سوا بلا یہ کبھی کس کے سر گئی
قدریں بدل گئیں کبھی شرطیں بدل گئیں
یوں خشت جسم و جان کبھی کی بکھر گئ
باہر کے یہ اجالے کسی کام کے نہیں
ظلمت اگر ہمارے ہی اندر اتر گئی