Urdu Deccan

Monday, December 5, 2022

احمد علی برقی اعظمی

یوم وفات 05 دسمبر 2022

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ 
اللہ مغفرت فرمائے آمین

ناظم ادبی گروپ اردو دکن محبی فضل احمد کی اردو ادب اور ادیب نوازی سے متاثر ہوکر منظوم تاثرات
محبی فضل احمد کی نذر
احمد علی برقی اعظمی
فضل احمد اردو کے ہیں پاسدار
ان کو اردو کے ادیبوں سے ہے پیار
ادبی صفحہ ان کا ہے اردو دکن
دیکھیں اس کو فیس بک پر ایک بار
آپ کو چل جاٸے گا اس کا پتہ
اردو کے بے لوث ہیں وہ جاں نثار
کس کا ہے یوم تولد آج انھیں
رہتا ہے شدت سے اس کا انتظار
مستحق ہیں داد اور تحسین کے
ساتھ ان کے جو بھی ہیں رفقاٸے کار
ان کو ہر شاعر ہے اردو کا عزیز
اس لٸے شیدا ہے ان کا خاکسار
ان کے حق میں ہے یہ برقی کی دعا
دے جزاٸے خیر انھیں پروردگار

احمد علی برقی اعظمی


 

چمن امروہوی

یوم پیدائش 05 دسمبر 1940

یقیں ہے اس کی دعا میں اثر نہیں ہوتا
جو غم میں ڈوبا ہوا دل جگر نہیں ہوتا

نگاہیں ہوتی ہیں در پر تو کان آہٹ پر
پیام آپ کا جب گوش بر نہیں ہوتا

دلوں کے تار سے پیغام آتے جاتے ہیں
اگر کسی کا کوئی نامہ بر نہیں ہوتا

چمن امروہوی


 

نلنی وبھا نازلی

یوم پیدائش 05 دسمبر 1954

وہ امتحان میں جب ہم کو ڈال دیتا ہے 
جو لا جواب ہوں ایسے سوال دیتا ہے 

وہ میری فکر تغزل میں ڈھال دیتا ہے 
مرا خدا مجھے نازک خیال دیتا ہے 

اتارتا ہے مرے ذہن پر نئے اشعار 
دھنک کے رنگ غزل میں وہ ڈال دیتا ہے 

یہ پنچھیوں کے جو نغمے سنائی دیتے ہیں 
کوئی تو دیتا ہے سر ان کو تال دیتا ہے 

پناہ دیتا ہے یوں پنچھیوں کو آنچل میں 
درخت دھوپ کو سائے میں ڈھال دیتا ہے

وہ جس کی دین ہیں سانسیں اگر وہ چاہے تو 
بشر کو موت کے منہ سے نکال دیتا ہے 

نصیب قید ہے سب کا اسی کی مٹھی میں 
وہی بشر کو عروج و زوال دیتا ہے 

وہی دلوں پہ لگاتا ہے زخم اور وہی 
دلوں کو ضبط کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے 

خدا کا شکر کرو دلبرو کہ جو تم کو 
وقار دیتا ہے حسن و جمال دیتا ہے 

کروں میں اس کی ملامت نہیں مری تہذیب 
جو نازلیؔ مجھے پل پل ملال دیتا ہے 

نلنی وبھا نازلی


 

کلیم احسن بٹ

یوم پیدائش 05 دسمبر 1964

اِس شہرِ پُر ملال کی دنیا ہی اور ہے
اُس حسنِ لازوال کی دنیا ہی اور ہے

عکس و خیال و خواب کی دنیا ہے اور کچھ
اس صاحبِ جمال کی دنیا ہی اور ہے

ہم خاک زاد اس کو سمجھتے بھی کس طرح
جب نورِ بے مثال کی دنیا ہی اور ہے

دنیا حدودِ وقت سے باہر بھی ہے ابھی
یعنی ہمارے حال کی دنیا ہی اور ہے

رقصاں ہے اس کے عشق میں ہر قافیہ، ردیف
یعنی مرے کمال کی دنیا ہی اور ہے

کلیم احسن بٹ


 

سید انجم رومان

یوم پیدائش 05 دسمبر 1968

سنا ہے تیری نظر میں حقیر میں بھی ہوں
خدا کا شکر کہ روشن ضمیر میں بھی ہوں

سند ملے گی زبان وادب میں کیوں نہ بھلا
کہ اک رسالے کا سابق مدیر میں بھی ہوں

جھکے ہیں اکبر و خلجی جنابِ عالی یہاں
جو آپ شاہِ جہاں تو فقیر میں بھی ہوں

بساطِ زیست پہ چلیے نہ مہرے، یاد رہے
کہ جس سے شاہ گرے وہ وزیر میں بھی ہوں

ہوئی جو شام تو آنسو بنی مری بھی غزل
نئے زمانے کا ادنیٰ سا میر میں بھی ہوں

امیر زادی نے توڑا یہ دل تو یاد آیا
کسی غریب کی آنکھوں کا نیر میں بھی ہوں

جو وہ ہے ایک تبسم تو میں ہوں اشکِ رواں
وہ بے مثال سہی بے نظیر میں بھی ہوں

سنور رہا ہوں کسی کی نگاہ میں انجم
کہ خوش گمانی کا یوں ہی اسیر میں بھی ہوں

سید انجم رومان


 

نوشابہ ہاشمی

یوم پیدائش 05 دسمبر 1977

کیسی برکت ترے درود میں ہے
اک ستارہ مرے وجود میں ہے

وسوسے ، ڈر ، گمان ہیں سب ہیچ
اک یقیں اب مرے ورود میں ہے

سرحدوں پر بھی ہے نظر میری
دائرہ کار بھی حدود میں ہے

کب مزا ہے کسی رہائی میں
جو مزا عشق کی قیود میں ہے

سارا کمرا مرا معطر ہے
تیرا احساس مشکِ عود میں ہے

تیرے جانے سے یوں ہوا محسوس
جیسے سارا جہاں جمود میں ہے

ایک دنیا میں ہے وجود مرا
ایک دنیا مرے وجود میں ہے

اپنے افکار باوضو کر لو
مکتبِ عشق اب نمود میں ہے

یہ پیامِ سحر ہے نوشابہ
اک صباحت مرے ورود میں ہے

نوشابہ ہاشمی



انیس امروہوی

یوم پیدائش 05 دسمبر 1954

سچے بھی اس کے سامنے ہوتے تھے شرمسار
وہ جھوٹ بولتا تھا بڑے اعتماد سے

انیس امروہوی


 

اسریٰ رضوی

یوم پیدائش 05 دسمبر 1993

اداس آنکھیں غزال آنکھیں 
جواب آنکھیں سوال آنکھیں 

ہزار راتوں کا بوجھ اٹھئے 
وہ بھیگی پلکیں وہ لال آنکھیں 

وہ صبح کا وقت نیند کچی 
خمار سے بے مثال آنکھیں 

بس اک جھلک کو تڑپ رہی ہیں 
رہین شوق وصال آنکھیں 

جھکی جھکی سی مندی مندی سی 
امین ناز جمال آنکھیں 

وہ ہجر کے موسموں سے الجھی 
تھکی تھکی سی نڈھال آنکھیں 

نہ جانے کیوں کھوئی کھوئی سی ہیں 
بجھی بجھی پر خیال آنکھیں 

ہیں شوخیوں سے چھلکنے والی 
محبتوں سے نہال آنکھیں 

اگر نگاہوں سے مل گئیں تو 
کریں گی جینا محال آنکھیں 

چھپے ہوئے ہیں ہزار جذبہ 
بلا کی ہیں یہ کمال آنکھیں

اسریٰ رضوی


 

ظفر کلیم

یوم پیدائش 05 دسمبر 1938

کھڑکی سے مہتاب نہ دیکھو 
ایسے بھی تم خواب نہ دیکھو 

ڈوب رہے سورج میں یارو 
دن کی آب و تاب نہ دیکھو 

ہرجائی ہیں لوگ یہاں کے 
اس بستی کے خواب نہ دیکھو 

اندر سے ہم ٹوٹ رہے ہیں 
باہر کے اسباب نہ دیکھو 

فن دیکھو بس ملاحوں کا 
دریا کے سیلاب نہ دیکھو 

سچے سپنے دو آنکھوں کو 
جھوٹے ہوں وہ خواب نہ دیکھو 

دیوانہ ہوں دیوانہ میں 
تم میرے آداب نہ دیکھو 

غم میں بھی ہم خوش رہتے ہیں 
غم سہنے کی تاب نہ دیکھو 

دیکھو اپنے عیب ظفرؔ جی 
کیسے ہیں احباب نہ دیکھو

ظفر کلیم



ظفر کلیم

یوم پیدائش 05 دسمبر 1938

گھر سے نکالے پاؤں تو رستے سمٹ گئے 
ہم یوں چلے کہ راہ کے پتھر بھی ہٹ گئے 

ہم نے کھلے کواڑ پہ دستک سنی مگر 
وہ کون لوگ تھے کہ جو آ کر پلٹ گئے 

در بند ہی رکھو کہ ہواؤں کا زور ہے 
اب کے کھلے کواڑ تو سمجھو کہ پٹ گئے 

غارت گریٔ زور تلاطم ارے غضب 
کشتی کے بادبان ہواؤں سے پھٹ گئے 

صحرا کی تیز دھوپ گھنے جنگلوں کی چھاؤں 
ان میں مرے نصیب کے دن رات بٹ گئے 

شہرت کی آرزو نے کیا بے وطن ہمیں 
اتنی بڑھی غرض کہ اصولوں سے ہٹ گئے 

جب جب بھی میں نے ترک وطن کا کیا خیال 
قدموں سے میرے گاؤں کے رستے لپٹ گئے 

کن سے کریں شکایت جور و ستم ظفرؔ 
اپنے گلے تو اپنے ہی خنجر سے کٹ گئے

ظفر کلیم


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...